Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Inqilabi Ke Roznamche Se Aik Waraq

Inqilabi Ke Roznamche Se Aik Waraq

تحریک انصاف نے سو فیصد سچ کہا کہ مریم نواز شریف کی بریت کا دن "یوم سیاہ" ہے، یوم سیاہ یعنی یوم تیرہ و تاریک۔ میں نے جب اچانک ٹی وی پر بریکنگ نیوز سنی کہ مریم کو بری کر دیا گیا ہے تو ایک دم سے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ کمرے میں بھی اندھیرا ہو گیا یہاں تک کہ ٹی وی سکرین بھی تاریک ہو گئی۔ پتہ چلا کہ بجلی چلی گئی ہے، یعنی وہ بھی سوگ منا رہی تھی۔ پورے ایک گھنٹے کے بعد آئی۔ چلئے یوم سیاہ نہ سہی، گھنٹہ سیاہ ہی سہی۔

آنکھوں میں تاریکی تو اگلے دن بھی چھائی جب ٹی وی پر وڈیو دیکھی کہ میرا خاں مجسٹریٹ زیبا کی عدالت میں جا کر ان کی خالی کرسی سے معذرت طلب کر رہا تھا۔ کہاں وہ دن جب میرا سر فخر سے بلند ہو گیا تھا، ہاں، اس دن، اس لمحے جب میرے خان نے جلسہ عام میں للکار کر کہا تھا کہ زیبا سن لو، تمہیں چھوڑوں گا نہیں، تمہیں دیکھ لوں گا، تمہارے خلاف ایکشن لوں گا اور کہاں یہ دن کہ میرا خان خالی کرسی سے معذرت طلب کر رہا تھا۔ ان کے ساتھ بابر اعوان بھی تھے، وہی بابر اعوان جنہوں نے کہا تھا کہ خان کی للکار میں کچھ بھی غلط نہیں تھا۔ انہوں نے خان کو سمجھایا نہیں کہ جب کچھ بھی غلط نہیں ہے تو معذرت کیوں۔

افسوس، یہ نظام بھی کتنا ظالم ہے، میرے نہ ڈرنے نہ جھکنے والے خان کو خالی کرسی کے سامنے سبک سر کر دیا۔ پھر عدالت کے ریڈر کو گواہ بنانے کی بھی کیا ضرورت تھی؟ شاید خاں کو معلوم نہیں تھا کہ مجسٹریٹ صاحبہ چھٹی پر ہیں۔ لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بابر اعوان کو پتہ نہ ہو۔ انہیں یقیناً پتہ ہو گا بلکہ پتہ تھا، پھر وہ خاں کو خالی کرسی کے روبرو کیوں لائے۔ سچ ہے، یہ نظام ہے ہی بہت ظالم پوری پی ٹی آئی کی طرح میں بھی سوگ میں ہوں۔ یہ کیا کہہ دیا گیا ہے کہ مریم کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔ کوئی شاہد ہے نہ شہادت، صرف رائے ہے اور رائے پر فیصلہ نہیں دیا جاتا۔ کیوں جی؟ آپ کو رائے کا احترام نہیں ہے؟

آپ کو میرے خان پر بھی اعتبار نہیں رہا؟ جب میرے خاں نے کہہ دیا کہ وہ مجرم ہے تو بس وہ مجرم ہے، ثبوت شواہد و شاہد کی ضرورت ہی کہاں رہ جاتی ہے؟

آہ، کہاں وہ دن کہ میرا خاں جس کی طرف انگلی کر دیتا تھا اس سے اگلے روز وہ جیل کے اندر ہوتا تھا یا نااہل ہو جاتا تھا اور کہاں یہ دن کہ خاں دہائی دیتا رہ جاتا ہے اور کوئی انگشت زدہ آ کر وزیر خزانہ بن جاتا ہے اور کوئی بری ہو جاتا ہے۔ یوم سیاہ نہیں یہ تو دور سیاہ کا دور دورہ لگتا ہے دور سوگ، دوریاس، دوراندیش!

