مولانا خادم رضوی کی سیاسی منظر نامے پر اٹھان، ان کا فیض آباد والا دھرنا، اچانک وفات اور بے مثال جنازہ، ہر معاملے نے لوگوں کو حیران کیا۔ وہ ممتاز قادری کو پھانسی کے خلاف اول اول سامنے آئے اور قادری مرحوم کے جنازے کی قیادت کی۔ یہ بہت بڑا جنازہ تھا۔ ممتاز قادری کو گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل پر سپریم کورٹ کے حکم پر پھانسی چڑھایا گیا تھا۔ نواز حکومت کے خلاف آپریشن اقامہ کو تیز تر کرنے کے لئے قادیانی والے حلف نامے کا مسئلہ اٹھا تو خادم رضوی نے تحریک چلائی۔ اس دوران بعض افراد مارے گئے اور ایک وزیر کو گولی مار دی گئی۔ ملک بھر میں ہنگامہ برپا تھا اس بار ان کی تحریک کو میڈیا نے مسلسل کوریج دی۔ پچھلے ہفتے فرانس میں توہین رسالت کے خلاف مولانا نے ایک اور دھرنے کا اعلان کیا تو میڈیا نے اس کا مکمل بلیک آئوٹ کیا۔ ایک سطر بھی اس دھرنے کی خبر کی اخبار میں چھپنے دی گئی، نہ ٹی وی پر چلنے دی گئی اس کے باوجود بہت بڑا ہجوم اسلام آباد پہنچا اور دھرنا دے کر بیٹھ گیا۔ مذاکرات ہوئے اور دھرنا ختم ہو گیا لیکن سمجھوتے میں حکومت نے کمال چالاکی سے ہاتھ کر دیا۔ دھرنے کا مطالبہ تھا کہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کر دیا جائے، معاہدے میں کہا گیا کہ ایسا پارلیمنٹ کی منظوری سے کیا جائے گا۔ دو تین روز بعد اچانک ان کی وفات کی خبر آ گئی جس پر ہر شخص حیران رہ گیا۔ ہفتے کو مینار پاکستان پر ان کا جنازہ تھا۔ شرکاء کی تعداد لاکھوں میں تھی اور صحافیوں کا اتفاق ہے کہ اس جگہ اتنا بڑا اجتماع اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ اتنے بڑے جنازے نے بھی ملک بھر کو حیرت میں مبتلا کر دیا اور اس جنازے کی تصاویر غیر ملکی میڈیا نے بھی تبصروں کے ساتھ شائع کیں۔ مولانا کا منظر عام پر آنا اور پھر اس دنیا سے رخصت ہو جانا کل چند برس کی بات ہے وہ اچانک منظر نامے میں داخل ہوئے۔ ہر بار دھرنے سے لوگوں کو حیران کیا اور پھر اچانک ہی الوداع ہو گئے۔ اتنی مختصر مدت میں انہوں نے دسیوں لاکھ افراد کو اپنا عقیدت مند بنایا جو خود ایک ریکارڈ ہے۔ شعلہ مستعجل کی طرح بھڑکے اور بجھ گئے۔ خدا ان کی مغفرت کرے۔ ان کی سیاست جب تک نوازشریف کے خلاف رہی وہ میڈیا اور ریاست کے محبوب رہے، جونہی ان کا رخ موجودہ حکومت کی طرف ہوا، وہ میڈیا کے لیے شجر ممنوعہ قرار پائے۔ ان کی تحریک لبیک افرادی قوت کے اعتبار سے ملک کی بہت بڑی قوت تھی۔ اب ان کی مقناطیسی مرکزیت والی شخصیت نہیں رہی تو دیکھئے، اس تحریک کے مستقبل پر کیا گزرتی ہے۔
ریاست کے سیلف میڈ ترجمان اور وفاقی وزیر شیخ رشید کی زبان ان دنوں بھی گہر بار ہے لیکن گہر میں چمک کے بجائے یاس کا کہرا زیادہ نمایاں ہے۔ نہ جانے کیوں۔ خیر، فرماتے ہیں کہ ہم اپوزیشن کے جلسوں سے ڈرنے والے نہیں۔ کسی صحافی نے ان سے ڈرنے یا نہ ڈرنے والا سوال نہیں پوچھا تھا، وہ خود ہی بلا فرمائش ڈر والی بات زبان پر لے آئے۔ اس بے ساختہ بے خوفی کو کیا نام دیا جائے۔ مزید فرمایا، اپوزیشن قوم کو بند گلی میں لے جا رہی ہے۔ خدا جانے قوم سے انہوں نے کیا مراد لی ہے۔ ویسے وفاقی کابینہ کے ارکان کی تعداد اتنی زیادہ ماشاء اللہ ہو گئی ہے کہ لفظ قوم کا اطلاق اس پر آسانی سے کہا جا سکتا ہے۔ ان کی پریس کانفرنس کا "مقطع" یہ تھا کہ ہم اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں، وہ بھی مذاکرات کی طرف آئے ہفتہ بھرپہلے شیخ صاحب نے اپوزیشن سیاست کو دھمکی دی تھی کہ "را" انہیں قتل کردے گی۔ یہ دھمکی دے کر انہوں نے بہتوں کو حیران کردیا۔ را کا نشانہ تو محب وطن افراد ہونے چاہئیں، سچے پاکستانی۔ پاکستان کے غداروں کو مارنے کی اسے کیا سوجھی۔ چلو، اچھا ہے غدار مرنے ہی چاہئیں، بھلے سے را بھی کیوں نہ مارے۔ شیخ صاحب متاثر کن شخصیت ہیں اور ان سے بھی متاثر کن ان کا ہزار کینال کا فارم ہائوس ہے۔ اس کی ہر چیز متاثر کن ہے۔ کیا وسیع و عریض جنگلات اور کیا باغات۔ مربع کلومیٹر کی جھیلیں، کاٹیج،۔ فینٹاسی ورلڈ میں لے جانے والے جھونپڑے، سبزے کی مہار۔ سچ ہے اللہ محب وطنوں کو چھپڑ پھاڑ کردیتا ہے۔ سراسر خدا کی دین ہے۔
سنئے ذرا حکومت کیا فرما رہی ہے۔ یہ کہ پاکستان کی معیشت علاقے بھر میں سے سب سے اوپر ہے جس کا سہرا حکومتی معاشی ٹیم کے سر جاتا ہے۔ ایسے میں کسی کو ہزار بار کا سنا ہوا لطیفہ ایک ہزار ایک ویں بار یاد آ جائے تو کچھ مضائقہ نہیں جس میں صفر پانے والے بچے نے ماں کو بتایا، ماں ماں میں سکول میں فرسٹ آیا ہوں۔ ماں بے چاری سادہ لوح اتنا پوچھنے کی سمجھ بوجھ کہاں سے لاتی کہ بیٹا کس طرف سے۔ بہرحال فرسٹ تو آیا چاہے کسی بھی طرف سے آیا۔ لطیفہ تو پرانا ہے البتہ ایک اشتہار کچھ عرصہ پہلے تک چلتا رہا ہے اور اپنے تخلیقی مواد کی وجہ سے ناظرین میں "انٹرنیٹ آئٹم" کے طور پر خوب مقبول ہوا۔ مالک نے ملازم سے کہا نرم سا گدا بازار سے لے آئو۔ ملازم ایک گدھا لے آیا۔ مالک نے سر پیٹ لیا اور اسے ڈانٹا کہ تم سے نرم ملائم گدا لانے کو کہا تھا۔ ملازم شرمندہ تو ہوا لیکن پھر گدھے پر ہاتھ پھیر کر کہا نرم و ملام تو ہے۔ معیشت بھی سب سے اوپر ہے۔ بھلے سے کسی حوالے سے ہو اور صفر سے اوپر تو کچھ ہوتا ہی نہیں۔
وزیراعظم نے چند دن پہلے فرمایا، اس مالی سال کے پہلے چار مہینوں میں پاکستان نے کوئی قرضہ نہیں لیا۔ مبارک سلامت کی تمہید کیساتھ بعض وزیروں نے بھی یہ بات اگلے روز دہرائی اور اگلے سے اگلے روز اخبارات میں سٹیٹ بینک کے حوالے سے یہ خبر چھپی کہ رواں مالی سال کے پہلے چار مہینے کے دوران پاکستان نے سوا تین ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے لیے۔
خیر سے کپاس کی فصل بھی بھاگ بھری حکومت کی نذر ہورہی ہے۔ اس سال ملک کو 15 ملین گانٹھوں کی کمی کا سامنا ہو گیا ہے۔ یعنی لگ بھگ 15 ارب ڈالر کا گھاٹا۔ اطلاعات ہیں کہ حکومتی پیاروں نے ناقص بیج دیئے۔ اگلے سال اور بھی بڑی تباہی کا خطرہ ہے۔ بھاگ بھری حکومت نے جب کہا تھا کہ قومیں کپاس اور ٹیکسٹائل بیچنے سے ترقی نہیں کرتیں تو دراصل وہ اسی بات کی خبرداری دے رہی تھی۔ بھاگ بھری حکومت کے بھاگ لگے رہن!