Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Corona Aur Samajh Daar Media

Corona Aur Samajh Daar Media

عشرے بیت گئے یا پھر صدیاں گزر گئیں، یا شاید ابھی کل ہی کی بات ہے۔ بہرحال سکول کے دن تھے کہ خبر آئی اسرائیل سے جنگ میں مصر کے جزیرہ نما سینائی پر یہودیوں کا قبضہ ہو گیا۔ جنگ کراچی میں اس سانحے پر نظم چھپی جس کا بس ایک ہی مصرع یاد رہ گیا ہے ع

آج سینائی کی مسجدیں بے اذاں

جس نے پڑھی، رو دیا۔ شاعر نے اپنا دکھ ظاہر کیا تھا ورنہ حقیقت میں سینائی(سویز) کی کوئی مسجد بے اذان نہیں ہوئی تھی۔ بدستور نمازیوں سے آباد تھی۔ لیکن آج زمانے نے وہ ناقابل یقین کروٹ لی ہے کہ کاسابلانکا سے جوگ جکارتہ تک کی مسجدیں اگرچہ بے اذان نہیں ہوئیں، بے نماز ضرور ہو گئی ہیں۔ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر مسجدوں پر ویرانی چھائی ہے، صحنوں اور گنبدوں پر منڈلاتے، اڑتے کبوتروں کو حیرانی نے آ لیا ہے۔ کرونا وائرس نے دنیا کے منظر بدل دیےیہ وائرس عذاب ہے یا انتباہ آسمان سے نازل ہوئی مصیبت ہے یا وہ بلا کہ جسے "خود آفریدم" کہئے۔ قرآنی الفاظ میں بجا کسبت ایدیکم! باقی کا تو پتہ نہیں عذاب بالیقین نہیں ہے۔ اس لئے کہ عذاب ہوتا تو چین میں بس ڈیڑھ دو یا تین چار کروڑ لوگ ہی باقی بچتے۔

دنیا بھر سے ویڈیو کلپ آ رہے ہیں دنیا کا ہر ملک کرونا سے نمٹنے میں مصروف ہے صفائی ستھرائی کا کام پہلے سے بڑھ کر ہو رہا ہے۔ ہنگامی اور عارضی ہسپتال بن رہے ہیں، ماسک اور کٹس دی جا رہی ہیں اور نہ جانے کیا کیا کچھ ہو رہا ہے۔ اور اگر ہر جگہ کیا کیا کچھ نہیں ہو رہا تو تو ایک دیس ایسا بھی ہے جہاں کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آ رہا اور وہ ہمارا دیس ہے۔ شہروں میں گندگی کے ڈھیر پہلے سے بھی بڑھ گئے ہیں۔ پنجاب کے شہروں کا تو حال سب سے برا ہے کہ صوبہ بھی سب سے بڑا ہے۔ شاید اس کے وزیر اعلیٰ ان ڈھیروں کو" آرائشی منارے"یا ڈیکوریشن مونو مینٹس سمجھ رہے ہوں واللہ اعلم۔ کٹس باہر سے آئیں پھر نہ جانے کہاں چلی گئیں اور کرونا پھیل رہا ہے۔ لاہور کے کتنے ہی علاقے "سرخ" قرار پا چکے۔ صفائی کا نام نہیں انتظامات کا نشان نہیں۔ اللہ جانے کیا ہو گا آگے۔

ہر ملک میں حکومتیں عوام کو ریلیف دے رہی ہیں۔ یوٹیلیٹی بلز میں رعایت دی جا رہی ہے یا سرے سے معاف کئے جا رہے ہیں۔ دوائوں کی فراہمی بڑھ گئی ہے سہولتیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ اپنے دیس کا باوا آدم اور ہی ہو گیا ہے۔ ہر شے کے سرکاری اور غیر سرکاری دام بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ چند روز پہلے وزیر اعظم نے یوٹیلیٹی سٹورز کے لئے 50 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا۔ سنتے ہی ستم ظریف نے کہا اب چیزیں اور مہنگی ہوں گی۔ وہی ہوا دال، چینی سے لے کر آٹے گھی تک ہر شے مہنگی ہوئی۔ یہ دوسری بار ہے کہ ایسا ہوا۔ دو تین ماہ پہلے یوٹیلیٹی سٹورز کے لئے ایسا پیکیج جاری ہوا تھا جس کے اگلے روز ہی قیمتیں کئی سیڑھیاں اوپر چڑھ گئیں۔ اس بار کچھ چیزوں کے دام بڑھے، کچھ سرے سے ناپید ہو گئیں۔ وہ پہلے والے پیکیج کے اربوں کہاں گئے۔

