ایک عمران پر موقوف ہے گھر کی رونق، روز ہنگامہ لگا رہتا ہے۔ ملک میں بہت کچھ ہو رہا ہے، فاقہ کشوں کی خودکشیاں اور بچوں کا اجتماعی قتل حد سے بڑھ گیا ہے۔ زیست مشکل تھی، اب ناممکن بھی ہو گئی۔ مہیب خطرات بڑھتے جاتے ہیں لیکن لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کہہ کر توجہ دلانے والا فیض ہے نہ فراز۔ صورتحال ایک فلمی گانے کے بول جیسی ہوگئی کہ "تیرے چہرے سے نظر نہیں ہٹتی، نظارے ہم کیا دیکھیں۔
ہر چند کہ عمران خان کا لانگ مارچ ٹھس بھی تھا اور پھس بھی۔ چونکہ اس نے اسلام آباد پہنچ کر انقلاب برپا کرنا تھا یا پنڈی کا رخ کرکے کچھ اور کرنا تھا اس لئے تمام توجہ اسی طرف تھی اور اسی طرف ہے کہ اب یہ ایک اور معاملہ ہو گیا۔ یہ کہ وزیرآباد میں عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہو گیا۔ اب ملک بھر میں ہزاروں لاکھوں نہیں، کروڑوں تجزیہ نگار سراغ رسانی میں مصروف ہیں کہ حملہ کس نے کیا، کیوں کیا، پیچھے کون ہے؟ عمران خان نے بتا دیا کہ پیچھے کون ہے اس لئے بحث ختم ہو جانی چاہیے کیونکہ یہ تو بہت پہلے 2014ءہی کے زمانے سے طے پا چکا ہے کہ کسی بھی مسئلہ پر جو بات عمران خان کہہ دیں، وہی قول فیصل ہے اور اب جبکہ عمران خان فیصلہ دے چکے ہیں کہ حملہ تین افراد نے کرایا تو بحث کی ضرورت رہی نہ گنجائش۔ ایک وزیراعظم، ایک وزیر داخلہ اور ایک قومی ادارے کا اعلیٰ افسر۔ بات ختم۔
_________
حملہ پنجاب کے شہر وزیرآباد میں ہوا۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت بذریعہ پرویز الٰہی ہے۔ وزیرآباد سے گجرات تک کا علاقہ براہ راست پرویز الٰہی کے زیرنگیں ہے۔ پنجاب میں اے ایس آئی سے لے کر ڈی آئی جی تک کے تمام پولیس افسر "اپنے" بندے ہیں جس پر اپنا نہ ہونے کا ذرا برابر بھی شائبہ ہوا، اپنی سیٹ پر نہیں رہا۔ ایسے میں عمران خان پر حملہ ہوا تو ذمہ دار کون ہوا؟ ظاہر ہے کہ وفاقی حکومت، اسی کو استعفیٰ دینا چاہیے، اسی کا احتساب ہونا چاہیے۔ احتساب کیا، زن بچے سمیت کو لہو میں پیل دینا چاہیے۔
________
حملہ آور موقع پر پکڑا گیا۔ خود پی ٹی آئی کے کارکن نے پکڑا، پولیس کی تحویل میں دیا۔ پولیس سے مراد پنجاب پولیس ہے۔ اسلام آباد والی نہیں۔ اسکی تحویل میں ملزم نے اعترافی بیان دیا۔ یہ کہ عمران خان چونکہ اذان کے وقت سپیکر پر گیت لگا دیتا ہے، اس لئے اسے مارنے کا فیصلہ کیا۔ اعترافی بیان ٹی وی پر چلا۔ پی ٹی آئی کو پسند نہیں آیا۔ پسند نہ آنے کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی لیکن یہ کہا گیا کہ بیان سازش ہے۔ وزیراعلیٰ نے نوٹس لیا، تھانے کا سارا عملہ معطل کردیا۔ نوٹس لینے کے چند گھنٹے بعد ملزم کا دوسرا اعترافی بیان ٹی وی پر چل رہا تھا۔ وزیراعلیٰ نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ اچھا کیا۔ لے لیتے تو اب تک تیسرا اعترافی بیان بھی ٹی وی پر چل رہا ہوتا۔ پی ٹی آئی نے کہا، سازش ہے۔ یقیناً لمحہ فکریہ ہے۔ پنجاب اور پنجاب کے تھانوں پر پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ پھر بھی سازش ہو گئی۔ کوئی بہت ہی زور آور سازش ہے۔
