سڑک کے کنارے مجمع لگا تھا۔ ایک فنکار نے ٹوکری اوندھی کر کے رکھی ہوئی تھی اور آواز لگا رہا تھا، مہربان، قدردان، آئیے، دیکھیے فٹ بال کے برابر انڈا۔ وہ سب سے اس نادر تماشے کے عوض پیشگی رقم لے رہا تھا اور لوگ حسب توفیق پانچ، دس روپے کے نوٹ اسے دے رہے تھے۔ ٹوکری اٹھنے کی منتظر تھی نگاہ۔ ویسے سب کو پتہ تھا کہ ٹوکری کے اندر سے کیا برآمد ہونے والا ہے۔ بوڑھوں کو پتہ تھا۔ عورتوں کو پتہ تھا۔ جوانوں کو پتہ تھا حتیٰ کہ بچوں کو بھی پتہ تھا کیونکہ ایسے تماشے وہ پہلے بھی دیکھ چکے تھے پھر بھی نگاہ شوق منتظر تھی۔ آخر فنکار کو مطلوبہ رقم مل گئی۔ اس نے ٹوکری ہٹائی اور نعرہ لگایا، یہ دیکھو، فٹ بال کے برابر انڈا۔ ٹوکری کے نیچے ایک فٹ بال رکھا تھا اور اس کے برابر میں مرغی کا ایک انڈا۔ لوگوں نے کھسیانا ہونے میں دیر نہیں لگائی کہ پہلے ھی جانتے تھے۔ تفریح کا ایک انداز یہ بھی ہے۔ بہرحال وہ اور تماشائی تھے۔ کراچی والوں کا حال تو یہ ہو گیا ہے کہ وہ کھسیانا ہونے کی سکت بھی کھو چکے ہیں۔ مذکورہ مشاہدے کا تعلق کراچی کے حالات حاضرہ سے پتہ نہیں ہے کہ نہیں، بہرحال اس بار ٹوکری کے نیچے سے فٹ بال نہیں۔ ہاتھی کے برابر انڈہ برآمد کرنے کا پیکیج دیا گیا ہے۔ گیارہ سو ارب روپے کا پیکیج۔ کچھ لوگ حیرت ظاہر کر رہے ہیں کہ اتنی بڑی رقم؟ حضرت حیرت کا کیا مقام، یہ تو حکومت کی کسر نفسی ہے، اظہار فخر ہے، انکسار ہے، خاکساری ہے ورنہ وہ چاہتے تو گیارہ ہزار ارب بلکہ گیارہ ہزار کھرب کے پیکیج کا بھی اعلان کر سکتے تھے، پھر آپ کیا کر لیتے۔
اربوں کھربوں کے اعداد و شمار کے باب میں حکومتیں ویسے ہی حدِ قیاس سے بھی زیادہ فیاض ہے۔ نواز شریف نے کتنی کرپشن کی؟ اس کے جواب میں آپ کو ہزاروں ارب سے ہزاروں کھرب کے اعداد و شمار سننے کو ملیں گے۔ جوش فیاضی میں شاہ محمود قریشی نے ایک بار منہ میں آئی بات سرعام فرما دی تھی اور کہا تھا کہ نواز شریف نے تیس(30) ہزار ٹریلین کی کرپشن کی تھی۔ ایک ٹریلین میں دس کھرب ہوتے ہیں۔
فٹ بال کے برابر انڈا سال گزشتہ میں دکھایا گیا تھا۔ مارچ میں حکومت نے کراچی کے لیے ایک سو ساٹھ ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ وہ رقم کہاں گئی؟ کسی کو معلوم نہیں، بہرحال کراچی تک تو ایک روپیہ بلکہ ایک دھیلا بھی نہیں پہنچا۔ جہاں سے یہ رقم روانہ ہوئی تھی، وہاں بھی موجود ہے یا نہیں۔ اس کا کھوج لگانا پٹے گا۔ راجستھانی زبان میں ایسے موقعوں پر کہا جاتا ہے:
اِدھر رہیو نہیں
وہاں پہنچو نہیں
بیچو میں ڈاکو پڑو
مطلب راستے سے ہی لاپتہ!
