بھی نہیں ملے گی، پھر بھی جنگل کو نکل گیا اس لئے کہ اور کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔ وحشت دل کا علاج بیابان کی دہشت سے، یہ علاج بالمثل نہیں، علاج بے مثل ہے ؎
لیلیٰ لیلیٰ پکاروں میں بن میں
موری لیلیٰ بسی مورے من میں
وزیر اعظم نے بھی آخری چارہ کار نوجوانوں کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ فرمایا ہے۔ جنگل نوجوانوں کا مستقبل ہیں۔ یعنی نوجوانوں کی تقدیر اب اب بیابان نور وی ہے۔ جنگل جائیں، اپنا مستقبل وہاں تلاش کریں۔ نوکری، روزگار، عزت اچھے مستقبل کی لیلیٰ کو من میں بسائیں اور دشت میں جا کر لیلیٰ لیلیٰ کا ورد کریں۔ وحشت دل کی چارہ گری اب یہی رہ گئی۔ وزیر اعظم کی بہرحال اب جنگلاتی مستقبل کی اپنی تشریح ہے۔ جنگل لگیں گے تو شہد کی مکھیاں آئیں گی، چھتے بنائیں گی، شہد جمع کریں گی۔ نوجوان جنگل جائیں گے، چھتے اتاریں گے، شہداکٹھا کریں اور گلی گلی صدا لگائیں گے۔ شہد لے لو، شہد لے لو۔ ایک کلو ہزار روپے سے بھی اوپر ہے۔ ہر نوجوان روز کا ایک کلو شہد بھی بیچ لے تو مہینے کے تیس ہزار ہو گئے۔ سرکاری نوکری کی ضرورت ہی کہاں رہی۔ شاید یہی بات وزیر اعظم کے دل میں چند دن پہلے تھی جب انہوں نے نوجوانوں کو یہ بیش قیمت مشورہ دیا تھا کہ سرکاری نوکری کا خیال دل سے نکال دیں۔ تب یہ بات ادھوری تھی، اب پوری ہو گئی۔ ضمنی طور پر یہ بھی پتہ چلا کہ حکومت مستقبل میں کار حکومت ملازموں کے بغیر ہی چلائے گی۔ اور یہ کوئی ناقابل فہم بات بھی نہیں ہے۔ جیسے نظام حکومت چلایا جا رہا ہے، اس کے لئے کسی ملازم کی ضرورت ہی کہاں ہے اور انہی جنگلوں کے یقین پر نجی شعبے کو بھی تالے لگ رہے ہیں۔
وزیر اعظم نے یہ کایا کلپ کر دینے والے مشورے جس تقریب میں دیے، وہاں ایک نوجوان نے انہیں نمل ڈیم کا وعدہ یاد دلایا۔ اس نے کوئی طول طویل فقرہ نہیں بولا۔ بس اپنی جگہ کھڑے ہو کر صرف "نمل ڈیم" کا نام لیا۔ نتیجہ یہ کہ اگلے ہی لمحے وہ تقریب بدر تھا۔ اپوزیشن لیڈر نے اس پر وزیر اعظم کو لتاڑا ہے اور انہیں کم ظرفی کا طعنہ دیا ہے۔ اصل میں تو کم ظرفی طالب علم نے کی۔ کیسے؟ ایسے کہ کسی کو اس کا وعدہ یاد دلانا اسے شرمندہ کرنے کے مترادف ہے اور کسی کو شرمندہ کرنا کوئی شریفانہ حرکت نہیں۔ یعنی طالب علم کا رویہ غیر شریفانہ تھا، یوں اس کا کم ظرف ہونا بھی ثابت ہو گیا۔