پہلی بار پاکستان میں مہنگائی نجی نہیں سرکاری شعبے میں ہو رہی ہے۔ حال ہی میں آٹے چینی کا بحران آیا تھا وزیر اعظم نے سخت ایکشن لینے اور ذمہ داروں کو معاف نہ کرنے کا آہنی اعلان کیا تھا۔ اتنے ہفتے گزر گئے کوئی نہیں جانتا کہ اس آہنی اعلان کا کیا بنا!یہ خبر البتہ آئی تھی کہ وزیر اعظم نے رپورٹ مانگی تھی جس میں تاخیر ہو گئی تو وزیر اعظم سخت برہم ہوئے تھے۔ اس برہمی کو بھی دو ہفتے سے اوپر ہو گئے۔ رپورٹ پیش ہوئی یا نہیں۔۔۔۔ شاید پیش ہوئی ہو اور وزیر اعظم نے ملاحظہ فرمانے کے بعد کہا ہو، اچھا تو یہ لوگ تھے، ٹھیک ہے۔ جو ہوا مٹی پائو اور شاہد خاقان پر نیا ریفرنس بنائو۔ مرشد ضیاء الحق کے دور میں جو ہوا یہ اس کا ری پلے لگتا ہے۔ اوجڑی کیمپ پھٹا اربوں کا نقصان ہوا۔ سینکڑوں شہری مارے گئے ہزاروں گھائل ہوئے۔ مرشد نے فرمایا تحقیقات ہو رہی ہے جونہی مکمل ہوئی عوام کے سامنے لائی جائے گی۔ وعدہ کرتا ہوں کچھ نہیں چھپائوں گا، ذمہ داروں کو کڑی سزا دوں گا۔ رپورٹ مکمل ہوئی مرشد نے ملاحظہ فرمائی پھر کیا ہوا مت پوچھیے۔ مرشد نے بھی مٹی پائو سے کام لیا آپ بھی مٹی پائیں۔

مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے اور سرکاری ادارہ شماریات نے فرمایا کہ اس ہفتے ایک فیصد مہنگائی کم ہو گئی۔ سرکاری الجبرا میں بھی تبدیلی آ گئی ہے۔ 25 فیصد اضافے کو ایک فیصد کہنے کا فارمولا لاگو ہو گیا ہے۔ تیل کی قیمت کم کرنے کا لطیفہ آپ نے ملاحظہ فرما لیا۔ نواز شریف کے دور میں تیل 65 روپے لیٹر تھا جبکہ عالمی قیمت آج سے کہیں زیادہ تھی۔ آج عالمی قیمت اتنی گر گئی ہے کہ تیل کو 50 روپے لیٹر (نواز دور کے حساب سے) ہونا چاہیے لیکن وہ 96 روپے ہے گویا حکومت نے تیل سستا نہیں کیا46 روپے مہنگا کر دیا ہے۔

بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا تو پی ٹی آئی کے بھاگوں کرونا پھوٹا۔ نیک کمائیوں کا سلسلہ عروج پر ہے اشیائے خوراک نایاب یا کمیاب قیمتیں آسمانوں پر۔ آسان ہے کہ الزام ذخیرہ اندوزوں پر ڈال دیں لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ ذخیرہ اندوز کون ہیں۔ جاننے والے تو یہ بھی جانتے ہیں کہ کرونا پاکستان میں کون لایا۔ پھر بھی اپوزیشن نے پوچھا ہے کہ کون لایا؟ اپوزیشن نے پہلے بھی پوچھا تھا کہ آٹا چینی بحران کس نے کھڑا کیا۔ کیا اس کا جواب مل گیا جو یہ اگلا سوال داغ دیا؟ ان سوالوں کے اور بہت سے دوسرے سوالوں کے جواب میڈیا اچھی طرح جانتا ہے لیکن وہ بتائے گا نہیں کیونکہ وہ سمجھدار ہو چکا ہے اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ اسے سمجھدار بنایا جا چکا ہے۔