Baap Beta Jarehana Moode Main
Abdullah Tariq Sohail93
ایک دن کے وقفے سے دونوں باپ بیٹے نے خوب کڑوی کسیلی اور جارحانہ گفتگو کی۔ آصف علی زرداری نے ٹی وی انٹرویو میں کئی باتیں ایسی بھی کھل کر کر دیں جو نواز شریف نے اشارے کنائے میں کی تھیں۔ تو محب وطن میڈیا میں بھونچال آ گیا تھا اور مہینوں تک درو دیوار لرزتے رہے تھے۔ اب تو خیر سے سارا میڈیا ہی محب وطن بنا دیا گیا ہے، شاید ہی کوئی چینل ایسا بچا ہو جو محب الوطنی سے محفوظ رہا ہو۔ نواز شریف نے کہا تھا، فیصلے لکھے لکھائے آ رہے ہیں۔ زرداری نے تو لگی لپٹی رکھے بغیر بات کر دی کہا، ثاقب نثار کے دور میں جو بھی ہوتا رہا کسی اور کے کہنے پر ہوتا رہا۔ سخت منفی بات۔ مثبت بات انہوں نے یہ کہی کہ امید ہے اب ایسا نہیں ہو گا۔ اتنی احتیاط البتہ انہوں نے یہ کی کہ "کسی اور" کی وضاحت پھر کبھی پر ٹال دی۔ بلاول بھٹو زرداری اگلے روز میڈیا کے سامنے جلوہ افروز ہوئے اور 18ویں ترمیم کے مسئلے پر لانگ مارچ کی دھمکی بھی دے دی۔ مزید کہا کہ عمران خاں نے بھٹو پر جو تنقید کی غلط ہے، وہ میرٹ پر وزیر خارجہ بنے اور کرپٹ افسروں کو نکالا جن میں عمران خان کے والد بھی شامل تھے۔ یہ ان کی زیادتی ہے۔ مرحوم نے اگر کرپشن کی تھی تو یہ ان کا ذاتی معاملہ تھا۔ کل ہی تحریک انصاف نے مشورہ دیا تھا کہ ذاتی معاملات سیاست میں مت لائیں۔ لگتا ہے بلاول نے یہ مشورہ درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ بلاول نے انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش ظاہر کی اور کہا کہ کسی ادارے سے انصاف نہیں مل رہا۔ گمشدہ افراد کا مسئلہ اب انسانی تباہی بن چکا ہے۔ اس مسئلے پر تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہونا پڑے گا۔ تجویز معقول ہے۔ ہر دوسرے روز لاپتہ افراد کے لواحقین کبھی اسلام آباد، کبھی کراچی، کبھی کوئٹہ مظاہرے کرتے ہیں۔ ایک ہی بار جلوس نکل جائے تو اچھا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے باہمی تعاون کی بات آصف زرداری نے بھی کی۔ کہا، اٹھارہویں ترمیم ختم کرنے کے خلاف سب جماعتیں مل کر مزاحمت کریں گی۔ ٭٭٭٭٭لیجئے جناب، جن افراد کو شکوہ تھا کہ وزیر اعلیٰ بزدار کے پروٹوکول جلوسوں میں ہمیشہ تین درجن گاڑیں کیوں ہوتی ہیں، ان کا شکوہ دور ہو گیا۔ ملتان کے شاہانہ دورے پر ان گاڑیوں کی تعداد "تسلی بخش حد" تک زیادہ تھی۔ آنے والے دنوں میں یہ تعداد اور بھی بڑھے گی، ترقی اسی طرح تو ہو گی۔ ایک چینل نے سکرین پر لکھا۔ بزدار کی آمد پر ملتان کے بازار بند کر دیے گئے۔ بالکل غلط جناب، ملتان کے شہریوں نے اظہار مسرت کے طور پر تعطیل کی تھی۔ براہ کرم مثبت رپورٹنگ کیا کیجئے۔۔ ایک روز قبل وزیر خزانہ کا سیالکوٹ میں طویل در طویل پروٹوکول قافلہ دیکھ کر شہریوں کا اظہار مسرت دیدنی تھا۔ افسوس کسی چینل نے یہ مسرت مناظر نہیں دکھائے۔ اصل میں ارتقا ہو رہا ہے۔ زمانہ قدیم میں لوگ کپڑے نہیں پہنتے تھے۔ گھاس پھوس باندھ لیا کرتے تھے۔ پھر اس کی جگہ چمڑے نے لے لی۔ اس کے بعد کپڑے بنے، پھر انسان، بالخصوص عورتیں پوری کی پوری ملبوس ہو گئی۔ یہ ارتقا کا ایک مرحلہ تھا۔ دوسرے مرحلے میں ارتقا یوں ہوا کہ، پہلے مغرب، پھر باقی دنیا میں بھی خواتین کے لباس مختصر سے مختصر ہونے لگے۔ رجعت پسندوں نے اسے رجعت قہقری کا نام دیا۔ حالانکہ یہ درحقیقت اور دراصل ارتقا کی اگلی منزل تھی۔ اب دیکھیے، عمران خاں صاحب حکمرانوں کے پروٹوکول کی سخت مذمت کرتے تھے، عوام کو ان کے خلاف بھڑکاتے تھے۔ یہ ان کے ذہنی ارتقا کا پہلا مرحلہ تھا۔ دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ ان کی حکومت ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ پروٹوکول لینے والی جماعت بن گئی ہے۔ کیا خان، کیا بزدار، کیا واڈیا والا۔ کیا جہانگیر ترین کیا عارف علوی، کیا عمران اسمٰعیل کیا چودھری سرور، یہ ارتقا کا دوسرا مرحلہ کتنا خوش کن ہے، تبدیلی کے مخالف کیا جانیں۔ اسی طرح خاں صاحب حکمرانوں پر برستے تھے کہ وہ جہازوں میں وی آئی پی سیٹیں لیتے ہیں جبکہ ہالینڈ وغیرہ کے وزرائے اعظم سائیکلوں پر سفر کرتے ہیں۔ یہ ارتقا کا پہلا مرحلہ تھا، دوسرے مرحلے میں دنیا نے دیکھا کہ جہاں بھی جاتے ہیں کہ "سالم" جہاز کراتے ہیں اور تو اور ان کے بزدار بھی گوجرانوالہ جانا ہو تو ہیلی کاپٹر کراتے ہیں۔ جلد ہی وہ اپنے گھر سے وزیر اعلیٰ آفس کا سفر بھی ہیلی کاپٹر پر کیا کریں گے۔ یہ ارتقا کا تیسرا مرحلہ ہو گا بشرطیکہ مارچ میں کچھ اور نہ ہو جائے۔ بہرحال، پروٹوکول ہو یا کارکردگی، فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کون آگے ہے۔ عمران یا بزدار۔ ٭٭٭٭٭عمران خاں نے نمل یونیورسٹی میں خطاب فرماتے ہوئے خبر بریک کی کہ پاکستان اوپر کو اٹھ رہا ہے۔ سٹیٹ بنک نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کی رپورٹ جاری کر کے اس کی تصدیق کر دی۔ رپورٹ ہے کہ صنعتی شعبے کی ترقی منفی 1.7فیصد رہی۔ اس سے پچھلے برس یہ ترقی مثبت 4.9فیصد تھی۔ پاکستان اوپر اٹھ رہا ہے لیکن شاید کچھ زیادہ ہی اوپر اٹھ گیا ہے۔ ٭٭٭٭٭ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر ماہر تعلیم بھی ہیں اور صحافی بھی۔ مختلف چینلز پر حالات حاضرہ کے پروگرام کرتی رہی ہیں اور عشرے بھر سے قومی اخبارات میں کالم بھی لکھتی ہیں۔ ان کا شمار ایسے کالم نویسوں میں ہے جو سنجیدہ انداز، شائستہ اور نفیس اردو میں اظہار خیال کرتے ہیں۔ ان کے پچھلے چار برس کے کالموں کا انتخاب "زیب داستان" کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر ہر ہفتے کے اہم واقعے پر کالم لکھتی ہیں۔ چنانچہ یہ مجموعہ گزشتہ چار برسوں کے ہنگامہ خیز دور کی "تاریخ" بھی کہا جا سکتا ہے، ایسی تاریخ جس میں نہ صرف واقعے کی تفصیل مل جاتی ہے بلکہ قومی زندگی پر اس کے منفی یا مثبت اثرات کی تصویر بھی نظر آتی ہے۔ بہت نفیس کاغذ پر یہ کتاب جہانگیر بکس لاہور نے شائع کی ہے۔