اور وعدہ اگر ڈیم کا ہو تو شرمندگی کا پہلا دوگونہ ہو جاتا ہے۔ کم ظرف طالب علم نے تو نمل ڈیم کا نام لیا لیکن اس سے ازخود ہی دھیان بھاشا ڈیم کی طرف نکل گیا جس کے لئے برصغیر کی تاریخ کی سب سے بڑی اشتہاری مہم خاں صاحب نے سابق چیف جسٹس سے مل کر چلائی تھی اور لگتا تھا کہ ڈیم آج بنا کہ کل بنا۔ پھر ڈیڑھ سال سے بھی اوپر وقت گزر گیا۔ ڈیم کی مہم، ڈیم کا چندہ، ڈیم کو وقت سے پہلے بنانے کے اعلانات ایسے غائب ہوئے کہ کیا کوئی غائب ہوا ہو گا۔
غائب ہونے سے یاد آیا، نوکریوں کا سونامی آنے کی خوشخبری سنانے والے وزیر فیصل واوڈا صاحب عرصے سے غائب ہیں۔ کہاں ہر روز ٹی وی پر رونق لگایا کرتے تھے، کہاں کسی ٹی وی پروگرام میں کوئی ان کا ذکر تک نہیں کرتا۔ سوشل میڈیا پر ان کی لندن والی بے شمار جائیدادوں، فلیٹوں وغیرہ کا ذکر البتہ اکثر ہوتا رہتا ہے۔ سنا ہے ساری کی ساری جائز اور حلال منافعے سے بنائی گئی ہیں۔ پچھلے دنوں انکشاف ہوا کہ ان کی دہری شہریت ہے جسے انہوں نے کاغذات نامزدگی میں چھپایا۔ اب انکشاف مزید یہ ہوا کہ ان کی تعلیمی اسناد بھی وہ نہیں جو انہوں نے بتائیں۔ ٹیکس ادائیگی اور نکاح نامے کے معاملات بھی، ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ۔ کی تصویر ہیں۔ چنداں تعجب نہیں، تحریک انصاف پر خدا کا خصوصی فضل ہے کہ کم و بیش اس میں سارے کے سارے ایسے ہی ہیرے جواہرات بھرے ہوئے ہیں۔
شیخ رشید نے یقین کے ساتھ دعویٰ کیا ہے کہ نواز شریف پی ٹی آئی کی حکومت گرانے کے منصوبے میں حصہ نہیں لیں گے۔ یعنی منصوبہ ہے لیکن نواز شریف اس میں مددگار نہیں بنیں گے ع
اگ لگتی ہے کہیں پر تو دھواں اٹھتا ہے
شیخ جی کے اس یقین کی وجہ کوئی کشف نہیں بلکہ وہ خبریں ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ "دوست احباب" کے ایلچی لندن گئے تھے لیکن نواز شریف نے انکار کر دیا۔ یہ دوست احباب کون ہیں۔ شیخ جی سے زیادہ کون جانتا ہے اور وہ کیا تجویز لے کر گئے تھے، یہ بھی ان سے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا اور یہ دوست احباب اپنے ہی انتخاب پر کیوں پچھتا رہے ہیں، اس کا جواب بھی شیخ جی سے اچھا کوئی نہیں دے سکتا۔ نواز شریف کی پالیسی کا خلاصہ یہ ہے کہ جولائے ہیں، وہ خود ہی نمٹیں۔ میرے ساتھ تو جو کرنا تھا کر لیا، اب مجھ سے کوئی توقع کیوں رکھی جا رہی ہے۔
عالمی مانیٹرنگ ادارے نے پاکستان میں پولیو کی واپسی پر تشویش ظاہر کی ہے۔ یہ پولیو کی "نشاۃ ثانیہ" ہے چاہے تو مبارکباد دے ڈالیں، چاہے تو تشویش دکھا دیں۔ ویسے خیال آتا ہے کہ کہیں کسی نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ ؎
میرا خاں آئے گا
پولیو کو واپس لائے گا
اور لوگوں نے پولیو کی جگہ ڈالر سن لیا یعنی اشتباہ ہو گیا؟