بجا ارشاد ہوا کہ آٹا چینی کا بحران ہماری کوتاہی کا نتیجہ تھا۔ واردات کا حجم دیکھیے اور پھر کوتاہی کے لفظ کو داد دیجیے? ع
کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری
ایک سو چالیس ارب روپے کی واردات ہوئی ہے اور یہ ساری رقم غریب قوم کی جیبوں سے نکلوا کر چند پیاروں کے کھاتے بھرے گئے ہیں۔ غریب قوم کی کیا مجال جو اسے ڈکیتی قرار دے سکے۔ اس کی خیریت اسی میں ہے کہ اسے کوتاہی مان لے اور کوتاہی کا کیا، ہو ہی جاتی ہے۔ اس بار ہو گئی اب نہیں ہو گی، اچھا جائو معاف کیا، آگے سے دھیان رکھنا۔ اور مزے کی بات ہے، کوتاہی ختم نہیں ہوئی، جاری ہے۔ عوام کی جیب سے رقم بدستور نکلوائی جا رہی ہے۔ ہفتہ بھر پہلے اعلان ہوا، مہنگائی میں کمی کے لئے گردن توڑ اقدامات کا فیصلہ۔ اعلان کل ہو گا اور اعلان یہ ہوا کہ یوٹیلیٹی سٹورز پر قیمت دو روپے کم کر دی گئی ہے۔ یعنی آٹا جتنے کا ہوا اس کی قیمت پکی کر دی گئی۔ چینی 88 روپے پر مستقل کر دی گئی۔ فی کلو 28 روپے کی ڈکیتی کو ریگولرائزڈ کر دیا گیا۔ تحریک انصاف کی بھی کیا خوش قسمتی ہے۔ اس کی ہر بات ریگولرائز ہو جاتی ہے۔ کچھ کوتاہیاں، ڈیم والے ریگولرائز کر گئے، کچھ کی یہ خود ہی کر لیتے ہیں۔
اس کوتاہی کی سنا ہے کہ کوئی تحقیقات بھی چل رہی ہے۔ ابتدائی تحقیقات کا ذکر خود وزیراعظم نے کیا۔ فرمایا ابتدائی رپورٹ میں یاروں کے ملوث ہونے کا ذکر نہیں۔ یعنی انہیں کلین چٹ مل گئی۔ اچھا ہے، اچھوں کے دامن پر کوئی داغ نہیں ہونا چاہیے۔ ہو تو ریگولرائز کر دینا چاہیے۔ یہ ابتدائی تحقیقات ہے۔ حتمی بھی کبھی نہ کبھی ہو جائے گی۔ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ اس کا انحصار اس پر ہو گا کہ حتمی تحقیقات کون سا ادارہ کرے گا۔ واجد ضیاء کی سربراہی میں کمیٹی بنے تو لامحالہ بحران کا کھرا نواز شریف اور مریم کی طرف جائے گادس ڈبے ثبوتوں کے برآمد ہوں گے۔ نیب کو ذمہ داری دی جائے تو وہ شاہد خاقان عباسی کو بحران کا کرتا دھرتا قرار دے ڈالے گا اور اگر معاملہ وزارت داخلہ کے سپرد کیا جائے توبخدا، جان اللہ کو دینی ہے، یہ سارا بحران رانا ثناء اللہ کی کارگزاری نکلے گا۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے گندم چینی اور دوسرے بحرانوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وزیر اعظم ہائوس سارے مافیائوں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔ بیان کے متن پر بحث نہیں، بیان کی زبان کی اصلاح مطلوب ہے۔ کہنا یہ ہے کہ پناہ گاہ وضع لفظ نہیں، آج کل شیلٹر ہوم بولا جاتا ہے، اسی میں وضاحت ہے اور بلاغت بھی۔
