دْنیا بھرکے بچّے خوبصورت ہوتے ہیں لیکن کچھ قوموں کو حْسن میں حصہ زیادہ ملتا ہے اور فلسطینی بھی ان میں ہیں۔ فلسطینی بچّے چنانچہ بہت خوبصورت ہوتے ہیں لیکن ان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ زیادہ جی نہیں پاتے۔ کسی کو ایک دن کی عمر میں مار دیا جاتا ہے، کسی کو ایک مہینے، کسی کو ایک سال کی عمر میں۔ دس سال کی عمرکو پہنچنے والے بچوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے اور اس سے اْوپر اور بھی کم۔
فلسطینی بچّوں کے جسم سڈول اور سمارٹ ہوتے ہیں لیکن جسم کی یہ موزونی بھی پائیدار نہیں۔ کسی کا بازو کٹ جاتا ہے کسی کی ٹانگ، کسی کے دونوں بازو، کسی کی دونوں ٹانگیں، موزوں جسم غیر موزوں ہو جاتا ہے۔ کسی کا سر ہی کٹ جاتا ہے چنانچہ موزوں غیر موزوں کا سوال ہی نہیں رہتا۔
فلسطینی بچیاں اپنے بھائیوں سے بہت پیار کرتی ہیں لیکن پیار کا یہ بندھن رہ نہیں پاتا۔ کبھی بھائی مر جاتے ہیں، کبھی خود بہنیں اور کبھی بھائی بہن، دونوں۔
فلسطینی ماں باپ اپنے بچّوں پر جان چھڑکتے ہیں، انہیں"روحی" کا نام دیتے ہیں، یعنی میری روح، میری جان۔ لیکن جان چھڑکنے کیلئے یہ بچّے زیادہ دیر دستیاب نہیں رہتے، مار دئیے جاتے ہیں۔ ابھی ایک کلپ دیکھا، ایک ماں بہت پْرسکون اپنے بچّے کی لاش گود میں لئے بیٹھی ہے۔ رو نہیں رہی ہے، اس کی آنکھوں میں نمی تک نہیں ہے۔ لیکن ہر تھوڑی دیر بعد اس کے سینے سے کان لگاتی ہے، پھر کہتی ہے، سانس نہیں لے رہا، کچھ دیر بعد لے گا۔
فلسطینی بچّے ذہین ہوتے ہیں، انہیں گمراہ کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ایک ویب سائٹ پر انہیں گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی، یہ کہہ کر کہ وہ اکیلے نہیں ہیں، دو ارب کی "اْمّہ" ان کے ساتھ ہے۔ فلسطینی بچّے نے مْسکرا کر گمراہ کرنے کی کوشش ناکام بنا دی اور ویب کا صفحہ بند کر دیا۔
فلسطینی بچّوں میں ایک اور غیر معمولی خاصیت ہے۔ دنیا بھر کے بچّے خواب دیکھتے ہیں، جھوٹے بھی اور سچّے بھی۔ فلسطینی بچّے صرف سچے سپنے دیکھتے ہیں، ان کا خواب جھوٹا نکلے، ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ کھیل کے میدان میں بچّے کھیلتے ہیں، پھر اپنا خواب بتاتے ہیں کہ ہم نے خواب میں دیکھا کہ آج ہم یہاں آخری بار کھیل رہے ہیں اور یہ خواب سچا نکلتا ہے۔ اسی سہ پہر کو یا اسی رات کو وہ زندگی کے کھیل کا میدان اْن سے ہمیشہ کیلئے چھین لیا جاتا ہے۔ رات کو وہ سوتے ہیں تو خواب میں دیکھتے ہیں کہ صبح کا سورج وہ نہیں دیکھ پائیں گے اور ایسا ہی ہوتا ہے۔ صبح کا سورج ان کے گھر کی جگہ کھنڈر دیکھتا ہے، کھنڈر میں دبے ہوئے ان بچّوں کے لاشے دیکھتا ہے۔