پی ٹی آئی کے رہنما فواد چودھری نے جو ٹویٹ جاری کیا ہے، مجھے تو وہ الہامی لگتا ہے یعنی پتھر پر لکیر کی طرح سچ۔

فرمایا ہے، یہ طے ہے کہ اگر پاکستان کے عوام اس بار عمران کی کال پر باہر نہ نکلے تو اگلے 75 سال شریف اور زرداری کے بچوں کی حکومت رہے گی۔ کروڑوں لوگ بدمعاش اشرافیہ کی غلامی کریں گے۔ واحد حل سڑکوں پر آنا ہے۔

کیا کیجئے عوام جلسوں میں تو آتے ہیں لیکن سڑکوں پر نہیں۔ پچھلے پانچ چھ مہینوں میں خاں نے کم از کم دس بار بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ بار عوام کو سڑکوں پر آنے کی کال دی ہے لیکن وہ آتے ہی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ پانچ سات سو لاہور کے لبرٹی اور اسلام آباد کے ایف نائن پارکوں میں جمع ہو جاتے ہیں، کچھ گاتے، کچھ ناچتے اور جھومتے ہیں اور گھنٹہ بھر کے بعد، دو چار برگر پیزے اڑانے اور کولڈ ڈرنک لنڈھانے کے بعد گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ سڑکوں پر تو آتے ہی نہیں تو پھر انقلاب کیسے آئے گا۔ جہالت کی حد ہے، رانا ثناءاﷲ سے ڈرتے ہیں حالانکہ رانا ثناءلاہور میں کہاں ہوتا ہے، اس کا ڈنڈا تو صرف اسلام آباد میں چلتا ہے۔ یہاں لاہور میں اپنا یار پرویز الٰہی ہے، پھر بھی نہیں نکلتے۔

بہرحال فواد چودھری کی ٹویٹ سراسر مایوسی پر مبنی نہیں اس میں امید کی روشنی ہے۔ کہا ہے کہ خاں پھر آ جائے گا، خاں پھر سے وزیراعظم بنے گا۔

75 سال کی اس تیز رفتار زندگی والے دور میں اوقات ہی کیا ہے، یوں پلک جھپکتے گزر جائیں گے، پھر آئے گا عمران، ہماری شان ہماری جان۔ بس سال 2097 آ لینے دو، سب کو دیکھ لیں گے۔

سہ پہر کو پارٹی آفس پہنچا وہاں بات ہو رہی تھی کہ ہمارے خاں کا ایک اور حکم نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ یہ کہ چیف کی تقرری میں انہیں بھی شامل کیا جائے اور طے ہوا ہے کہ تقرری وزیراعظم کا اختیار ہے وہی کریں گے۔

مجھے پارٹی کے مقامی رہنماؤں نے ایک اور تشویش ناک اطلاع دی کہ وزیراعظم کا تو بس نام ہی ہے، اصل اختیار نواز شریف استعمال کر رہے ہیں لندن میں بیٹھ کر۔ دراصل وہی تقرری کریں گے وزیراعظم شہباز شریف تو محض اعلان ہی کریں گے۔

ایک بار پھر میری آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔ نواز شریف اس سے پہلے تین چار بار چیف لگا چکے ہیں اور اب ایک اور لگانے والے ہیں۔ اور ایک ہمارا خاں ہے کہ اس کو ایک تقرری کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔ چیف کی تقرری تو ایک طرف رہی، ہمارے خاں نے جب ایک ماتحت ادارے کا ڈی جی لگانے کی کوشش کی تو حکومت ہی ختم کر دی گئی۔ افسوس کتنا ظالم نظام ہے۔ فرط غم سے میں تو بس بے ہوش ہی ہو گیا۔ مجھے نہیں پتہ، آفس والے مجھے کیا سنگھا کر پھر سے ہوش میں لائے۔ شام کو لڑکھڑاتے قدموں سے گھر پہنچا۔ بچوں نے اونچی آواز سے انقلابی ترانہ: کنے کنے جانا اے بلو دے گھر لگایا ہوا تھا اور اس پر انقلابی رقص کر رہے تھے۔ انہیں ڈانٹا کہ آواز آہستہ کرو۔ کمرے میں جا کر ٹی وی لگایا تو اس پر ٹکر چل رہا تھا کہ ڈالر مزید سستا، روپیہ مسلسل چھٹے روز بھی تگڑا، ایک بار پھر آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ ٹی وی آف کر دیا، پھر کہیں جا کر اندھیرا چھٹا۔

دس بجے کے بعد ایک انقلابی دوست تشریف لائے حوصلہ ہوا کہ کوئی اچھی خبر سنائیں گے۔ کچھ شغل میلے کا سودا بھی لائے تھے۔ میں نے پوچھا، یار، یہ بتاؤ، ملک سری لنکا کب بنے گا۔ اس نے کچھ دیر سوچا اور کہا، یار آپس کی بات ہے کسی اور سے مت کرنا۔ ملک کے سری لنکا بننے کے آثار ابھی تک پیدا ہوتے نظر نہیں آتے۔ یہ سنتے ہی ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ لیکن اس بار بجلی نہیں گئی تھی۔