کوئٹہ میں پی ڈی ایم کا جلسہ کتنا بڑا تھا؟ اگر لکھا جائے کہ فقید المثال تھا تو ہمیں بھی کوئی خطاب ملے گا۔ چنانچہ یہ تو ہم بالکل نہیں لکھیں گے کہ جلسہ فقید المثال تھا۔ ہم محب وطن ہیں، چنانچہ ببانگ دہل کہتے ہیں کہ یہ کوئٹہ کی تاریخ کا سب سے چھوٹا جلسہ تھا۔ بلکہ جلسہ تھا ہی کہاں، لیڈروں نے گھاس کے میدان میں گھاس کی پتیوں سے خطاب کیا۔ ہاں یہ تشبیہ بہت خوب ہے اور پوری طرح محب الوطنانہ ہے۔ حب وطن کا تقاضا اس سے بڑھ کر اور کیا پورا ہو گا کہ عوام کو گھاس کی پتیوں جیسا سمجھا جائے، جب چاہے جتنی چاہے کچل دو۔ یہ الگ بات ہے کہ گھاس کی جڑیں بہت سخت جان ہوتی ہیں۔ کم بخت۔
بلوچستان نے جلسہ روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی جیسا کہ پنجاب حکومت نے کی تھی اور ایڑی سے چوٹی تک پسینہ بہا دیا تھا۔ بلوچستان حکومت نے پسینہ بہانا فضول سمجھا۔ ہاں ڈرانے دھمکانے میں زور لگا دیا۔ دہشت گردی ہو جائے گی، کورونا پھیل جائے گا۔ وغیرہ۔۔ نیز موبائل فون سروس اور ڈبل سواری کی شامت الگ آئی۔ یہ الگ بات ہے کہ سخت سکیورٹی کے باوجود اور ڈبل سواری پر پابندی کے باوجود اور موبائل فون کی بندش کے باوجود ادھر ہزار گنجی میں دھماکہ ہو گیا۔ کئی قیمتیں جانیں نذر ہوئیں۔ بہت سے گھائل اور معذور ہوئے۔
بہرحال بلوچستان حکومت نے باوجود اس کے کہ وہ "باپ"کی حکومت ہے، بہتر جمہوری رویے کا مظاہرہ کیا لیکن اس کی اس فراخدلی پر ترجمانوں کی فوج بے ظفر موج نے پانی پھیرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ادھر جلسے کی کوریج شروع ہوئی، ادھر پہلے ترجمان نے چینلزپر چہرہ نمائی کی پھر دوسرے نے پھر تیسرے نے۔ اور ہوا کیا یہ کہ صحافت اور میڈیا چونکہ آزاد ہے اس لئے اس نے سکرین پر اور دوسرے فریم میں ترجمان جس کی آواز ان میوٹ تھی۔ چنانچہ لوگوں نے ایک ہی آواز سنی اور وہ تھی ترجمانوں کی۔ اب یہ مت کہیے کہ اپوزیشن کی آواز خاموش کر دی گئی۔ خاموش نہیں میوٹ کی گئی۔ خاموش اور میوٹ میں فرق ہوتا ہے یوں سمجھیے کہ پہلے فریم میں سائلنٹ مووی چل رہی تھی۔
ترجمانوں اور وزیروں کے بیانات سب کے سب ایک ہی ٹکسال میں ڈھلنے لگتے ہیں۔ خلاصہ ان سب کا یہ ہوتا ہے کہ یہ سب بھارت کے یار ہیں۔ دیس کے عدم وفادار ہیں۔ آلہ کارانِ اغیار ہیں۔ ایک صاحب نے فون کیا کہ تشویش کی بات ہو گئی۔ پوچھا کیا ہوا خیر تو ہے فرمایا دیس میں غداروں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔ انہیں انتباہ کیا کہ اس تشویش کا سرعام اظہار مت کرنا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس بار مردم شماری کے بجائے غدار شماری کرنی پڑ جائے اور جو نتابج سامنے آ گئے تو پھر کیا ہو گا؟ پاکستان میں "محب وطن، کے نام سے ایک الگ ضلع بسانا پڑ جائے گا۔ خواہی مخواہی خرچا پڑے گا۔
