جنوبی کوہ قاف (کاکیشیا) کی جنگ آذربائیجان جیت رہا ہے۔ اسی نے آرمینی قبضے سے اپنا لگ بھگ ایک چوتھائی رقبہ واگزار کرالیا ہے جو بہت بڑی کامیابی ہے۔ آپ اگر عربستان، بالخصوص سعودیہ، امارات اور مصر کے اخبارات دیکھیں گے تو آپ کو ان میں آذر بائیجان اور اس کے اتحادی اور مددگار ترکی پر غصہ اور جھنجھلاہٹ نظر آئے گی۔ آذر بائیجان نے ایسا کیا غلط کیا ہے جس پر یہ غصہ ہے۔ ایرانی اخبارات کا بھی یہی حال ہے۔ آذر بائیجان نے اپنا ہی علاقہ واپس لیا ہے جس پر 1993ء میں آرمینیا نے قبضہ کرلیا تھا۔ اس وقت گلوب کا جو نقشہ ہے، ایک آدھ متنازعہ علاقے کو چھوڑ کر سارے کا سارا عالمی طور پر تسلیم شدہ ہے۔ ان تسلیم شدہ سرحدوں میں مداخلت کو دنیا جارحیت مانتی ہے جو آرمینیا نے کی۔
جھگڑے کے پس منظر کا خلاصہ یوں ہے کہ آذر بائیجان کے بیچوں بیج ایک علاقہ نگورنو کاراباخ کا ہے جہاں آرمینی بولنے والے لوگوں کی اکثریت ہے۔ پڑوسی ملک آرمینیا نے اسی بنیاد پر دعویٰ کردیا کہ یہ علاقہ ہمارا ہے۔ ہمیں واپس دیا جائے پھر روس کی فعال مدد سے اس نے حملہ کردیا۔ آرمینیا کا یہ دعویٰ کسی لحاظ سے بھی درست نہیں ہے۔ دنیا کے بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں کچھ حصوں میں دوسرے علاقوں سے لوگ آ کر آباد ہو جاتے ہیں اور پھر ان کی اکثریت ہو جاتی ہے۔ محض مثال کے طورپر عرض ہے، فرض کیجئے، دریائے سندھ کے مغربی کنارے کے کسی ضلع یا تحصیل میں افغان مہاجرین کی اکثریت ہو جاتی ہے تو کیا افغانستان یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ یہ افغانی علاقہ ہے ہمارے سپرد کیا جائے؟ ہرگز نہیں۔ یہ دعویٰ دنیا نہ صرف مسترد کر دے گی بلکہ دعویٰ کرنے والوں کو پاگل قرار دے دے گی۔ آرمینیا نے یہی حرکت کی۔ اس نے نگورنو کارا باخ پر دعویٰ کیا اور اس تک پہنچنے کے لیے آذر بائیجان کا وہ علاقہ بھی اپنے قبضے میں لے لیا جس پر اس کا کوئی دعویٰ بھی نہیں تھا۔ تب آذر بائیجان کمزور اور بے یارومددگار تھا۔ وہ اس قبضے پر خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ ترکی میں پندرہ برس پہلے طیب اردگان کی حکومت آئی۔ خطے سے گم ہوتے اور عالمی نقشے میں ترکی کو مضبوط جگہ دلوانے کے لیے برسہا برس کی محنت درکار تھی، یہ مضبوطی حاصل ہو گئی تو اس نے اپنے ہم نسل، ہم زبان آذر بائیجان کی مدد کا فیصلہ کیا اور میدان جنگ کا پانسہ لٹ گیا۔ اصل اور اہم ترین کردار ترکی کے جدید ڈرون طیاروں نے ادا کیا۔ جنہوں نے آرمینی فوج کے قافلوں اور تنصیبات پر بے خطا حملے کئے اور بے حساب تباہی کی۔ ان طیاروں کا کوئی توڑ نہیں ہے۔ روایتی فضائیہ اس جنگ میں برائے نام استعمال ہوئی ہے یوں ایک نیا طریقہ جنگ سامنے آیا ہے۔
اس وقت نگورنو کارا باخ کی ساری مشرقی پٹی شمال میں ایک بڑا علاقہ، جنوب میں کچھ رقبے آذر بائیجان واپس لے چکا ہے اور آرمینی صدر نے چھٹی پر گئے ریزرو دستوں کو یہ کہہ کر طلب کیا ہے کہ ملک کی زندگی اور موت کا سوال پیدا ہو گیا ہے۔
