وزیر اعظم نے بھاشا ڈیم کا افتتاح کیا۔ خوب دھوم دھام سے خبریں چھپیں اور ٹی وی پر فوٹیج چلی۔ یہ ڈیم کا تیسرا یا چوتھا افتتاح ہے۔ ایک تو سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کیا اور زمین حاصل کر کے باقاعدہ بنیاد رکھی۔ پھر ان کی حکومت ختم ہوئی تو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے افتتاح کیا اور اب پھر ہوا۔ البتہ واپڈا والوں نے اس افتتاح کی وضاحت ازراہ سنگ بنیاد یوں کی کہ اس پر ایک عبارت لکھوا دی یہ کہ وزیر اعظم آج کام کا معائنہ کریں گے۔ یعنی افتتاح تعمیر کا نہیں، معائنے کا ہوا۔ سنگ ہائے بنیاد کی تواریخ کبھی لکھی گئی تو یہ اس کا منفرد باب ہو گا کہ معائنے کا بھی پتھر نصب کیا گیا۔ وزیر اعظم نے خوش کن اعلان کیا کہ اب پاکستان تیل درآمد نہیں کرے گا یعنی امپورٹ بل کم ہو گا اور معیشت جو پہلے ہی کامیابی کے زینے ٹاپ رہی ہے، مزید بلندی پر جائے گی۔ اس کارنامے پر وزیر اعظم اور قوم کو مبارکباد۔ وزیر اعظم بعد ازاں لاہور تشریف لائے اور نواز دور کے ایک اور منصوبے کا افتتاح کیا اور اس پر اپنے نام کی تختی لگائی۔ نواز دور کی تختی اڑا دی گئی ع
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
خیال تھا کہ وہ مینار پاکستان اور شاہی قلعے کا بھی افتتاح کریں گے لیکن غالباً دیگر مصروفیات کے ہجوم نے فرصت نہ دی۔
سنگ ہائے بنیادہی نہیں، کارہائے حکومت کی تواریخ میں بھی کمال کی تاریخ سازی ہوئی ہے۔ تازہ بیان ایک عمراز حد رسیدہ وزیر فخر امام کا ملاحظہ فرمائیے، بیان کیا ہے، استفسار ہے جو اسمبلی میں کیا گیا ہے کہ پہلی بار 60لاکھ ٹن گندم آئی مگر وہ گئی کہاں؟ انہوں نے ایوان سے پوچھا، وزیر اعظم سے پوچھتے تو غضب ہی ہو جاتا۔ حکومت کو نہیں پتا کہ گندم کہاں گئی، تیل ریکارڈ مہنگا کرنے کا فیصلہ کس مافیا نے وزیر اعظم سے منظور کرایا اور دوائیں کس نے مہنگی کر ڈالیں؟ فخر امام کو پتہ ہے گندم کس نے غائب کی، بتائیں گے نہیں، وزارت بھی تو بچانی ہے۔ سوال اٹھا دیا، اتنا ہی بہت ہے۔ مزے کی ایک رپورٹ اسی ہفتے اخبار میں یوں آئی کہ سینٹ کی کمیٹی کو بتایا گیا کہ پختونخوا میں جو بلین ٹری سونامی آیا تھا، اس کی گنتی پوری کرنے کے لیے جڑی بوٹیوں کو بھی شامل کر لیا گیا۔ یعنی کوتاہی ہوئی، یہ کہ گھاس پھونس کو شامل نہیں کیا ورنہ بلین ٹری سونامی ٹریلین سونامی بن جاتا۔ پنجاب میں بھی شجرکاری کا میگا منصوبہ بنا اور خبر یہ شائع ہوئی کہ دس ارب پودے تو لگے نہیں لیکن حکومت نے کہانی یہ بنا دی کہ پودے لگائے تھے، ٹڈی دل آیا اور کھا گیا۔ ہمارا ذمہ اوس پوس، اربوں کا میگا کرپشن سکینڈل یوں ٹڈی دل کے کھاتے میں چلا گیا۔ سڑکوں کی تعمیر کی مخالف حکومت نے ایک ہی سڑک پختونخوا میں سوات ایکسپریس وے کے نام سے بنائی، اس میں چالیس مقامات پر کھڈے پڑ گئے اور اب وہ بے کار محض ہو گئی ہے۔ اس کا الزام بھی ٹڈی دل پر لگا دیں، جے جگدیش ہرے?!