ایک اشتہاری کی تقریر چینلز پر چلانا ممنوع کیا ہوئی، یو ٹیوب والوں کی چاندی ہو گئی۔ اشتہار خوب ملیں گے۔ جی بھر کے کمائی ہو گی۔ یوٹیوب والے تو چاہیں گے کہ سیکنڈ الطاف پر یہ پابندی برقرار رہے۔ محب وطن لوگوں کی مہربانی سے یہ پتہ چل جاتا ہے کہ اس نے کہا کیا تھا۔ دوسرے تو ظاہر ہے یہ فقرے ادا نہیں کر سکتے۔ محب وطن حضرات ازراہ تنقید یہ فقرے کوٹ کر دیتے ہیں اور یوں ایک محب وطن قسم کی ہلچل اٹھا ڈالتے ہیں۔ ایک چیز ہوتی ہے ٹابو، اسے زیادہ تر ٹیپو بھی پڑھتے ہیں اس قسم کا ایک ٹیپوچھ سات دہائیوں سے چل رہا تھا۔ اس نے اسے توڑ دیا۔ وہ بات جو بہو بیٹیوں جیسی قوم زبان پر تو کیا، خیال میں لائے بھی ڈرتی تھی، اب بے باک گفتگو کا موضوع ہے۔ واللہ یہ کیسی تبدیلی آ گئی۔ اہل نظر روشنی ڈالیں، اس کی سیاست ختم ہوئی ہے یا ٹیپو ٹوٹ گیا ہے؟ بہو بیٹیوں کی جھجک ٹوٹ گئی، اچھا نہیں ہوا!
محبان وطن کی ایک دہائی تو برحق ہے۔ دہائی سے مراد عشرہ نہیں۔ واویلا ہے۔ کہتے ہیں جو زبان سندھ بلوچستان پختوخواہ والے بولا کرتے تھے، پنجاب بھی اب وہی زبان بول رہا ہے۔ برسبیل تذکرہ، پھر تو یوں کہیے تو قومی اتفاق رائے ہو گیا۔ ہاں آپ دکھی ہیں تو سوچنے کی زحمت فرمائیے، ایسی نوبت آئی ہی کیوں؟ ہے سوچنے کی بات اسے بار بار سوچے!کہیں ہمارے محلے کے ایک مجذوب کا کہا تو نہیں پورا ہونے والا؟ ایک دن درخت کو گھوتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان کی تاریخ کا ایک باب پورا ہوا، اب نیا باب لکھا جائے گا جو پہلے سے اتنا ہی مختلف ہو گا جتنا جنوبی کوریا شمالی سے۔ دیکھیے، مجذوب بھی کیا شے ہوتے یں۔ بھلا درخت میں جنوبی کوریا کہاں سے آ گئے؟
دو روز پہلے کراچی پیکیج کا چالیسواں تھا۔ وہی گیارہ سو ارب روپے کا تاریخی اور تاریخ ساز پیکیج:جو چیرا تو اک ٹیڈی پیسہ نہ نکلا(نوٹ۔ ٹیڈی پیسے سے ناواقف حضرات تشریع کے لئے میری عمر کے بزرگوں سے رجوع کریں ) بہرحال اسی روز وزیر اعظم نے خطاب بھی فرمایا اور انتباہ کیا کہ اگر چور واپس آئے تو قوم کو سڑکوں پر لے آئوں گا۔ نصیب دشمناں، چور واپس آ رہے ہیں؟ یہ کس نے بتایا؟ کہاں سے سنا اور قوم کو سڑکوں پر لانے والی بات کسے سنا رہے ہیں؟ کسے ڈرا رہے ہیں؟ بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی۔ نہیں، کچھ کچھ سمجھ آ رہی ہے شاید!