مشکل گھڑی ہے اور مشکل بڑھتی جا رہی ہے۔ لوگ ڈرے ہوئے ہیں اور ڈر پھیلتا جا رہا ہے۔ تفتان کے راستے آنے والے کرونا وائرس کے جھکڑ اب طوفان بنتے جا رہے ہیں۔ حکومت نے اس عذاب با آفت سے نمٹنے کے لئے اور عوام کے بچائو کے لئے کئی ٹھوس اور گراں قدر فیصلے کئے ہیں جن کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ خلاصہ ان اقدامات کا یہ ہے کہ گرمیوں کا انتظار کیا جائے۔ کرونا خود ہی ختم یا کمزور ہو جائے گا۔ دیکھا جائے تو یہ نہایت معقول اور دولتمندانہ پالیسی ہے اور اس کا تجربہ پی ٹی آئی دوبار ڈینگی کی وبا کے دوران کامیابی سے کر چکی ہے۔ سردیوں کا انتظار کرو۔ ڈینگی خود ہی ختم ہو جائے گا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ سردیاں آتے ہی ڈینگی خود بخود ختم ہو گیا۔ پہلی حکومت اپنی فطرت میں بے صبری تھی، سردیاں آنے کا انتظار نہیں کرتی تھی۔ گرمیوں ہی میں ڈینگی ختم کرنے پر تل جاتی تھی۔ آخر خود ہی تلی گئی۔ چنانچہ ہسپتال ہوں یا قرنطینہ کے مراکز، سب زباں حال سے یہی کہہ رہے ہیں کہ گرمیوں کا انتظار کرو۔ ڈاکٹروں سے پوچھ لیں یا مریضوں سے دریافت کر لیں۔ ایک ہی جواب ملے گا۔ وہ جواب جو فی الوقت میڈیا میں نہیں چھپ سکتا اس لئے مثبت رپورٹنگ کا غیر تحریری قانون نافذ ہے اور شاید اسی لئے باہر سے جو آلات اور کٹس سرکاری ہسپتالوں کے لئے آئی تھیں۔ سنا ہے کہ کہیں اور پہنچ گئیں۔ ظاہر ہے جب مسئلہ گرمیوں نے حل کرنا ہے تو پھر سرکاری ہسپتالوں میں ان کٹس کی ضرورت ہی کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے طبی ماہرین نے کہا ہے کہ کرونا کا وائرس 56 درجے گرمی پر مر جاتا ہے۔ یعنی ہمیں محض گرمیوں کا انتظار نہیں کرنا، سخت گرمیوں کی دعا بھی کرنی ہے۔ بالعموم پاکستان کے چند ہی مقامات پر 50 ڈگری کی گرمی پڑتی ہے۔ ڈیڑھ پونے دو برس سے پاکستان"برکات" کے حصار میں ہے۔ ایک کے بعد ایک برکت نازل ہو رہی ہے۔ برکتوں کے اس نہ ختم ہونے والے سلسلے کی بدولت کیا پتہ یہ اضافی برکت بھی ہمیں حاصل ہو جائے کہ اس گرما میں درجہ حرارت سارے ملک کا 56فیصد ہو جائے۔ کیا پتہ برکتوں کے وفور میں "کرامت بھی ظاہر ہو جائے"۔
حکومت نے جو گراں قدر اور ٹھوس اقدامات اٹھائے ان میں ایک عدد ٹویٹ، ایک عدد قوم سے خطاب اور ایک عدد پریس کانفرنس شامل ہے۔ پریس کانفرنس میں کرونا پر تشویش کم، میڈیا کی طرف سے افراتفری پھیلانے پر انتباہ زیادہ تھا اور بالکل برحق تھا۔ کرونا وائرس کے مقابلے میں میڈیا وائرس کا خاتمہ زیادہ ضروری ہے اور فی الوقت سرکار دربار میں ہونے والی پے درپے میٹنگز میں اسی موخر الذکر وائرس کا اینٹی وائرس دریافت کرنے پر زور ہے۔