روس نے آرمینی فوج کو اسلحے کی سپلائی شروع کردی۔ وہ جارجیا کے راستے یہ سپلائی نہیں کرسکتا چنانچہ ایران کے راستے اس کے قافلے آرمینیا میں داخل ہورہے ہیں۔ پچھلے ہفتے خبر آئی تھی کہ ایران نے بھی آرمینیا کو اسلحہ دیا ہے لیکن پھر ذرائع نے بتایا کہ دراصل یہ روسی سڑک ہے، بہرحال، ایرانی صوبے آذر بائیجان میں بڑے بڑے جلوس نکلے ہیں جس میں آذر بائیجان کے حق میں اورایرانی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔
آذر بائیجان خلافت عثمانیہ میں ترکی کا حصہ تھا۔ اس کا دارالحکومت باکو ایک بڑا شہر ہے اور اپنی تاریخی عمارات کے لیے مشہور ہے۔ جنگ کے موضوع سے ہٹا کر ایک دلچسپ بات قارئین کے لیے یہ ہے کہ "باکو" شہر سے ایک زمانے میں اردو کا ایک اخبار بھی نکلا کرتا تھا۔ پندرہ روز آزاد ہندوستان اخبار۔ اس میں تحریک ہجرت کی خبریں ہوا کرتی تھیں اور آذر بائیجان میں مقیم ہندوستانی مہاجرین اس کے قارئین تھے۔ اخبار کے پرچے بہت بڑی تعداد میں خفیہ راستوں کے ذریعے ہندوستان بھی بھجوائے جاتے تھے۔ یہ 1918کے زمانے کی بات ہے۔ انگریز کے مظالم سے تنگ آ کر دارالعوم دیو بند اور فرنگی محل لکھنو کے علماء نے ہندوستاان کو دارالحرب قرار دیا جہاں سے ہجرت کرنا چاہیے۔ چنانچہ ہزاروں لاکھوں مسلمان جن میں سینکڑوں نہیں تو درجنوں مشاہیر بھی شامل تھے، صوبہ سرحد (اب پختونخوا) کے راستے افغانستان پہنچنے لگے۔ ان میں سے کئی کے ساتھ ان کی خواتین بھی تھیں۔ لیکن افغانستان میں ان کے ساتھ الٹ معاملہ ہوا۔
پہلا پڑائو جلال آبادیوں کا تھا۔ انہوں نے مار مار کر ان مہاجرین کی درگت بنا ڈالی۔ ان کی عورتیں چھین کر لے گئے، مال اسباب بھی لوٹ لیا اور کچھ کو تو قتل بھی کردیا۔ انہوں نے شاہ امان اللہ سے فریاد کی جس نے سنی ان سنی کردی۔ واپس یہ لوگ نہیں آ سکتے تھے کہ دیوبند اور فرنگی محل کا فتویٰ آ چکا تھا کہ جو ہجرت توڑے گا، کافر ہو جائے گا۔ چنانچہ یہ لوگ افغانستان کی پرلی سرحد، دریا ئے آموکے پار اترے جہاں سوویت یونین اپنا قبضہ جما رہا تھا اور اس کی فوجوں کی امیر بخارا کے دستوں اور ترکمان ترکوں سے لڑائی چل رہی تھی۔ ہجرت والے وہاں پہنچے تو ترکمانوں نے انہیں گھیر لیا اور اس بے دردی سے ان کا قتل عام کیا کہ سو میں سے پچیس ہی بچے۔ ترکمان روس کے دشمن تھے اور دشمن کے دشمن انگریز کے دوست جو ان کا مدد گار بھی تھا۔ ہجرت والے انگریز کے دشمن تھے۔ چنانچہ ترکمانوں نے انہیں کافر قرار دے دیا۔ ان کو بھگا بھگا کے مارا۔ ڈنڈوں اور بندوقوں سے مارا، دریا میں ڈبو ڈبو کر مارا۔ غرض ہر طرح سے مارا۔ بچے کھچے لوگ آگے ہی آگے بھاگ گئے اوربحیرہ کیسپئن عبور کر کے کوہ قاف جا پہنچے جہاں وہ مدتوں مقیم رہے۔ بعض روس نکل گئے اور ماسکو میں کمیونسٹ پارٹی جو نئی نئی اقتدار میں آئی تھی کے ہتھے چڑھ گئے۔
باکو کا یہ اخبار اسی دور کی یادگار ہے۔ صرف باکو سے نہیں، ہجرت والوں نے استنبول سے بھی اخبار نکالے، تب ترکی کی عثمانی خلافت ختم ہورہی تھی اور کمال پاشا نیا ترکی بنا رہا تھا۔ پھر ہجرت رہی نہ ہجرت والے اور نہ یہ اخبار۔ ساری کہانی تاریخ کا ایک باب بن گئی، پھر یہ باب بھی گم ہو گیا۔