سب رنگ ڈائجسٹ ہارر فکشن جریدے کے طور پر نکلا تھا۔ ڈرائونی کہانیاں، جن بھوت اور کالے علم کی داستانوں کی اتنی مانگ تھی، اس کالم اسی جریدے کی حیرت انگیز کامیابی سے ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہارر میگزینز کی لائن لگ گئی لیکن لگ بھگ دو سال کے بعد سب رنگ نے رنگ بدلا اور ادبی کہانیوں کے لیے وقف ہو گیا۔ ایک حصہ اردو ادب کے عطر کہلاتا تھا، دوسرا حصہ عالمی ادب سے انتخاب پر مشتمل تھا۔ اردو ادب کی بساط تو بہرحال محدود تھی، وہ کیا اور اس کا عطر کیا۔ منشی پریم چند، قرۃ العین حیدر، سید رفیق حسین، ابوالفضل صدیقی اور عصمت چغتائی افسانے میں، محمد خالد اختر مزاح میں اور پھر قرۃ العین حیدر کے ساڑھے تین ناول پھر آدھا آگ کادریا۔ مان لیجئے، ایک ناول عبداللہ حسین کا، ایک شمس الرحمن فاروقی کا اور ایک شوکت صدیقی کا، کل ملا کے ایک چھوٹی سی کہانی اور ہاں، فکاہی ادب میں کرشن چندر کو بھی شامل کر لیجئے۔ اردو ادب کے عطر کے نام پر بہر حال قدرے قابل سکالر یا بہتر افسانے منتخب کیے جاتے۔ عالمی کہانیاں زیادہ معیاری ہوتی تھیں، قدیم لہجے تو روس اور فرانس کے ادیب، جدید لیجئے تو امریکہ اسے امریکائے عظیم لکھا جاتا کثیر الاشاعتی کا یہ ہوا کہ لوگ جان گئے کہ ادب یہ ہے، وہ نہیں جو نقوش، فنون، اوراق اور سیپ وغیرہ میں چھپتا ہے چنانچہ ان جریدوں کا اشاعت چند ہزار سے سکڑ کر چند سو رہ گئی۔ سب رنگ کی مقبولیت، بہر حال یہ سچ ہے کہ ان عالمی کہانیوں کی وجہ سے نہیں تھی بھلے سے وہ بہت ہی معیاری اور شاہکار کیوں نہ ہوں۔ یہ مقبولیت دو سلسلہ وار بلکہ اصل میں ایک ہی سلسلہ وار کہانی کی وجہ سے تھی۔ یہ کہانی فنِ جادو گری کی مثال بے مثال تھی۔ مصنف نے دراصل ایک ہی قسط لکھی، پھر ہر بار ردوبدل کر کے اسے اگلی قسط کا روپ دے دیا جاتا۔ گندم کے دانوں کا ڈھیر لگا ہے، چڑیا آئی، دانہ منہ میں لیا اور اڑ گئی، پھر آئی، دانہ اٹھایا اور اڑ گئی۔ کہانی آگے کیوں نہیں بڑھتی؟ ارے میاں ڈھیر ختم ہو گا تو آگے چلیں گے۔ بہر حال، قارئین بے پناہ شدت سے اس کا انتظار کرتے۔ عالمی ادب کا یہ دور کمال تھا، 1990ء کے بعد جمود آیا اور اب زوال ہے۔ فنی کمال، خیال کی عمدگی اور انفرادیت اور جذبے کی شدت، کہا جا سکتا ہے کہ سب رنگ نے کر دیا۔ گزشتہ دنوں بڑے اشاعتی ادارے جہلم بک کارنر نے اس انتخاب کو مجموعے کی شکل دینے کا فیصلہ کیا اور پہلی جلد شائع کر ڈالی۔ حسن رضاگوندل اس ادارے کے معمار ہیں اور ان کی مرتب کی گئی "سب رنگ کہانیاں " کی پہلی جلد دیکھ کر اندازہ ہوا کہ حسن انتخاب کے ساتھ بہت دلفریب ہے۔ آرٹ پیپر پر چھاپنے کی وجہ سے گراں قیمت بھی ہو گئی ہے۔ آدھا ایڈیشن عام اور سستے سفید کاغذ پر چھاپ دیا جاتا تو کم مایہ خریدار بھی قطار میں کھڑے ہو جاتے۔