Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Doori Barhe Gi Ya Kam Hogi?

Doori Barhe Gi Ya Kam Hogi?

احساس پروگرام کے تحت غریبوں میں امداد کی تقسیم جاری ہے اور حزب اختلاف کے قائد شہباز شریف نے ڈرتے ڈرتے امدادی تقسیم کے اس "افراتفرانہ" انداز پر تنقید کی ہے۔ امداد کی "سرعام" تقسیم کے مناظر ٹی وی پر کم اور سوشل میڈیا پر سارے پاکستان بلکہ کل جہان نے دیکھے۔ احساس پروگرام بے نظیر سپورٹ فنڈ کا دوسرا نام ہے۔ انداز بھی مشرف بہ تبدیلی ہوا۔ پہلے چپ چاپ متاثرین کے گھروں میں رقم پہنچ جاتی تھی، اب متاثرین سے کہا گیا ہے کہ وہ ہجوم بنا کر تشریف لائیں، پولیس کی لاٹھیاں کھائیں، آپس میں دھینگا مشتی بھی کریں، پھر بھگدڑ بھی مچائیں اور اس کے بعد رقم وصول فرمائیں۔ چلیے اچھا ہے، غریبوں میں تو کم از کم "عزت نفس" کی بے کار بیماری کا علاج ہو گیا، یہ خناس اگر کچھ تھا تو نکل گیا، بھگدڑ میں ایک بے چاری بڑھیا تو جان ہی سے گئی۔ پہلے یہ اصول تھا کہ ایک ہاتھ دے تو دوسرے کو خبر نہ ہو، تبدیلی شدہ اصول یہ ہے کہ دو تو ایسے کہ سارے زمانے میں دھوم مچ جائے۔ چنانچہ دھوم تو خوب مچی، لیکن کن الفاظ میں مچی، تبدیلی کی محل سرا کو شاید اس کی خبر نہیں پہنچی ہے۔

پچھلے دنوں جو "تحقیقاتی رپورٹ" آئی، اس کے نتیجے میں سنا ہے کہ دو بزرگوں میں شکر رنجی چل رہی ہے۔ یوں سمجھ لیجیے، ایک طرف عمران الاولیا ہیں تو دوسری طرف ترین الاولیا۔ ایک ذمہ دار تجزیہ نگار نے لکھا ہے کہ دوری بہت بڑھ چکی، اب کم ہونے والی نہیں۔ لیکن ایک رائے اس کے برعکس بھی ہے کہ جلدی مصالحت ہو جائے گی اور وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ دونوں کے پاس ایک دوسرے کی "حکایات الاولیا" والی کتابیں ہیں۔ یہ کتابیں پردہ اسرار میں ہی رہیں تو اچھا ہے، حجابات اٹھ گئے تو سالکین کے لیے جلوے سنبھالنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ اس پر بھی بحث ہو رہی ہے کہ جو بھی ہوا اس کی منظوری کابینہ نے، اس کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اور سب سے بڑھ کر وزیر اعظم نے دی تھی تو پھر کارروائی ترین کے خلاف ہی کیوں ہو رہی ہے۔ پھر باقی شریک کار حضرات کو بجائے سزا ملنے کے ترقی مل گئی۔ اب اسے کیا انصاف کا نام دیا جائے۔ ایسے میں معطل شدہ سیکرٹری خوراک نسیم صادق کا بیان سامنے آیا ہے کہ آٹا مافیا کو بچایا جا رہا ہے، یعنی حکومت کو بچایا جا رہا ہے؟

ترین صاحب محتاط ہیں لیکن کتاب سے نمونے کا ایک ورق انہوں نے افادۂ عام کے لیے "پبلک" کر ہی دیا۔ فرمایا، 2013ء کے الیکشن میں کوئی دھاندلی نہیں ہوئی تھی، ہوئی بھی تو دو چار سیٹوں پر ہوئی ہو گی۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے زیادہ تر امیدوار تو پانچویں یا چھٹے نمبر پر آئے، دھاندلی کا کیا سوال اٹھتا تھا۔ فرمایا کہ یہ سب خان صاحب کو بھی پتہ تھا۔ پھر بھی خان صاحب نے دھرنے کے نام پر ایک تاریخی مہم چلائی جس کی بنیاد ہی اس "شکایت" پر تھی کہ 2013ء کے الیکشن کو چوری کر لیا گیا۔ پھر یہ دھرنا لاک ڈائون میں بدلا، بات تب بھی نہ بنی تو غیبی طاقتیں پانامہ لیک لے آئیں اور بگڑی ہوئی یوں سنور گئی۔ گویا خان صاحب کو سب پتہ تھا، پھر بھی چار مہینے صبح شام الیکشن چوری ہوئے کا راگ سناتے اور اس کے بعد صادق اور امین حکومت قائم ہو گئی۔

ترین صاحب اگر صلح نہ ہوئی تو اگلا ورق کون سا کھولیں گے! کیا پتہ لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ 2018ء کے الیکشن کا خلاصہ بھی ایک سطر میں بتا دیں۔ کہ کتنی سیٹوں پر نتیجہ بدلا گیا۔ اس بارے میں با خبر حضرات کا اختلاف ہے، کچھ کا کہنا ہے کہ 70کا ہیر پھیرکلیئر ہوا، باقی کا اصرار ہے کہ 80سیٹوں کے نتائج میں تبدیلی لائی گئی۔ ترین صاحب ایک ہی فقرے میں "قول فیصل" سنا کر ریکارڈ درست کر سکتے ہیں۔ کیا پتہ کر دیں؟

خبر ہے کہ چین سے جو ماسک آئے تھے، وہ "ایلیٹ کلاس" کے گھروں میں پہنچ گئے، یعنی پی ٹی آئی والے فیض یاب ہوئے اور خبر یہ بھی ہے کہ چین کے جو "کٹس" ٹیسٹ کرنے کے لیے دی تھیں وہ ایک مشہور عالم خیراتی ہسپتال پہنچ گئیں۔

ایک معاصر نے رپورٹ دی ہے کہ دو ہفتے پہلے جن اشیا پر یوٹیلٹی سٹورز کے لیے 50 ارب روپے کی سب سڈی دی گئی تھی، وہ اشیا سٹورز پر نایاب ہیں۔ ذرا توجہ سے دیکھیے، خبر میں کم یاب نہیں لکھا ہے بلکہ نایاب لکھا ہے۔ پھر وہ سب سڈی کہاں گئی؟ یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ سٹورز پر ملنے والے آٹے میں پلاسٹک کی ملاوٹ کی گئی ہے۔ کیا پتہ، خفیہ سائنسی تحقیقات سے پتہ چلا ہو کہ پلاسٹک ملا آٹا کھانے سے کرونا وائرس کا علاج ہو جاتا ہے۔ واللہ اعلم۔ ایک اور رپورٹ ہے کہ سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے گندم کے ڈیلر گندم میں صاف ستھری مٹی کی وافر تعداد سرعام ملاتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ توجہ فرمائیے، پائے گئے کا لفظ لکھا ہے، پکڑے گئے کا نہیں۔ معاملہ صاف ہے۔ اوپر صاف ستھرے بیٹھے ہوں تو صفائی ستھرائی نیچے یعنی گراس روٹ تک سرایت کر جاتی ہے۔ اسی لیے تو کہتے ہیں صاف چلی، شفاف چلی۔