عالی جاہ ہر دوسرے تیسرے روز کوئی نہ کوئی ایسا انکشاف کر دیتے ہیں کہ علمی اور تحقیقی حلقوں میں تہلکہ مچ جاتا ہے۔ عالی جاہ مذہب و سائنس تاریخ و جغرافیہ، روحانیات اور عمرانیات سمیت ہر علم کے معدن و مخزن ہیں، بلکہ معدن المعارف اور مخزن المخازن کہتے۔ افسوس کی بات ہے یا پھر حیرت کی کہ ان کے انکشافات ٹی وی پر لائیو چل جاتے ہیں۔ اگلے روز پرنٹ میڈیا سے غائب ہوتے ہیں۔ خدا جانے، روحانی اسراریات کا یہ کون سا نکتہ ہے۔ ترک صدر کی آمد پر فرمایا، ترکوں نے چھ سو سال برصغیر پر حکومت کی۔ حسب معمول تہلکہ مچ گیا۔ اپنی ہی تاریخ سے بے خبر ترک صدر بھی حیران رہ گئے۔ اگلے روز اخبارات نے اس تاریخی انکشاف کو ذرا بھی جگہ نہیں دی۔ بہرحال سوشل میڈیا پر اس پر خوب علمی و ادبی مباحثے ہوئے۔ علمی کم ادبی زیادہ، خیر، یہ انکشاف کچھ ایسا بھی تحیر خیز نہیں۔ برصغیر پر حکمرانی کرنے والے مغل وسط ایشیا سے یہاں آئے اور اسی وسط ایشیا کے جنوب مغربی کونے سے نکل کر ترک ایشیا آئے اور اسے ترکی بنا دیا۔ گویا "اوربجن"ایک ہی ہوا۔ جیسے برطانیہ اور جرمنی پاس پاس واقع ہیں، ایک ہی خطے، شمالی یورپ سے تعلق رکھ سکتے ہیں چنانچہ اگر ہم کہیں کہ جرمنی نے ڈیڑھ دو سال برصغیر پر حکمرانی کی تو کچھ ایسا غلط نہیں ہو گا۔ علاوہ ازیں برصغیر کے تمام مسلمان حکمران پہلے بغداد پھر استنبول کے خلیفہ کو اپنا حکمران مانتے تھے۔ وہیں سے خلعت اور سند لیتے تھے۔ تو پھر غلط کیا ہوا؟ ایک اور بات اس انکشاف کے حق میں یہ ہے کہ ابتدائی صدیوں میں ہندوستانی عوام ہر مسلمان کو ترک کہتے تھے۔ چاہے وہ عربستان سے آیا ہو یا خراساں سے، بلخ بخارے کا ہو یا کابل قندھار کا۔ ان کی نظروں میں ہر مسلمان ترک تھا۔ حضرت امیر خسرو کی ایک نظم میں بھی اس کا ذکر ہے۔ حضرت باغ و بہار ہستی تھے۔ ایک بار کسی بت کمسن کو دیکھا اور ازراہ شرارت ایک شوخ سی فرمائش کر دی۔ وہ گھبرا گیا اور ع
گفتا کہ ہرے رام، ترک کائے کرے چھے
دیکھو، یہ نہیں کہا کہ مغل کائے کرے چھے۔ یہ بھی نہیں کہا کہ عرب کائے کرے چھے۔ بلکہ یہ کہا کہ ترک کائے کرے چھے۔ (نوٹ:حضرت خود بھی ترکی الاصل تھے لیکن انہیں مسلمان ہونے کی وجہ سے ترک کہا)تو انکشاف پر متنازعہ بحث بلا جواز ہے۔ عالی جاہ نے درست فرمایا۔
عالی جاہ تنقید سے گھبرا گئے، سوشل میڈیا کا منہ بند کرنے کا قانون بنا رہے ہیں۔ بہت عمدہ۔ لیکن اکیلے سوشل میڈیا کو بند کرنے سے مطلوبہ نتائج نہیں نکلیں گے، تھڑے، چوک چوراہے کا بھی بندوبست لازم ہے کہ حد سے زیادہ ہرزہ سرائی ہو رہی ہے۔ ہر تھڑے چوک چوراہے پر کوتوال بٹھانے ہوں گے، گھروں کے اندر بھی کیمرے لگانے ہوں گے۔