کراچی اس سال بارشوں میں ایسا ڈوبا کہ سب مرژن آف جاپان submersion of japanنامی فلم کو بھی پیچھے چھوڑ گیا۔ بہرحال اسلام آباد میں کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ ہوتی بھی کیسے اسلام آباد سے اتنی دور جو ہے۔ ہاں جب کلفٹن ڈیفنس وغیرہ کے حکومتی لوگوں کے علاقے ڈوبے تو فوراً خبر ہوئی۔ آخر اسلام آباد سے اتنے نزدیک جو تھے، اطلاع فوراً کیوں نہ ہوتی؟ یہ حلقہ بہت ہی مقدس اور لازم الاحترام ہے۔ کراچی میں سارے کے سارے حکومتی لوگ اسی حلقے میں سمٹے ہوئے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے۔ کون کون سے لوگ اس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں:صدر پاکستان عارف علوی، گورنر سندھ، وزیر علی زیدی، وزیر فیصل واوڈا، خواتین ایم این ایز نصرت واحد، غزالہ سیفی، سدرہ عمران، اریبہ محترمہ، رابعہ اقلیتی ایم این اے ڈاکٹر سنجے، صدر پی ٹی آئی کراچی خرم بشیر زماں، وفاقی وزیر کے مشیر محمود، ثمر علی خاں۔ چاندنی سمٹ کے بدن میرا بن گئی۔ اس مقدس حلقے کو حلقہ این اے 247کہتے ہیں اور اس حلقے سے باہر پی ٹی آئی کے حامیوں کو تلاش کرنا خود پی ٹی آئی کے بس میں بھی نہیں۔ اس کے باوجود کراچی سے پی ٹی آئی کو 14قومی سیٹیں مل گئیں جو زندہ کرامت نہیں تو اور کیا ہے۔
یہ گیارہ سو ارب کا پیکیج، وفاقی وزیر اسد عمر کے بقول، سکڑ کر اب 400ارب کا رہ گیا ہے۔ ان کا بتانا ہے کہ چار سو ارب سندھ حکومت سے مانگے جائیں گے اور باقی تین سو کدھر سے آئیں گے، فی الحال فیصلہ نہیں ہوا بات چیت البتہ جاری ہے۔ گویا ہاتھی کے برابر انڈا گینڈے کے برابر رہ گیاہے۔
وفاق کے پاس چار سو ارب کدھر سے آئیں گے۔ پتہ تو فی الحال اس کا بھی نہیں۔ شاید بجٹ کا سارا ترقیاتی فنڈ ادھر ڈال دیا جائے پھر باقی ملک میں منصوبے کیسے مکمل ہوں گے؟ درآمدات میں جبری کمی کر کے ملکی صنعت کا بھٹہ تو پہلے ہی بٹھایا جا چکا ہے کہ ضروری خام مال ہی دستیاب نہیں۔ اب خیر سے برآمدات میں بھی تاریخی کمی، مبلغ لگ بھگ20فیصد کی واقع ہو گئی ہے۔ درآمدات میں کمی کا مطلب معاشی جمود اور زوال ہے جو پہلے ہی منفی کی لکیر سے نیچے لڑھکنے میں مصروف ہے، اللہ بھلا کرے۔ مہنگائی فی مہینہ نہیں، فی ہفتہ نہیں، فی یوم کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ عوام کی چیخیں، اسلام آباد والوں کے لیے فردوس ہیں۔ سالم بھنا ہرن کھاتے ہوئے یہ بیک گرائونڈ موسیقی کمال کے ایپی ٹائزر Appetizerکا کام کرتی ہے۔ واللہ ایسے خوش نصیب حکمران دوسرے ملکوں کی قسمت میں کہاں!٭٭٭٭سپریم کورٹ بار نے کہا ہے کہ نیب سیاسی مخالفین کو گھسیٹنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جناب جو شے جس مقصد کے لئے بنائی جاتی ہے، اس سے وہی کام لیا جاتا ہے۔ نیب کو قبلہ پرویز مشرف نے بنایا تھا اور جس مقصد کے لئے بنایا تھا سب ریکارڈ پر ہے۔