فلسطینی بچّے تتلیوں کے پیچھے نہیں بھاگتے۔ اس لئے کہ، کم از کم، غزہ میں کوئی تتلی باقی نہیں رہی۔ کوئی پھولوں کی جھاڑی رہی نہ پھول، تتلیاں جْھلس گئیں، کچھ اْڑ گئیں۔ غزہ میں چڑیاں اور پرندے بھی نہیں رہے۔ درخت ہی نہیں رہے، پرندے کہاں سے رہتے۔ شجر سایہ دار تو دور کی بات، کوئی ٹنڈ منڈ درخت بھی نہیں بچا۔ غزہ کے بچوں کو پتہ ہی نہیں کہ گلہریوں کے پیچھے کیسے بھاگا جاتا ہے۔ غزہ کے بچے کبھی بلّیوں سے بہت پیار کرتے تھے، پھر بلّیاں نہیں رہیں۔ پورے غزہ میں بلّی نظر آتی ہے نہ کتّا۔ کسی پرندے، جانور کی آواز نہیں آتی، صرف بم پھٹنے کے دھماکے ہوتے ہیں۔ زخمی ہونے والے لوگوں کی چیخوں کی آواز بھی نہیں سنائی دیتی۔ بموں کے پھٹنے میں کوئی وقفہ ہو تو سنائی دے۔
بلّیوں سے یاد آیا۔ اب تو غزہ پر بمباری کو آٹھ مہینے ہو گئے۔ پہلے مہینے کی ایک ویڈیو بہت مشہور ہوئی تھی۔ ایک سنسان گلی ہے۔ دیوار کے ساتھ سیمنٹ کا ایک بلاک رکھا ہے۔ دیوار اور بلاک کے درمیان کونے میں، دیوار سے بالکل جڑے ہوئے بلّی کے دو بہت خوبصورت سہمے ہوئے بچّے بیٹھے ہیں، ایک ڈیڑھ مہینے کی عمر کے ہوں گے۔ اِردگرد وقفے وقفے سے مسلسل بم گر رہے ہیں، دھماکے کی ہر آواز پر سہمے ہوئے بچّے دیوار کے اندر سمانے یا دیوار کی درمیانی جگہ میں گْھسنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہاں کوئی جگہ نہیں۔ اس کوشش میں ناکامی کے بعد وہ ایک دوسرے سے چمٹ جاتے ہیں۔ ان کی ماما مر گئی ہوگی، یہ دو بچّے کتنے دن زندہ رہے ہوں گے۔ کچھ پتہ نہیں، ان کی وڈیو دوبارہ آئی ہی نہیں، وڈیو بنانے والا بھی تو مر کھپ گیا ہوگا۔
***
امریکہ میں 9 مئی سے بہت کم شدّت کا زلزلہ لانے کی کوشش ہوئی تھی۔ اس واقعے پر بے شمار لوگوں کو سزا ہوگئی۔ ٹرمپ بھی اس "منی نانتھ ہے" میں ملوث تھے۔ اگرچہ اس کیس میں ابھی انہیں سزا نہیں ہوئی لیکن ایک دوسرے مقدمے میں یہ سزا ہوگئی ہے۔ سزا کا باقاعدہ اعلان 11 مئی کو ہوگا۔ یہ سزا شاید ایک سال کی ہو یا چار سال کی۔
امریکی قانون کے مطابق سزا یافتہ شخص صدارتی الیکشن لڑ سکتا ہے، ٹرمپ بھی لڑیں گے لیکن ان کی جیت کا امکان ختم ہوگیا ہے، ماہرین کے مطابق انہیں 6 فیصد ووٹ کم پڑیں گے اور سزا کے بعد ووٹ کم پڑنے کی شرح اور بھی بڑھ جائے گی۔ یعنی ان کا صدر منتخب ہونا اب ممکن نہیں رہا۔
اس "المیے" کی تباہ کاری کی زد میں امریکہ سے زیادہ پاکستان آئے گا۔ یہاں ایک کومل سی کامنا پنپ رہی تھی، یہ کہ: ۔
ٹرمپ پِھرسے جیتے گی، اڈیالہ جیل آئے گی، کان کو چھوڑائے گی، پِھر سے وزیرے آزم کی کرسی پر بٹھائے گی، پھر ام کسی کو نہیں چھوڑے گی۔ یہ کومل کامنا اب گھمبیر در گھٹنا کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔
***
گریٹ خان نے بھری عدالت کو بتایا کہ انہیں جیل میں قید تنہائی کا سامنا ہے۔
جیل میں دن بھر ملاقاتی ان سے قطار اندر قطار، بارات بنا کر ملتے ہیں۔ ان میں ان کے وکلا بھی ہوتے ہیں، پارٹی رہنما بھی۔ دن بھر بزم سخن چلتی ہے۔ شام کو دو مشقتی، باورچی، ڈاکٹروں کی ایک ٹیم آ جاتی ہے، رات بھر ان کے ساتھ رہتی ہے۔ ٹی وی ہے، اخبارات اور کتابیں ہیں، جم خانے کی ورزشیں اور بیوٹی پارلر کی آرائشیں ہیں۔ پھر بھی مجھے محسوس ہوتی ہے بھری محفل میں تنہائی والا معاملہ ہے تو یہ اندر کی تنہائی ہے۔ خان صاحب آپ کا اندر بھیٹر خالی ہوگیا ہے۔ اندر کے اس سنّاٹے میں آپ کو ماضی کے بھوتوں کا سامنا ہے خان صاحب۔