Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Azeem Qaumi Khidmat

Azeem Qaumi Khidmat

سیلاب کا زور بدستور ہے لیکن ایک دو دن میں اس کے ٹوٹنے کی امید ہے البتہ دریا ئے سندھ میں طغیانی جس طرح بڑھ رہی ہے، اس سے بہت اندیشے بھی ہیں۔ خدا خیر کرے۔

بے شمار درد ناک کہانیوں نے جنم لیا ہے، نہ جانے جب یہ بلا ٹلے گی تو کتنے اور بے شمارالمیے سامنے آئیں گے۔ ایک چھ مہینے کے بچے کی لاش کو سیلاب بہائے لیے جا رہا تھا اور اس کا ننھا سا بازو اوپر اٹھا ہوا تھا۔ وڈیو بنانے والا طوفانی ریلے میں یہ لاش نہیں نکال سکتا تھا۔ نہ جانے کہاں گئی ہو گی۔ کتنے زور کا ریلا ہو گا کہ ماں کی آغوش سے جھپٹ لیا۔ ماں بھی کہاں بچی ہو گی۔ بے شمار وڈیو سوشل میڈیا پر آئی ہیں، دیکھ تو لیں، بتانے کی ہمت نہیں۔ سب نے ہی دیکھی ہوں گی۔

انسانی بے حسی کے مناظر بھی دیکھے اور انسانی ہمدردی کےبھی۔ رضا کاروں نے ایسا کام کیا بلکہ ایسے کام کئے کہ جنت اپنے نام لکھوا لی۔ بعض مناظر میں یہ لوگ جانوروں کو بھی بچاتے دیکھے گئے۔ ایک کشتی دیکھی جو سیلاب میں گھرے، واحد بچے ہوئے مکان کی طرف بڑھ رہی تھی۔ باقی ساری بستی نابود ہو چکی تھی۔ خالی مکان کی چھت پرکھڑے دو بچے، جانے کب سے بھوکے تھے۔ کشتی والوں نے ان کی طرف روٹیاں پھینکیں۔ شاید اس بستی میں یہ دو ہی بچے تھے، باقی مر گئے ہوں گے۔ صرف مرنے والے مویشیوں یعنی گائے بھینسوں کی تعداد دس لاکھ سے اوپر ہے۔ جو بلیاں کتے مرے ہوں گے، وہ تو ان سے بھی زیادہ ہوں گے اور دیگر جنگلی جانور تو پتہ نہیں کتنے زیادہ ہوں گے۔

امریکہ میں جانوروں کو ریسکیو کرنے والوں کی الگ ٹیمیں ہیں۔ اس کے مشرقی ساحل پر بالخصوص جنوب مشرقی علاقوں میں بڑے بڑے سمندری طوفان آتے ہیں اور وسیع علاقے ڈوب جاتے ہیں۔ گھرے ہوئے انسانوں کی تعداد تو کم ہوتی ہے کہ جدید ترین انتظامات کے باعث بیشتر آبادی پہلے ہی سے نکل جاتی ہے لیکن افراتفری میں بہت سے لوگ اپنے پالتو جانوروں کو وہیں چھوڑ جاتے ہیں۔ گلیوں میں آوارہ گھومنے والے جانور الگ ہوتے ہیں۔ انہیں ریسکیو کرنے کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے خاصی تعداد میں قائم ہیں، ہر سیلاب میں ہزارہا جانور یہ ادارے بچا لیتے ہیں ہمارے ہاں جانوروں سے ہمدردی کا بالعموم، کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ بلکہ دیگر معاملات میں بھی ہمارا چلن زمانے سے الگ ہے۔ دوسرے ملکوں میں تاجر حضرات بلاؤں کی آمد پر اشیائے ضرورت سستی کر دیتے ہیں، ہمارے ہاں قیمتیں چار گنا بڑھا دی جاتی ہیں۔

***

خدمت کے کاموں میں ہر طرف جماعت اسلامی کے محکمے "الخدمت" کا چرچا ہے اور تعریفیں ہیں۔ بلاشبہ یہ پہلے نمبر پر رہی ہے۔ دوسرے نمبر پر سندھ حکومت، تیسرے نمبر پر وفاقی حکومت رہی۔ بلوچستان حکومت نے بھی کچھ نہ کچھ کیا اگرچہ بہت کم اور تباہی آئے اتنے دن گزر گئے، پختونخواہ حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی اور یہی حال پنجاب حکومت کا ہے۔ پنجاب حکومت نے بس ایک کام کیا، جنوبی پنجاب کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور وہاں سب کو جعلی امدادی چیک تھما کر واپس آ گئی۔ لوگوں نے احتجاج کیا تو ان پر مقدمات بنا کر جیل میں ڈال دیا۔ یعنی ہمارے مذاق کا برا منایا، اب بھگتو۔ پتہ نہیں یہ واقعہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں آئے گا یا نہیں۔

پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ غالباً تفریحی دورے پر ایک جگہ گئے تو انہیں خود انہی کے پارٹی کے کارکنوں نے گھیر لیا اور مخالفانہ نعرے لگائے۔ ضرور یہ کارکن گمراہ ہو گئے ہوں گے۔ وزیر اعلیٰ نے اچھا کیا کہ ان گمراہوں کے منہ لگنے کے بجائے خاموشی کے ساتھ وہاں سے چلتے بنے۔ ان کے ہمراہ صوبائی وزیر شوکت زئی صاحب بھی تھے۔ انہوں نے ا ن گمراہ عناصر کو واپس راہ ہدایت پر لانے کی کوشش کی اور ناکامی پر یہ بھی چلتے بنے۔ اچھی بات ہے۔

***

تحریک انصاف کے بارے میں"تاثر" کہ وہ واحد جماعت ہے جس نے سیلاب زدگان کے لیے کچھ نہیں کیا، اس وقت غلط ثابت ہو گیا جب اس کی ایک نمایاں سرگرمی سوشل میڈیا پر سامنے آئی۔ تحریک کے کارکن ایک امدادی بس کے ساتھ کھڑے تھے جس پر نمایاں الفاظ میں پی ٹی آئی کا نام تھا۔ یہ بس امدادی سامان سے بھری ہوئی تھی۔

بعد میں پتہ چلا کہ یہ بس الخدمت کی تھی، کارکن بھی الخدمت کے تھے اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا نے فوٹو شاپ کے ذریعے بس کا بینر بدل دیا تھا اس پر بہت سے لوگوں نے سوشل میڈیا پر ہی "تعریفی" کلمات کہے۔

کچھ بھی ہو، تھی تو یہ بھی سرگرمی ہی۔ اس لیے اب یہ طعنہ نہیں دیا جا سکتا کہ پی ٹی آئی سرگرم نہیں۔

***

عمران خان جو پہلے امدادی فنڈ اکٹھا کرنے کے مخالف تھے، نظرثانی کے بعد انہوں نے بالآخر" ٹیلی تھون " کیا اور اس میں پانچ ارب روپے سے زیادہ امداد ملنے کے وعدے اکٹھے کر لیے۔

امید ہے یہ وعدے پورے بھی ہوں گے۔ آخر خود عمران خان سب سے زیادہ وعدے پورے کرنے والے شخص ہیں، ان کے حامی بھی ان کے نقش قدم پر چلیں گے۔ عمران خان نے ان گنت وعدے پورے کئے۔ دو سو ارب ڈالر باہر سے لا کر ادھر ادھر والوں کے منہ پر مارنے کا وعدہ پورا کیا، 50 لاکھ گھر بنائے، ایک کروڑ نوکریاں دیں۔ وزیر اعظم ہاؤس اور وزرائے اعلیٰ و گورنر ہاؤسز کو شاندار یونیورسٹیوں میں بدلنے کا وعدہ پورا کیا۔ گھر سے دفتر بائیسکل پر آنے کا عہد بنھایا، بھاشا ڈیم بنے گا وقت سے پہلے والا وعدہ بھی پورا کیا۔ کہاں تک گنوایا جائے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب قائد وعدے پورے کرنے والا ہو تو اس کے عقیدت مند بھی /5 ارب روپے دینے کے وعدے کیوں پورا نہیں کریں گے۔ ضرور پورے کریں گے۔ پیوستہ رہ شجر سے، امید بہار رکھ

***

آئی ایم ایف سے قسط مل گئی، ملک کے دیوالیہ ہونے کی امید رکھنے والوں کو یہ خبر اداس کر گئی، حالانکہ انہوں نے صرف امید نہیں کی تھی، امید برلانے کے لیے بھرپور محنت بھی کی تھی۔

پختونخواہ اور پنجاب حکومت کی طرف سے یہ اشارہ آئی ایم ایف کو پہنچایا گیا کہ ہم اس معاہدے پر عمل نہیں کریں گے۔ کچھ مبصرین نے بلکہ کچھ سے زیادہ مبصرین نے یہ خبر "کنفرم" کر دی تھی کہ اب تو قسط ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر اتفاق سے شوکت ترین، تیمور جھگڑا اور محسن لغاری (بالترتیب تحریک انصاف کے عظیم معاشی رہنما، پختونخواہ اور پنجاب کے وزیر ہائے خزانہ) کی ٹیلی فون گفتگو لیک ہو گئی کہ کس طرح آئی ایم ایف کی قسط کا راستہ روکنا ہے۔ پوچھتے ہیں کہ اس سے تو ریاست کا نقصان نہیں ہو جائے گا جس پر شوکت ترین نے فرمایا کہ نہیں ہم ایسی فنکاری سے یہ کام کریں گے کہ کسی کو پتہ ہی نہیں چلے گا۔

لیکن قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند کہ وقت سے ذرا پہلے فون کال لیک ہو گئی، آئی ایم ایف کو بھی پتہ چل گیا اور اس نے قسط مزید موخر کرنے کے بجائے ترنت جاری کر دی۔

اس طرح دیکھا جائے تو یہ "گفتگو" کر کے ترین صاحب نے قومی خدمت کی۔ ترین صاحب بار بار پارٹی چیئرمین کی ہدایات کا حوالہ بھی دے رہے تھے یعنی اس قومی خدمت کا اصل کریڈ ٹ چیئرمین صاحب ہی کو جاتا ہے۔ اللہ جزائے خیر دے۔