افغان صورتحال ایک بڑا مسئلہ ہے، کرونا وائرس اس سے بھی بڑا اور مہنگائی اس سے بھی زیادہ خطرناک۔ لیکن ان سب سے بڑا بحران وہ ہے جو "عورت مارچ" کے حوالے سے پیدا ہوا۔ عورتوں کی بعض تنظیمیں اپنے لئے حقوق مانگ رہی ہیں جو ملک پر برسر اقتدار جاگیردار اشرافیہ کو قبول نہیں۔ اس مارچ کو رکوانے کے لئے ایک رٹ عدالت میں دائر کی گئی لیکن عدالت نے یہ رٹا خارج کر دی اور کہا کہ ان خواتین کے مطالبات وہی حقوق ہیں جو اسلام نے انہیں دیے ہیں۔ بے شک، اسلام نے انہیں دیے ہیں لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان نے نہیں دیے۔ مطالبات کیا ہیں؟ عورتوں کو ریپ نہ کیا جائے انہیں وراثت کا حصہ دیا جائے، تیزاب سے نہ جلایا جائے، قتل نہ کیا جائے وغیرہ۔ ایک نعرہ جو زیادہ زیر بحث ہے، یہ ہے کہ میرا جسم میری مرضی۔ بظاہر اس کا مطلب یہ ہے کہ زور زبردستی نہ کی جائے لیکن الفاظ ایسے ہیں کہ کوئی دوسرا اور قابل اعتراض مطلب بھی آسانی سے نکل سکتا ہے۔ اسی معاملے کو زیادہ شہرت اس وقت ملی جب جاگیردار اشرافیہ کے حقوق اور تحفظ کے لئے کام کرنے والے ایک ڈرامہ رائٹر نے ٹی وی پر ایک خاتون رہنما کے ساتھ سخت گالم گلوچ کی۔ اس رائٹر نے "انڈی سنٹ پروپوزل(بہودہ تجویز) نامی انگریزی فلم کا چربہ لکھا جسے جاگیرداروں کلچر کے چاہنے والوں نے بہت ذوق و شوق سے دیکھا۔ عام لوگ اس کی بدزبانی پر حیرت زدہ رہ گئے کہ ٹی وی پر ایسی گفتگو پہلے کبھی لائیو نہیں چلی تھی لیکن جس جاگیردار کلچر کی نمائندگی یہ رائٹر کرتا ہے، وہ عورتوں کے بارے میں یہی رویہ رکھتا ہے۔ عورت "انسان" نہیں، محض یکے از اشیائے صرف ہے جو افادیت پوری کرنے کے بعد کسی کام کی نہیں رہ جاتی، دو ٹکے کی قیمت بھی نہیں رہتی اور کوئی اس پر تھوکتا بھی نہیں۔
پاکستان جاگیردارانہ کلچر کا دنیا میں سب سے بڑا اور مستحکم (اور واحد) قلعہ ہے۔ سب سے زیادہ غیرت مند لوگ یہیں رہتے ہیں۔ ہر سال ایک ہزار سے زیادہ عورتیں غیرت کے نام پر قتل کی جاتی ہیں جو کل عالمی گنتی کا 20 فیصد ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال 5 ہزار عورتیں غیرت کے نام پر قتل کی جاتی ہیں۔ یعنی چھ ارب80 کروڑ کی آبادی مل کر چار ہزار عورتیں ہلاک کرتی ہے اور محض 20 کروڑ کی آبادی ایک ہزار۔ یہ عالمی اعزاز ہے اور کیوں نہ ہو، غیرت مندوں کی اکثریت ہمارے ہاں ہی تو سمٹ آئی ہے۔ ہم نمبر ون ہیں۔ افغانستان میں سالانہ سو عورتیں، ایک ارب 30 کروڑ آبادی والے بھارت میں سوا سو عورتیں، بنگلہ دیش اور سعودی عرب میں۔ صفرعورتیں غیرت کے نام پر قتل کی جاتی ہیں۔ اچھا ہوا غیرت سے محروم بنگلہ دیشیوں کو ہم نے 71ء ہی میں خود سے کاٹ پھینکا۔
