Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Aray, Kisi Ko Bulao

Aray, Kisi Ko Bulao

بڑی حد تک غیر متوقع بات تھی لیکن اتوار کو ہونیوالی اے پی سی میں اپوزیشن متحد ہو گئی اور الائنس بھی بن گیا۔ ملک کی تمام اپوزیشن جماعتیں اس الائنس میں شامل ہیں۔ جماعت اسلامی اس میں نہیں ہے لیکن وہ اپوزیشن کی پارٹی ہے ہی کہاں۔ اگرچہ وہ حکومت کی باضابطہ اتحادی نہیں ہے لیکن اس کے "اتحادی" ہونے میں شبہ بھی نہیں ہے۔ مصطفی کمال کراچی والے کی طرح جماعت اسلامی بھی پاک سرزمین شادباد کا ترانہ ہے۔ حکومت اور محب وطن تجزیہ نگاروں کو سو ایک سو فیصد یقین تھا کہ اپوزیشن متحد نہیں ہو گی۔ اوریقین اتنا بھی غیر معقول نہیں تھا۔ تین برسوں کے دوران دونوں بڑی جماعتوں کو ایک دوسرے سے سنگین شکوے رہے۔ باہمی اعتماد کی فضا غیر موجود تھی لیکن اعتماد کی فضا بنانے کی خواہش ضرور موجود تھی۔ آصف زرداری سب پر بھاری ہونے کے زعم میں تھے لیکن ان سے دو بار ہاتھ ہوا اور وہ ہاتھ ملتے رہ گئے۔ بلوچستان کے ایڈوانچر میں ان کی مدد لی گئی، اس وعدے پر کہ مخلوط حکومت میں انہیں صدر بنایا جائے گا۔ لیکن الیکشن کے بعد صدارت ایک اور مسکراہٹ والے کو مل گئی۔ دوسرا ہاتھ چیئرمین سینٹ کے الیکشن کے موقع پر ہوا۔ خیر، یہ قصّہ اب پرانا ہو گیا۔ زرداری کو پتہ چل گیا کوئی ہے جو ان پر بھی بھاری ہے۔

اس اتحاد کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اتحاد ہے۔ ماضی میں جتنے بھی اتحاد بنے دو بڑے سیاسی گروہوں میں صرف ایک اس کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ پہلی بار دونوں کلاسیکی دھڑے اس اتحاد کا حصہ ہیں۔ اے پی سی کی افتتاحی تقریر میں آصف زرداری نے کہا کہ وہ صرف حکومت نہیں گرائیں گے۔ اس کے بعد جمہوریت بھی بحال کریں گے۔ بہت معنے خیز فقرہ ہے اور ایسا ہے کہ سو تقریروں پر بھاری ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کا خواب ساٹھ ستر سال سے دیکھا جا رہا ہے۔ صرف ایک بار جمہوریت بحال ہوئی۔ لیکن آدھے پاکستان کی قیمت چکا کر اور صرف چھ برس بعد اس جمہوریت کا سورج غروب ہو گیا۔ تب سے طلوع کا انتظار ہی چلا آ رہا ہے۔ کہنے کو تو ضیاء الحق کی موت کے بعد بھی جمہوریت بحال ہوئی اور پھر مشرف کے بیرون ملک فرار کے بعد بھی لیکن یہ جمہوریت پنجرے میں بند تھی۔ شروع کے دو دور بے نظیر اور نواز شریف کے، غلام اسحق کی تلوار نے ذبح کر دیے۔ بعد کے دو ادوار بھی اسی انجام کو پہنچے۔ مشرف کی ایوان صدر سے رخصتی کے بعد کے دس سال بھی زیر یلغار رہے۔ اب زرداری نے اتنے اعتماد سے کہا ہے کہ جمہوریت بحال کرائیں گے تو یہ ان کی زائچہ شناسی نہیں ہےکچھ تجربات اور ماحول کے مطالعے کی گواہی کے بعد ہی انہوں نے یہ پراعتماد پیشن گوئی کی ہے۔

