Tuesday, 25 March 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Abdullah Tariq Sohail
    4. Hukumat Murshidati Media Se Khush

    Hukumat Murshidati Media Se Khush

    خلافِ ارادہ کئی ناغے کالم کے ہو گئے۔ وجہ "دل ناکردہ کار کی سول نافرمانی" تھی۔ ماحولیات نے میرے صحت کے ماحول ہی بدل دئیے۔ اب تو دل پر جوانوں کا بھی قابو نہیں رہا ہے، ہم تو پھر بھی بڈھے ہو گئے۔ خیر، مضمون حکومت سے شکوے شکایت کا ہے، یہ کہ وہ خود بن رہی ہے یا لوگوں کو بنا رہی ہے، یہ دکھاوا کر رہی ہے کہ وہ مرشداتی پارٹی کی سوشل میڈیا ٹیم سے بہت ناراض ہے۔ بالکل دھوکہ۔ اصل میں تو وہ مرشداتی میڈیا سے بہت خوش ہے۔ دل میں لڈو?ں کی پھوٹ، چہرے پر غصے کی چھوٹ__ دھوکا ہی دھوکا۔

    قصہ کیا ہے بھائی__ ہاں تو قصہ یہ ہے بھائی کہ حکومت عوام کو کچھ بتانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ یہ کہ مرشداتی پارٹی دہشت گردوں کی مدد گار اور سہولت کار ہے، ان کی حامی اور اتحادی ہے۔ آتنگ وادیوں کی شبھ چنتک، ان کی سہایتا منتک ہے اور ان کی لبھادائیک ہے اور ان کی انتم سہاتیک ہے۔ عوام میں سے کچھ نے حکومت کی بات مان لی، کچھ نے نہیں مانی، کچھ بیچ میں رہے، یعنی متذبذب رہے۔ متذبذب کو انگریزی میں "ان سرٹن" کہتے ہیں۔

    لیکن پھر ہوا کیا۔ تین دن بلوچستان پر اور کے پی پر بہت بھاری گزرے۔

    دہشت گردوں نے ٹرین اغوا کر لی، ایک قافلے پر حملہ کیا۔ بہت لوگ شہید ہوئے۔ کے پی میں دو دن کے دوران دہشت گردوں نے بارہ 14 حملے کئے۔

    مرشداتی میڈیا کی بن آئی، ایسا جشن منایا کہ 1970ء کی دہائی میں کیا شاہ ایران نے پہلوی جشن منایا ہوگا۔ مرشداتی میڈیا نے بھنگڑے ڈالے، لڈیاں ڈالیں، اس پر حال طاری ہوگیا جس سے کمال کی دھمال برآمد ہوئی۔ پاک فوج پر گالیوں اور ملّاحیوں کی بوچھاڑ ہوئی، دہشت گردوں کی عظمت کو سلام کئے گئے۔ مرشداتی میڈیا کو دیکھنے والے لاکھوں میں نہیں، دسیوں لاکھ میں ہیں۔ دسیوں لاکھ کو انگریزی میں "ملین" کہتے ہیں۔ ادھر سے بھارتی میڈیا مرشداتی میڈیا کا ہم آواز، ہم نوا، ہم سخن، ہم درد بن کر ابھرا۔ دونوں میڈیا کا لسانی لہجہ تھوڑا الگ لیکن نفس متن ایک ہی تھا۔ نفس متن کو انگ ریزی میں کنٹینٹ CONTENT کہتے ہیں:

    "لہجہ" ھتدی ہے تو کیا، لے تو "انصافی" ہے مری۔

    بھارتی میڈیا کو سننے والے بھی بہت ہیں۔ جو بھی انصافی میڈیا کو سنتا ہے وہ بھارتی میڈیا بھی سنتا ہے اور دونوں بار سر دھنستا ہے۔ بولنے والوں کے ناموں کا فرق ہوتا ہے۔ پاکستان کیلئے شبھ کامنائیں ایک ہی جیسی ہوتی ہیں۔ بس نام سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عمران ریاض ہے اور وہ اوم راج ہے، باقی بولی بھی وہی ٹھولی بھی وہی، پاکستان کے نقصان پر ٹھیکہ بھی وہی، ٹھمکا بھی وہی۔

    بس تو بھائی یہ قصہ تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو حکومت کی بات نہیں مان رہے تھے، وہ بھی مان گئے۔ جنہیں تذبذب اور تامل تھا، وہ بھی تسلی پذیر ہو گئے اور بس تب سے حکومت کی خوشی چھپائے نہیں چھپتی، رہا اس کا غصہ تو بھائی وہ جھوٹ ہے، فریب ہے، دکھاوا ہے، بن رہی ہے اور بنا رہی ہے۔

