قارئین! رمضان المبارک کی اضافی مباکباد قبول فرمائیے، اضافی یعنی بقدر پچاس فیصد۔ یعنی یہ کہ جو شے پہلے ہی بے حساب مہنگی ہو کر سو روپے کی مل رہی تھی، وہ رمضان سے ایک دن پہلے ڈیڑھ سو روپے کی ہو گئی۔ چنانچہ اس حساب سے مبارکباد میں بھی پچاس فیصد اضافہ کرنا ضروری ہے۔ ادھر یوٹیلیٹی سٹورز پر خالی پڑے شیلف الگ سے ریلیف کے ڈنکے بجا رہے ہیں اور کیا کہیے بس اتنا کہ ؎
کوئی پوچھے تو بی حکومت سے
زندہ رہنے کی کوئی صورت ہے؟
کورونا سے بچ نکلیں گے، انشاء اللہ، البتہ ریلیف کی چھما چھم برستی بارش سے بچنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔
دنیا فانی ہے اور اس کی ہر شے بھی۔ حتیٰ کہ پرشکوہ دربار بھی۔ بڑے بڑے دربار فنا کے حضور حاضر ہو گئے ؎
بوم نوبت می زند درطارم افراسیاب
پردہ داری می کنددرقصر قیصر عنکبوت
سدا بہار ہے۔ کم از کم مسلمان بادشاہوں اور شہنشاہوں کے ہاں کی رونق، دربار کو تو فنا ہرگز نہیں۔ لوگ ان دنوں مولانا کے رقت انگیز خطابات پر سر دھنسنے کی مشقت کر رہے ہیں لیکن یہ مولانا کب نہیں تھے؟ ہمیشہ سے تھے، ہمیشہ رہیں گے۔ گنبد افراسیاب مٹ جائے گا، قصر متبصر کو مکڑی کے جالے ڈھانپ لیں گے، مولانا کے لئے نئے درباروں کی کمی نہیں ہو گی۔
فرمایا، ظل الٰہی اس بائیس کروڑ کی قوم میں آپ اکیلے ایماندار ہیں باقی ساری قوم کا کیا کہیے، جھوٹ میں غرق ہے۔ کسی نے اعتراض کیا اکیلے کیوں؟ آپ بھی تو اعلیٰ پائے کے ایماندار اور صادق ہیں۔ لیکن اعتراض غلط اس لئے ہے کہ حضرت مولانا تو کائناتی مستقلUniversal Constant ٹھہرے۔ وہ خودسند ہیں، انہیں سند کی ضرورت نہیں، وہ تو دوسروں کو سند جاری کرتے ہیں۔ بائیس کروڑ میں ایک اکیلا ہی ایماندار بچا، سو اسے سند دے دی۔ اس لئے مزید فرمایا کہ گناہوں کا ملبہ کس کے گلے میں ڈالوں!رسمی طور پر پوچھا ورنہ ضرورت کہاں تھی۔ نواز شریف کے گلے میں ڈال دیا ہوتا۔ چلیے پھر کبھی سہی۔
مزید فرمایا، ظل الٰہی، یہ قوم کی بچیاں کون نچوا رہا ہے۔ ظاہر ہے یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات نہیں۔ نواز شریف نچوا رہا ہے اور اسی نے نچوایا۔ یاد ہو گا، 2014ء کا سارا سال ریڈ زون میں یہ نغمہ گونجتا رہا ? عنواز شریف دے جلسے وچ اج میرا نچنے نوں دل کرداپھر یہ نغمہ اتنا مقبول ہوا کہ کراچی، لاہور، اسلام آباد اور دوسرے بڑے شہروں کے پوش یعنی ایلیٹ کلاس یعنی دیانتدار اور صادق امین طبقے کی آبادیوں کا ملّی ترانہ بن گیا۔ تو حضور، نچوانے کا ملبہ بھی نواز شریف کے گلے ہی میں ڈالنا ہو گا۔
مولانا نے فرمایا، ظل الٰہی کو اجڑا چمن ملا، ظل الٰہی اسے کہاں تک سنواریں، آہ بے چارے ظل الٰہی۔ اجڑا چمن کی اصطلاح بہت عرصے سے زیر استعمال ہے۔ بھارتی فلموں سے پاکستان میں بھی آئی اور رائج ہو گئی۔ تشریح البتہ تشنۂ تکمیل تھی۔ للہ مولانا نے یہ فریضہ بھی انجام دے دیا۔ تو تشریح، جامع اور شافی تشریح یوں ہوئی کہ جب ڈالر سو روپے کا ہو، بجلی فی یونٹ آٹھ روپے کی مل رہی ہو، ترقی کی شرح چھ فیصد کی طرف بڑھ رہی ہو، عالمی ادارے یہ پیش گوئی کر رہے ہوں کہ اگلے دو عشروں میں "چمن" دنیا کی بیس بڑی معیشتوں میں شامل ہونے والا ہے، بے روزگاری کم ہو رہی ہو، خط غربت سے نیچے رہنے والے رفتہ رفتہ خط غربت سے اوپر آ رہے ہوں، سڑکیں، شاہراہیں، موٹر ویز کا جال بچھ رہا ہو، ہر ضلع میں ہسپتال بن رہے ہوں، مہنگائی میں ٹھہرائو آ رہا ہو تو ایسی صورت حال کو "اجڑا چمن" کہتے ہیں۔ اور جب ڈالر ایک سو ساٹھ سے اوپر نکل جائے، پچاس روپے کا پٹرول سو روپے، 8روپے والا یونٹ 28روپے کا ہو جائے، آٹے چینی میں ڈیڑھ سو ارب کی"واردات ہو، دوائیں چار گنا مہنگی ہو جائیں، ہسپتالوں میں دوائیں ملنا بند اور شرح ترقی صفر ہو جائے، کروڑوں بے روزگار ہو جائیں، ڈینگی اور پولیو کی نشاۃ ثانیہ ہو اور کورونا کی کٹس کہیں اور پہنچ جائیں تو اسے "چمن سنوارنا" کہتے ہیں۔ بے چارے ظل الٰہی نے اتنا زیادہ تو سنوار دیا، اب کہاں تک سنواریں۔
آئندہ کی سیاست یہ ہے کہ نواز شریف یا زرداری کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کی کوئی صورت نہیں۔ یہ دو کیا، کوئی بھی "منتخب" نہیں آئے گا کہ اب "دوسرا" ہی دستور العمل ٹھہرا۔ لیکن فرض کیجیے، یعنی فرض محال کر لیجیے کہ دو چار برسوں بعد زرداری صاحب"وزیر اعظم" بن جاتے ہیں تو جناب کا خطاب کچھ یوں ہو گا۔ اے اللہ، پورے ملک میں زرداری ہی اکیلا ایماندار بچا ہے۔ اسے اجڑا چمن ملا ہے، بے چارہ کہاں تک سنوارے گا?
ریمارکس آئے ہیں کہ کفالت پروگرام نے لوگوں کو بھکاری بنا دیا ہے۔ سونامی نے کتنے ہی رخ پھیر دیے۔ جو رقم خاموشی سے گھروں کے اندر پہنچ جاتی تھی، اب اسے لینے کے لئے سر بازار کھڑاہونا پڑتا ہے۔ اشرافیہ بہ نفس نفیس یہ رقم تقسیم کرتی ہے، اشرافیہ کو تفریح کا ایک اور راستہ مل گیا ع
تقریب کچھ تو بہر"تفاریح" چاہیے۔
قوم کو بہرحال ایک بار پھر رمضان المبارک کی اضافی مبارکباد۔ اضافہ بقدر پچاس فیصد!