گملے کی مٹی کھانے سے سر پر /15 زخم آ سکتے ہیں، پورے جسم پر نیل پڑ جاتے ہیں، جگہ جگہ کٹ لگ جاتے ہیں، جسم سوج جاتا ہے، حالت نازک ہو جاتی ہے۔ اندرونی اعضا بھی پھٹ جاتے ہیں۔ بازو فریکچر ہوجاتے ہیں۔ جی ہاں، یہ انکشاف گزشتہ روزراولپنڈی میں ہوا جہاں ایک گھریلو ملازمہ کو جس کی عمر14 سال تھی، ہسپتال لایا گیا۔ اس کا جسم زخموں سے اتنا چور تھا کہ ڈاکٹر بھی ڈر گئے، یہ بچی ایک سول جج عاصم کے گھر ملازم تھی اور اس کا نام رضوانہ ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس پر شدید تشدد کیا گیا ہے۔ اور یہ تشدد پچھلے چھ مہینوں سے ہو رہا تھا۔ بچی نے ہوش میں آنے پر بتایا کہ اسے ڈنڈوں اور راڈوں سے ہرروز مارا جاتا تھا۔ عاصم نامی جج نے بتایا کہ دراصل رضوانہ نے گملے سے مٹی کھا لی تھی جس کے نتیجے میں یہ سب ہوا۔ پولیس نے بچی کو اس جج کے گھرملازم کرانے والے "ملزم" کو گرفتارکرلیا ہے۔ جس نے "گملے" کی مٹی کھلائی، اس کے خلاف ایف آئی آر تو کٹ گئی ہے لیکن پولیس میں اسے گرفتار کرنے کی جرات نہیں۔ ہو بھی نہیں سکتی۔
پاکستان میں اشرافیہ کا کوئی آدمی کبھی گرفتار نہیں ہوتا، بھلے وہ کمرہ عدالت میں جج کو ماں بہن کی گالی بھی دے ڈالے۔ کل ہی ہم نے دیکھا، دو درجن "اشرافی" وکیل ایک کمرہ عدالت میں گھس گئے اور ماں بہن کی گالیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ اشرافیہ کا مشہور زمانہ "سرغنہ" اپنی کرسی پر بیٹھ کر دندنا دندنا کر مسکراتا رہا۔ ظاہرہے، یہ اشرافیہ وکیل کرسی پر بیٹھے منصف سے بڑھ کر "اشرافیہ" ہوں گے اور ان کا سرغنہ تو ٹھہرا "اشرف الاشراف" جو9مئی کرکے بھی ٹھاٹ سے بیٹھ کر ریاست کا ٹھٹھا اڑا رہا ہے۔
***
پاکستان میں گھریلوملازم بچے بچیوں پرتشدد بلکہ ان کا قتل عام کوئی خبرنہیں ہے۔ ایک واقعہ، ایک دن کی خبر۔ پچھلے دس سال میں سینکڑوں بچے او ر بچیاں اشرافیہ مالکوں کے ہاتھوں قتل اورہزاروں گھائل ہو چکی ہیں۔ آج تک ایک مجرم کوبھی سزا نہیں ہوئی۔ کچھ ہی عرصہ پہلے لاہورمیں عبد کے روزبھی بھوکے رہنے والے دوکم عمرملازم بھائیوں نے مالکوں کی "اشرافیہ" فرج سے روٹی چرا کے کھا لی، مالکوں نے زنجیروں سے باندھ کر کئی گھنٹے تک انہیں پیٹا، ایک مرگیا، دوسرا ہسپتال پہنچ گیا، اس حالت میں کہ بولنے تو کیا، دیکھنے اور سننے کے قابل بھی نہ رہا۔
ملزم عورتیں پکڑی گئیں، اگلے ہی دن باعزت رہا کردی گئیں۔ یہ گھریلو ملازم عموماً 8 ہزارمہینے پررکھے جاتے ہیں۔ مالکان کی آمدن کروڑوں میں ہوتی ہے اور وہ یہ 8 ہزارکبھی ادا نہیں کرتے، جسم و جان کاخراج وصول کر لیتے ہیں۔ سکول کے زمانے میں قدیم ہند میں شودروں پر برہمنوں کے مظالم پرمبنی ایک مضمون پڑھاتھا اور روح کانپ گئی تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ پاکستانی اشرافیہ قدیم ہند کے برہمنوں سے ہزار گنا بڑھ کر برہمن ہے اور پاکستان "ارذالیہ" قدیم ہند کے شودروں سے کئی ہزار گنا بڑھ کر مظلوم۔ ہے، اس مذکورہ سول جج کی "ستّے" خیراں رہیں گی۔
