Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. 92 News/
    3. Ashra e Rafta

    Ashra e Rafta

    ہفتہ رفتہ بلکہ عشرہ رفتہ کے دوران کئی واقعات ہوئے۔ کچھ بڑے کچھ کم بڑے، نسبتاً ہلکا پھلکا واقعہ جس کی میڈیا پر کم اور سوشل میڈیا پر زیادہ شہرت رہی۔ وزیر اعظم کا بنا پروٹوکول کے نتھیا گلی کا دورہ تھا۔ احباب نے بقدر ذوق و شوق خوب داد دی۔ دورے میں گاڑیاں ضرور تھیں اور بہت سی تھیں لیکن ان میں پروٹوکول کی ایک بھی نہیں تھی۔ سبھی سکیورٹی کی تھیں۔ پروٹوکول اور سکیورٹی میں وہی فرق ہوتا ہے جو کھاٹ اور کھٹیا میں ہوتا ہے۔ اچھی بات یہ بھی تھی کہ کوئی سڑک بند نہیں کی گئی۔ ہاں ساری سڑکیں ازراہ احترام خود ہی بند ہو گئیں اور دورہ مکمل ہونے تک بند رہیں۔ سڑکیں بند کرنے اور از خود بند ہونے میں وہی فرق ہوتا ہے جو بھتہ مانگنے اور چندہ وصول کرنے میں ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگوں نے اس واقعے کو بہت ہی انوکھا بنا کر پیش کیا۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ نتھیا گلی جانا کون سی بڑی بات ہے۔ میں نے خود بھی عید کی شام نتھیا گلی کا چکر لگایا۔ ارے، چونکیے مت میرے گھر کے سامنے ایک خالی پلاٹ ہے خوب بڑا سا۔ اسی کا نام میں نے نتھیا گلی رکھ ڈالا ہے اس میں بہت سی جھاڑیاں کھڑی ہیں۔ مدار کے پودے، کچھ جنگلی پھول کچھ مفروش بوٹیاں ہیں اور ہاں اس میں وائلڈ لائف یعنی جنگلی حیات بھی ہے۔ کچھ چھپکلے، آک کے ٹڈے جنہیں پنجابی میں اکو گھوڑا کہتے ہیں۔ چند ایک کنکھجورے اور بعض دوسرے حشرات اسی طرح کے۔ افسوس میرے پاس کوئی بندوق نہیں تھی ہوتی تو ایک آدھ کنکھجورے کی "ٹرافی ہنٹگ" کر ہی لیتا۔

    ایک بڑا واقعہ بلکہ سانحہ طیارے کا حادثہ تھا جو عید سے ایک دن پہلے کراچی ایئر ورٹ کے پاس آ کر تباہ ہو گیا۔ لگ بھگ 90مسافر شہید ہوئے۔ سانحے نے اداس لوگوں کو اور بھی اداس کر دیا۔ شہید ہونے والوں کے گھر والوں پر جو بیتی اس کا احوال کوئی کہاں بتا سکتا ہے۔ اس واقعے کی کوکھ سے جو بحث برآمد ہوئی وہ یہ تھی کہ ذمہ دار کون ہے؟ پاکستان میں سانحات کا ذمہ دار کون ہوتا ہے، کبھی پتہ نہیں چل سکا۔ ایک کچا پکا قانون پہلے یہ تھا کہ جو ذمہ دار ہے، وہی بری الذمہ ہے۔ اس بار یہ قانون پکا ہو گیا۔ ٹرین حادثہ ہوا تو ذمہ دار ڈرائیور تھا۔ دوسرا ہوا تو ذمہ دار مسافر تھے، جہاز گرا تو پتہ چلا کہ ذمہ دار پائلٹ تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ ذمہ دار تو اجل ساتھ لے گئی، پھر تحقیقات کس بات کی ہو رہی ہے؟ کسی نے سوال اٹھایا کہ اس ورکشاپ کا پتہ کرو جو پتہ نہیں کہیں ہے بھی یا نہیں لیکن حالیہ چیئرمین کے آنے کے بعد سے جہازوں کے کل پرزے مرمت کے لئے وہیں جاتے ہیں اور بھاری خرچہ اس پر اٹھتا ہے۔ کسی عزیزی کے نام سے یہ ورکشاپ منصب سنبھالنے کے فوراً بعد ہی معرض وجود میں آ گئی تھی۔ خبر ہے کہ جہاز کا لینڈنگ گیئر خراب تھا۔ ضرور پائلٹ نے خراب کیا ہو گا۔ خبر آ سکتی ہے کہ ایک انجن سے آگ کے شعلے اٹھ رہے تھے، یہ شعلے بھی پائلٹ نے بھڑکائے ہوں گے۔ ساری قوم کو بہرحال سانحے کا صدمہ ہوا اور سب سے زیادہ وزیر اعظم کو ہوا ہے۔