اے پی سی سے دو روز پہلے کی خبر ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں نشر ہوئی۔ پتہ نہیں کس حد تک درست ہے لیکن خبر چونکہ ٹی وی کی ہے اس لئے توجہ کے قابل تو ہے۔ خبر یہ تھی کہ ایک نہایت اعلیٰ سطحی ملاقات میں شہباز شریف، بلاول اور جے یو آئی کے نمائندے کو سختی سے نصیحت کی گئی کہ وہ اے پی سی بلانے کا خیال چھوڑ دیں اور حکومت کے لئے کوئی پریشانی کا باعث نہ بنیں۔ یہ خبر درست ہے تو اس کے بعد اے پی سی اور ایسی جارحانہ اے پی سی کا انعقاد حیران کن ہے۔

اے پی سی کی بہت ہی خاص بات سابق اور عتاب یافتہ وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر تھی۔ انہوں نے اپنی طویل خاموشی توڑنے کی اطلاع ایک روز پہلے ہی دے دی تھی جس کے بعد حکومت اس تقریر کو نشر ہونے سے روکنے کے لئے سرگرم ہو گئی لیکن اگلے روز یہ تقریر نشر ہو گئی، نواز شریف نے اس تقریر میں سامنے سے حملے کئے اور کچھ ایسی باتیں کیں جو نشر بھی ہو گئیں اور اخبارات کے "بقیوں " میں چھپ بھی گئیں تاہم انہیں دہرانا "رسک" لینے کے مترادف ہے، بہرحال ان کی تقریر نے یہ اشارہ دے دیا کہ مزاحمتی قوتیں سٹیٹس کو سے جاری پون صدی کی جنگ کو اب اختتامی رائونڈ کی طرف لے جانے کے لئے تیار ہیں۔ کیا "جنگ باسٹھ سالہ"ڈرامائی موڑ مڑنے والی ہے؟

حکومت کے وزیر مشیر وغیرہ ٹولیوں کی شکل میں اپوزیشن پر حملہ آور ہیں، سب سے دلچسپ گولہ باری وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کی۔ انہوں نے فرمایا ادارے نواز شریف کی تقریر کا نوٹس لیں۔ ارے بھئی یہ کیا فرما دیا۔ نوٹس حکومتیں لیا کرتی ہیں۔ ایسی حکومت تو کیا کہیے جو کسی اور سے نوٹس لینے کی فرمائش کر رہی ہے۔ لکھنؤ کے کسی نواب صاحب کے گھر میں سانپ نکل آیا۔ ملازمہ نے نواب صاحب کو اطلاع دی کہ حجور، گھر میں رسّی نکل آئی ہے(لکھنو، کے نواب شاہی کلچر سانپ کا نام لینا منع تھا) اس کے بجائے رسی کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا)نواب صاحب اچھل کر پلنگ پر چڑھ گئے اور چلائے، ارے کسی مرد کو بلائو جو اس رسی کا نوٹس لے)

خیر سے اب پی ٹی آئی پھر سے کورونا کے فروغ کے لئے سرگرم ہو جائے گی۔ کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے۔ کیا خیال ہے؟

ایک وزیر نے کہا سارے چور اکٹھے ہو گئے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اوپر ایماندار تھانیدار آ گیا ہے۔ جی ہاں بالکل ایسا ہی ہے۔ چوری ڈکیتی اغوا، بچوں اور عورتوں سے زیادتی اور ان کے قتل کے واقعات کی روک تھام بھی اب شروع ہو گئی ہے۔ رشوت ختم ہو چکی ہے۔ کرپشن میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ لاقانونیت، بدامنی کی شرح کو بھی بریک لگ چکی ہے مہنگائی بھی تھم چکی ہے۔ ظاہر ہے یہ سب اس بات کے نشان ہیں کہ اوپر ایماندار تھانیدار آ گیا ہے اور نہیں تو کیا!