رواں ہفتے کی ایک بڑی خبر یہ تھی کہ سرکار کی چٹھی رد کر دی گئی ہے۔ نوے فیصد عوام اس کے خلاف تھے اس لئے شروع میں سارا ملک خوشی سے جھوم اٹھا لیکن پھر شکوک نے آ لیا اور اس کے بعد یہ شکوک یقین کی حد تک پہنچ گئے۔ ایک قانون دان نے لکھا، یہ دوسرا نیب ہے۔ ایک اور قانون دان نے لکھا کہ یہ دراصل ایک اور جے آئی ٹی ہے اس لئے ڈر لگتا ہے۔ برسبیل تذکرہ، قانون دانوں سے یاد آیا کہ پاکستان میں قانون دان اور قانون پڑھانے والے تعلیمی ادارے ہوتے ہی کیوں ہیں۔ یہاں ڈنڈا پیر کا حکم چلتا ہے۔ جو تگڑا ہے، جیت جاتا ہے اور قانون غائوں غائوں کرتا رہ جاتا ہے۔ خیر۔ یہ جو کہا ہے کہ ڈر لگتا ہے تو عرض ہے کہ جے آئی ٹی سے ڈرنے کی ذرا بھی ضرورت نہیں۔ ڈرنے والی چیز وہ نوشتہ تقدیر ہے جو کہیں اور کسی کتاب محفوظ میں پہلے سے لکھا جا چکا ہوتا ہے۔ بات سمجھنے کے لئے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ دو تین برس پہلے کا نواز شریف کا قصہ یاد کر لیجیے۔ جے آئی ٹی بنی۔ کچھ ہیرے ڈھونڈے گئے اور انہیں نواز شریف کے خلاف ثبوت اکٹھے کرنے کا حکم ملا۔ جے آئی ٹی والے آخر کثیر محنت کے بعد دس صندوق لے کر آ حاضر ہوئے۔ صندوق کھولے تو ان میں ثبوت ایک بھی نہیں تھا۔ چنانچہ کاتبان تقدیر نے پہلے سے لکھا ہوا نوشتہ کھولا، پانامہ سے اقامہ برآمد کیا۔ بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے ناقابل معافی جرم میں عمر بھر کے لئے نااہل کر دیا۔ تو صاحبان ثابت ہوا کہ جے آئی ٹی سے ڈرنے کی ضرورت ہے اور نہ ثبوت کو پرکاہ کے برابر اہمیت دینے کی۔ ڈرنا ہے تو بس پہلے سے لکھے گئے نوشتہ سے ڈرنا ہے۔
نواز شریف پر چلنے والے کیسوں میں اسے دومقدمات میں سزائے قید ہوئی۔ ایک مقدمے کی اپیل ہوئی تو یہ دیکھ کر سب حیران رہ گئے کہ فیصلے میں سزا تو ہے، جرم کا ذکر ہی نہیں۔ یعنی کس بات پر سزا دی گئی؟ دوسرے مقدمے میں ایک ویڈیو لاوارث پڑی ہوئی ہے۔ دوسرا ملک ہوتا تو ویڈیو کے آنے کے فوراً بعد اس کی تصدیق کی جاتی اور معاملہ منطقی انجام پہنچ جاتا ہے۔ یہاں اس ویڈیو کی تصدیق ہوئے بھی سال گزر گیا۔ پاکستان میں قانون کی اہمیت کا موازنہ کوریا یا ایران میں انسانی حقوق کی اہمیت سے کیا جا سکتا ہے۔
منصف کے والد مرحوم قائد اعظم کے سچے ساتھی تھے۔ خود منصف نے بچپن میں مادرملت کا ساتھ دیا۔ منصف دبائو قبول کرتا ہے نہ لالچ میں آتا ہے۔ منصف نے دھرنا کیس کا بھی فیصلہ دیا تھا۔
جو ظاہری فرد جرم ہے، وہ کل سات لاکھ یا زائد کی رقم کا ہے جس میں تین لاکھ کے اثاثے ہیں۔ لاہور کراچی کے پوش علاقوں میں اتنی مالیت کا مکان بھی نہیں ملتا۔ لیکن کہتے ہیں کہ آخر ایک زرعی زمینوں کی مالک خاتون کے پاس اتنے پیسے نہیں ہو سکتے۔ یاد آیا، چند ہفتے پیشتر ایک شادی کی ویڈیوز آئی تھیں۔ دختر نیک اختر اور بہت ہی بلند اختر نے جو لہنگا پہن رکھا تھا، محض اس کی مالیت ایک کروڑ تھی۔ شادی کا کل خرچہ باخبر اور نیم باخبر ذرائع کے مطابق لگ بھگ پچاس کروڑ روپے تھا۔ دختران نیک و بلند اختر کے ہاتھوں کے پرس اور پائوں کے جوتے مذکورہ سات لاکھ پائونڈ والی محترمہ خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتیں۔
لیاقت بلوچ نے اس امر پر تشویش ظاہر کی ہے کہ حکومت نے ایک اور ڈیڑھ ارب ڈالر قرضے کا معاہدہ کر لیا ہے۔ کہا ہے کہ ملک پر دو برسوں میں پہلے ہی اتنے قرضے بڑھ چکے ہیں کہ عالمی ریکارڈ بن گیا ہے۔ مزید قرضے سے تو اور بھی بوجھ بڑھے گا۔ جناب ذرا تشویش کو سنبھال کر رکھیے۔ ابھی سال کے چھ ماہ رہتے ہیں، پورے ہو لیں تو قرضوں کے بہت سے معاہدوں پر اکٹھی تشویش ظاہر کر لیجیے گا۔ ویسے بہتر ہے کہ تشویش کے بجائے سوال پوچھیں۔ یہ سوال کہ قرضے کے یہ دریائے عظیم کس ڈیلٹا میں گر رہے ہیں ملک میں کوئی سڑک تو کجا، فٹ پاتھ بھی نہیں بن رہا۔ سکول نہ کالج۔ ہسپتال نہ ڈسپنسریاں۔ دو سال میں تین چار لنگر خانے ضرور کھلے تھے۔ وہ بھی بن کھلے مر جھا گئے۔ وہ ڈیلٹا تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ کہاں ہے، کس طرف کو ہے، کدھر ہے۔ مزید فرمایا، ٹائیگر فورس کا ڈاکٹرائن ٹھس ہو گیا۔ کہیں بھی کوئی ٹائیگر نظر نہیں آتا۔ معلومات کی تصحیح فرمالیں۔ بازاروں مارکیٹوں کے دکانداروں سے پوچھ لیں۔ کون ان کے پاس آتا ہے۔ ایک شہر سے خبر آئی کہ ایک ٹائیگر کو بھتہ لیتے ہوئے پولیس نے پکڑ لیا۔ ضرور پولیس سے بھول ہوئی، اسے مجاز اتھارٹی کے معنے سمجھنے میں غلطی لگی ہو گی۔