    ایک واقعہ اس پیش گوئی پوری ہونے کا ہے جو شوگر سکینڈل رپورٹ کے بارے میں کی گئی تھی۔ پیش گوئی یہ تھی کہ یہ رپورٹ کبھی نہیں آئے گی اور رپورٹ جاری کرنے کے نام پر جو کچھ جاری کیا گیا اس نے پیش گوئی کی صحت پر مہر لگا دی یعنی یہ کہ رپورٹ کبھی نہیں آئے گی۔

    سب سڈی نواز شریف نے بھی اپنے دور میں دی لیکن معاملہ وہی دھوپ کا سا ہے وہی دھوپ جو سردیوں میں مزہ دیتی ہے گرمیوں میں مزا چکھاتی ہے۔ جن لوگوں نے نواز دو میں مزا لیا، اب مزہ چکھ رہے ہیں۔

    مزوں کا سفر ابھی جاری ہے۔ عید سے پہلے ہر شے اور مہنگی ہوئی، عید پر ہر شے مزید مہنگی ہوئی اور عید کے بعد ہر شے مزید تر مہنگی ہوئی اور اب آٹا بھی چھ روپے کلو مہنگا ہو گیا ہے۔ عید سے پہلے خبر تھی کہ وزیر اعظم نے عوام کو ریلیف دینے کا حکم دیا ہے۔ تازہ پیشرفت اس ریلیف کی یہ ہے کہ بجلی ڈیڑھ سے دو روپے کی یونٹ مہنگی کرنے کا اصولی فیصلہ ہو گیا ہے۔ عملی فیصلے کے لئے شبھ گھڑی کا انتظار ہے۔

    ایک اور اہم واقعہ 28مئی کے دن برپا ہونے والے پیچ و تاب کا تھا۔ اس تاریخ کو 22برس پہلے مودی کے یارنے چھ ایٹمی دھماکے کئے تھے اب آپ پوچھیں گے کہ مودی تب کہاں تھے۔ جی، بھلے سے وزیر اعظم نہیں تھے۔ چنانچہ مودی کے بارے مودی سے یاری نبھانے کے لئے یہ دھماکے کئے۔ مودی کی یاری کا بھوت نواز شریف پر اتنا سوار تھا کہ امریکی صدر کی ترغیب کی پروا کی نہ ترھیب کی۔ ترغیب یہ تھی کہ اربوں ڈالر لے لو، دھماکے نہ کرو۔ اور امریکہ نے جلد ہی ان کا دھماکہ کر دیا پہلا دھماکہ اور پھر لگ بھگ سترہ برس بعد ایک اور دھماکہ کر دیا۔ مودی کی یاری میں کیا جادو ہے نہ ڈالروں کا لالچ اسے توڑ پایا نہ "دھماکہ" کی نذر ہو جانے کا ڈر۔ بہرحال سرکاری سطح پر اس روز تقریب نہ ہونا باعث افسوس ہے۔