خطاب کے دووران ان وزرائے اعلیٰ کی خوب تعریف کی گئی جو "صبر و استقامت" سے اپنی جگہ جم کر بیٹھے ہیں اور ٹک ٹک دیدم، کی تصویر بنے ہوئے ہیں لیکن اس وزیر اعلیٰ کا ذکر نہیں کیا جو کرونا کے خلاف اتنا سرگرم عمل ہے کہ اس کے مخالف بھی معترف ہو گئے اور دنیا سے بھی تعریفی رسیدیں ملیں۔ یعنی مراد علی شاہ۔ اس پر کچھ سیاسی اور صحافی حلقوں نے اعتراض کیا اور افسوس بھی ظاہر کیا۔ لیکن درحقیقت دیکھا جائے تو مراد علی شاہ خوش قسمت ہیں کہ تذکرے سے محروم رہے۔ ایسی کارکردگی قابل ملامت ہے جس سے دوسرے وزرائے اعلیٰ کی عوام میں سبکی ہو، وہ احساس کمتری میں مبتلا ہو جائیں یا ان کا دل دکھے۔ ماضی میں ڈینگی پھیلا تو سابق حکومت کی کارکردگی نے بھی یہی ماحول پیدا کیا تھا جس پر موجودہ حکومت نے سخت نوٹس لیا۔ چنانچہ مراد علی شاہ کی خوش قسمتی یہی ہے کہ حکومت کے ہونٹوں پر ان کا نام نہیں آیا، ورنہ ان کے لئے کرونا شاہ کا خطاب تو کہیں نہیں گیا تھا۔ شیخ رشید نے اپنی دانست میں یہ انکشاف کیا کہ پاکستان میں کرونا وائرس "تفتان" کے ذریعے پھیلا۔ قوم کو پہلے ہی پتہ تھا لیکن چلئے شیخ جی نے انکشاف کر کے قوم کو ملی اطلاع کی تائید مزید کر دی۔ قوم کو تو یہ بھی پتہ ہے کہ تفتان میں دراصل ہوا کیا تھا۔ کیسے ایران سے آنے والے زائرین کو بنا سکریننگ کے اندرون ملک پھیلا دیا گیا اور یوں کرونا پھیلنے کے لئے راستے ہموار کئے گئے۔ پتہ تو شیخ جی کو بھی ہو گا لیکن انہوں نے اس کا ذکر نہیں کیا اور کریں گے بھی نہیں، اس لئے کہ بڑے سیانے ہیں۔ جانتے ہیں کہ زلفِ بخارا سے الجھنے، اسے برہم کرنے کا نتیجہ کیا ہو گا، وزارت بھی جا سکتی ہے۔ اور ہاں، شیخ جی کو مبارک ہو۔ ریلوے کا "لاک ڈائون" کرنے کا ان کا ادھورا مشن "کرونا" کی بدولت پورا ہو رہا ہے۔ آدھی سے زیادہ ٹرینیں بند ہو چکی ہیں۔ اسے کہتے ہیں بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔
کرونا سے نمٹنے کے لئے امریکہ، عالمی بنک اور ایشیائی بنک نے کروڑوں ڈالر کی امداد پاکستان کو دینے کا اعلان کیا ہے۔ بلی کے بھاگوں ایک اور چھینکا ٹوٹا۔ عوام کو اس خبر سے کوئی دلچسپی نظر نہیں آئی۔ کیوں؟ جانتے ہیں کہ یہ رقم جہاں بھی لگے گی، لگے گی، ان پر، یعنی عوام پر نہیں لگے گی۔ یہ رقم کہاں جائے گی، اب کیا بتائیے۔ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ ریکارڈ قائم کرنے والے غیر ملکی قرضوں کی رقم جہاں گئی، یہ بھی وہیں جائے گی۔ یوٹیلیٹی بلوں میں ہونے والے کئی کئی گنا اضافوں کی رقم جہاں گئی۔ یہ بھی وہیں جائے گی۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور قرضوں کی بابت تازہ خبر آئی ہے۔ لکھا ہے: حکومت غیر ملکی قرضوں میں سو فیصد اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق حکومت نے باقی مدت کے لئے سرکاری قرضوں کے حجم میں سو فیصد اضافہ کرتے ہوئے ان کا تخمینہ 47.6 ٹریلین کر دیا ہے جو معیشت کے حجم کا تین چوتھائی ہو گیا ہے۔ رواں مالی سال کے اختتام پر سرکاری قرضوں میں مزید 36.7 ٹریلین کا اضافہ ہو جائے گا۔