_______
پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے کہا عمران خان کو دو گولیاں لگیں، ایک ٹانگ پر، دوسری ران پر۔ پھر کچھ مزید پی ٹی آئی رہنماؤں نے اس اطلاع میں ترمیم و اضافہ کیا اور بتایا کہ چار گولیاں لگی ہیں۔
شوکت خانم ہسپتال میں عمران کا معائنہ ہوا۔ ڈاکٹر فیصل نے بتایا، گولی نہیں، گولی کے ٹکڑے اور ذرّے لگے ہیں۔ یعنی گولی پہلے کہیں اور لگی، ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی، اس کے ٹکڑے لگے، ساتھ میں ذرّے بھی اڑے، وہ بھی لگے۔
خان صاحب قسمت والے ہیں۔ گولیاں یا گولیوں کے لگنے کے باوجود اپنے قدموں سے چلتے پھرتے رہے، بنا لڑکھڑائے، بنا لباس پر خون کے کسی دھبے کے، بنا چہرے پر کسی اضطراب اور پریشانی کے۔
_______
بہرحال، حملہ تو ہوا اور حملہ بھی قاتلانہ۔ سبھی نے مذمت کی۔ حکمران اتحاد کی ہر جماعت اور ہر جماعت کے ہر رہنما نے کی۔
پرانی بات یاد آ گئی، بلکہ باتیں یاد آ گئیں۔ بے نظیر پر حملہ ہوا، وہ شہید ہو گئیں۔ ملک کی ہر جماعت کے ہر لیڈر نے مذمت کی، سوائے پی ٹی آئی کے۔ عمران خان نے بتایا کہ وہ اپنی موت کی ذمہ دار خود تھیں۔ یہ بھی قول فیصل تھا۔ جو اپنی موت کی ذمہ دار خود ہو، اس کے قتل پر کسی اور کی مذمت حماقت کے سوا کچھ نہیں، اور پی ٹی آئی نے یہ حماقت نہیں کی۔
احسن اقبال کو گولی لگی، پی ٹی آئی نے کہا یہ عوامی جذبات ہیں۔ ایک رہنما، وہی نچ پنجابن نچ والے، ٹی وی پر فرما رہے تھے، یہ عوامی جذبات کا مظاہرہ ہے، جمہوریت میں عوامی جذبات پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ معلوم ہوا، رائے دہی کا حق گولی مار کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ابصار عالم کو گولی لگی، حامد میر کو گولی لگی۔ لوگوں نے مذمت کی، پی ٹی آئی نے کہا، ڈرامہ ہے۔ یہ بھی "قول فیصل" تھا۔ کلثوم نواز کینسر میں مبتلا ہو گئیں، مرض بڑھ گیا۔ پی ٹی آئی نے فرمایا سب ڈرامہ ہے، اس نام کا ہسپتال پورے لندن بلکہ پورے برطانیہ میں نہیں جس میں یہ داخل بتائی گئی ہیں اور یہ ہسپتال نہیں، بیوٹی پارلر ہے۔ محترمہ اللہ کو پیاری ہو گئیں، اعلان فرمایا یہ دیکھو، پارسل میں بند ہو کر آ رہی ہے۔
_______
کئی جگہ مظاہرے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑا مظاہرہ پشاور میں ہوا، ستر اسّی افراد کا ایک گروہ ایک اہم دفاعی ادارے کے باہر مخالفانہ نعرے لگا رہا تھا، ملک ٹوٹ جائے گا کی دھمکی دے رہا تھا۔ کم و بیش اتنے ہی افراد نے فیصل آباد میں رانا ثناءاللہ کے گھر پر حملہ کر دیا، بہرحال، باقی ملک بھر میں سکون اور امن رہا۔ البتہ پختونخواہ کے ایک وزیر نے بندوق لہرائی اور کہا، رانا ثنا اللہ میں اسلام آباد آ رہا ہوں، حساب لینے۔
گجرات سے لانگ مارچ بھی اسلام آباد حساب لینے چل پڑا ہے یا چل پڑنے کو ہے، باقی سب خیرت ہے۔