    ***

    خبر تو یہ بھی چھپی ہے کہ سلمان بیرسٹر اور خان گوہر بندی خانے میں جا کر مہاگرو سے ملے اور یہ بنتی کی کہ مہاراج کرپا کیجئے، سوشل میڈیا کو ہمارے بس میں دیجئے۔ لوگ اس میڈیا کے کارن ہمارے پورے جتھے کو آتنک وادی ٹولہ مان رہے ہیں۔ یہ بات ہمارے بھوشیہ کیلئے بہت "خطر ناک" ہوگی۔ یہ سوشل میڈیا ہمارے "نیانترم" سے باہر ہوگیا۔ جنتا کہتی ہے یہ بھارت کی بولی بولتا ہے۔

    خبر یہ بھی چھپی کہ مہاگرو نے انکار کر دیا۔ چپ کی چدّر اوڑھ لی۔

    سلمان بیرسٹر اور خاں گوہر کو سپتھا نہیں ملی، اسپھل پلٹے۔ مہاگرو نے انکار ہی کرنا تھا۔ اب یہی سوشل میڈیا ہی تو ان کی اکیلی سمپتی رہ گئی، اس سے بھی ہاتھ دھو لیں۔ ویسے بھی کون اپنے دین دھرم کو چھوڑتا ہے۔

    ***

    جے یو آئی کے حافظ حسین احمد بھی چل بسے۔ اناللہ واّنا الیہ راجعون۔

    گردوں کے مریض تھے اور کچھ عرصہ سے اسی وجہ سے خاموش اور غیر متحرک تھے ورنہ ایک زمانے میں سیاست کی رونق تھے۔ میڈیا پر ان کے دلچسپ اور ذومعنی بیانات کو خاص جگہ ملتی تھی۔ ان کا انداز بیان بہت مقبول تھا۔ مولانا فضل الرحمن کے قابل اور لائق ترین ساتھیوں میں سے ایک تھے۔ سنا ہے بیچ میں کچھ ناراضگی ہوگئی جو بعدازاں دور بھی ہوگئی۔ نیک، متقی اور ایماندار آدمی تھے۔ امید ہے خدا تعالیٰ کے ہاں بہت اچھی جگہ پائیں گے۔

    1999ء کے اوائل کی بات ہے۔ ان کا ایک بیان آیا۔ میں نے بطور نیوز ایڈیٹر اس کی محتاط ایڈیٹنگ کی اور سنگل سرخی کے ساتھ اسے آخری صفحے پر چھاپا۔ بیان خطرناک تھااور اس میں بتایا گیا تھا کہ چند ماہ بعد یعنی دس اکتوبر کو نواز شریف کا تختہ اُلٹ دیا جائے گا۔ تاریخ طے ہو چکی ہے۔

    لوگوں نے اس بیان کو بہت سنجیدہ اس لئے نہیں لیا کہ حکومت کے دن گنے جا چکے قسم کے بیانات ہر دور میں دئیے جاتے ہیں لیکن اس بیان کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں تاریخ دی گئی تھی اور پھر ویسا ہی ہوا، ایک دن کے فرق کے ساتھ اور اس فرق کی وجہ بھی تھی۔

    یقینا نواز شریف کو بھی اس تاریخ کا علم تھا چنانچہ انہوں نے ایک دن پہلے ہی وار کر دیا اور اس شخص کو برطرف کر دیا جس نے بعدازاں امریکہ کے "یوڈل" ہونے کا اعزاز حاصل کرنا تھا لیکن دوسری طرف موعودہ یوڈل کی تیاری بھی مکمل تھی۔ اس نے برطرفی ماننے کے بجائے نواز شریف ہی کا تختہ الٹ دیا۔ ایک تاریخ کا فرق یوں پڑا۔

    حافظ حسین احمد کو خدا جنت نصیب کرے۔ ان کے انداز بیان کی "کاپی" کرنے کی کوشش کچھ اور لوگوں نے بھی کی لیکن ناکام رہے۔ بالخصوص نالہ لئی کے ٹلّی مہاراج نے تو ان کی بہت ہی بھونڈی نقل کی۔ ٹلّی مہاراج خیر سے زندہ ہیں لیکن ارے بھائی، یہ بھی کوئی زندگی ہے جو وہ جی رہے ہیں۔ اس طرح کی زندگی گزارنے والے کیلئے "لونگ ڈیڈ" کی اصطلاح ہے اور کتنی ہی فلمیں بھی اس "لائف سٹائل" پر بن چکی ہیں۔ یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے۔

    ***

    حکومت نے رمضان سے چند دن پہلے چینی کے نرخ میں 20 روپے اضافہ کیا اور اب عید سے دس دن پہلے 29 روپے کا اضافہ کر دیا۔ 29 اور 20,49 بنے، 50 پورے کر دئیے ہوتے 49 کا کیا حساب ہوا۔

    اب حساب کا سوال یہ ہے کہ عید سے ایک دو دن پہلے چینی کی قیمت میں کتنا اضافہ ہوگا؟

    اضافہ تو ہوگا، سوال یہ ہے کہ کتنا؟