***
خبر ہے کہ ملزمہ فرح گوگی نے توشہ خاں کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کا عند یہ دیا ہے۔ فرح گوگی کا نیٹ ورک ساڑھے تین سال پنجاب پر راج کرتا رہا ہے اور اس میں عثمان بزدار، جمیل گجر اور غلام فرید مانیکا (مرشدانی کا سابق مرشد) کا نام وغیرہ شامل تھے۔ اس نے اس د ورا ن تقرریوں تباد لوں قبضہ گیریوں کے ذریعے کئی ارب روپے کمائے۔ اور ٹپی ٹپائی پارٹی کی ایک سابقہ عہدیدار خاتون عظمیٰ کاردا ر کا کہنا ہے کہ فرح گوگی گینگ جتنا کماتا تھا، اس کا 70 فیصد بنی گالہ بھجواتا تھا۔
دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ 70 فیصد کا عدد مبالغہ آمیز ہے، بنی گالہ کی پتی 30 فیصد تھی۔ وعدہ معاف گوا ہ بننے کی خبر در ست ہے تو فرح گوگی کو مبارک ہو، اربوں روپے کی نیک کمائیاں اس کی حق حلال کی کمائی مان لی گئی۔ مجموعی طور پر یہ ایک بڑی خبر ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں توشہ خاں کو زک پہنچنے کا صدمہ ہے۔ کوئی کینیڈا میں تشریف فرما مولا نا بڑے جمیل خاں کو خبر کرے کہ ا ن کے مرشد، مامور من اللہ (بقول مولا نا کے) اور صاحب امر بالمعروف کے خلاف ا یک اور بلکہ اب تک کی خطرناک ترین سازش کی شروعات ہو چکی ہے۔ وہ جلد پاکستان پہنچیں اور تعویذ دھاگے سے ا س کا اپائے کریں۔ وہ توشہ خاں کے مرید خاص ہیں اور فرح گوگی سے بھی ا ن کی گہری عقیدت مندی رہی ہے۔ اپنے ا ن دونوں مرشدوں کے درمیان صلح صفائی کیلئے ان سے بڑھ کر اور کون کردار ادا کر سکتا ہے۔
شاید وہ نہ آئیں۔ سنا ہے کہ ان دنوں کینیڈا میں قصر ہائے جمیل کی تعمیر میں مصروف ہیں اور جم جمناسٹک کا شوق بھی شروع کر دیا ہے۔ تبلیغ کا دھندا ان دنوں ٹھنڈا پڑا ہے۔ بہرحال توشہ خاں کے توشہ خا نے سے صدا اٹھ رہی ہے کہ"چھیتی بوھڑیں وے جمیلا نئیں تے میں، "
***
وشہ خا ں کے نالہء فریاد میں اب پہلا سا اثر نہیں رہا۔ کتنے مہینے ہو گئے، "جوانوں" سے فریاد کے سے ا نداز میں جذبہ شہادت پیدا کرنے کی کوشش کرتے آ رہے ہیں۔ حالیہ قوم سے یو ٹیوبی خطابات میں بھی بار بار کہا، نکلو میری راہ میں اور جانیں قربان کر دو، اللہ تمہیں شہادت کی موت عطا فرمائے گا۔ لیکن جواں ہیں کہ شہید ہونے کے بجا ئے اشتہاری ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں، کل بھی نئے اشتہاریوں کا ایک پوسٹر جاری ہوا ہے۔
انقلابات ہیں زمانے کے۔ اور تو اور، عمرا ن پر دو سو بار جان قربان کرنے وا لے مر اد سعید بھی ایسے لاپتہ ہوئے کہ نشان تک نہیں ملا۔ ویسے میرا خیال ہے، کوئی اور ان کی اس صدائے دردناک پر کان دھرے نہ دھرے، عشاق اعتزاز اور کھوسہ تو ضرور توجہ د یں گے۔ جسم و جان بوڑھے ہو گئے تو کیا ہوا، جذبہ نوجوا ں ہے۔ توشہ خاں ان سے براہ راست اپیل کریں۔