جماعت اسلامی نے بھی عورت مارچ کیا۔ اسے عورت مارچ کی تحریک سے اختلاف نہیں، نعروں اور طریقے سے اختلاف ہے لیکن جے یو آئی کے بیانات سے لگتا ہے کہ اسے مطالبات پر بھی اعتراض ہے۔ حیرت کی بات!بعض مذہبی دانشور بھی عورتوں کے حقوق کے خلاف لکھ اور بول رہے ہیں۔ لیکن اس پر حیرت نہیں۔ یہ حضرات بنو عباس کی "خلافت" کے زمانے سے لے کر مغل بادشاہت تک اور پھر انگریز بہادر کے دور سے لے کر اب تک یہی کام ہی تو کرتے آئے ہیں۔ لطیفہ دیکھیے۔ عمران کی پسندیدہ عمران حکومت ناکام ہو گئی تو سارا الزام"نظام" پر لگارہے ہیں کہ عمران بے چارہ کیا کرے، نظام ہی خراب ہے۔ اسی"خراب، نظام میں نواز حکومت نے مہنگائی کم کی، کارخانے لگائے، بجلی پیدا کی، شرح غربت کم کی، سڑکیں، پل، ہسپتال بنائے اور پیپلز پارٹی نے زراعت کو ترقی کی۔ یہ دانشور بادشاہت کے قصیدے لکھنے اور جمہوریت کے لتّے لیتے ہیں اور خراب نظام کا معاملہ یہ ہے کہ جس سیاسی حکومت نے اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کی، ماری گئی۔ اس کا تختہ پلٹ کر کوچۂ رسوائی میں دھکیل دیا گیا۔ یہ حضرات جب کہتے ہیں کہ نظام کو بدلو تو ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کا شکنجہ اور سخت کرو۔ شکنجے میں کچھ خلا رہ گیا ہے جس کا فائدہ اٹھا کر کبھی ووٹ کی عزت والے سڑکوں پر آ جاتے ہیں تو کبھی اپنے حقوق کی دہائی دینے والی عورتیں "کفریہ حرکات کا یہ سلسلہ سختی سے ختم ہونا چاہیے۔
ایک وزیر نے کہاکہ حکومتی اقدامات سے مہنگائی دو فیصد کم ہو گئی، 14سے 12فیصد پر آ گئی اور اس کا کریڈٹ عمران خاں کو جاتا ہے۔ یہ نہیں بتایا کہ مہنگائی کو 14فیصد تک لے جانے کے پیچھے کون تھا اور اس کا کریڈٹ کسے جاتا ہے؟ بہرحال، یہ دو فیصد کمی بھی انوکھی ہے۔ شماریات والوں کی نکالی گئی اوسط ہے اور اس میں کاریگری یہ ہے کہ بہت سی وہ چیزیں جن کو ایک فیصد لوگ بھی نہیں خریدتے، اس اوسط میں ڈال دی جاتی ہیں یوں 14فیصد کی شرح بنتی ہے۔ عوام کا مسئلہ اشیائے خوراک، کپڑا، دوا دارو اور ٹرانسپورٹ کا خرچہ ہے جو 70سے 80 فیصد بلکہ بعض حالات میں دوسو فیصد بڑھ گیا ہے۔ بجلی ہی کو دیکھئے 8روپے سے 22روپے یونٹ کی ہو گئی اور خبر ہے کہ سال بھر میں یہ 55روپے یونٹ کی جائے گی کہ آئی ایم ایف سے اسی کا معاہدہ ہوا ہے۔ ایک روپیہ 48پیسے فی یونٹ تو اسی مہینے مہنگی کرنے کی تجویز ہے۔ دو فیصد کمی کی جو رپورٹ شماریات والوں نے جاری کی، اس میں تھا کہ دالیں ایک روپیہ فی کلو کم ہو گئی ہیں۔ جس روز یہ رپورٹ چھپی، اسی روز مارکیٹ رپورٹ بھی چھٹی جو یہ ہے۔ دال مسور جو رپورٹ چھپنے کے وقت تک 110روپے کلو تھی، بڑھ کر 148روپے کی ہوئی۔ یعنی 38روپے کلو مہنگی(کتنے فیصد ہوئی؟ ) دال ماش 165سے 190، مونگ154سے 202، 114سے 128روپے کلو ہو گئے۔ آلو 8روپے مہنگا ہوا۔ تو جناب، یہ ہے اس دو فیصد کمی کی سچائی جو حکومتی اقدامات کی بدولت ہوئی اور جس کا کریڈٹ عمران خاں کو جاتا ہے(بقول وزیر صاحب)