Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. 92 News/
    3. Musbat Isharion Ka Dard

    Musbat Isharion Ka Dard

    خبر دیکھیے، پاور ڈویژن نے حکومت کو بجلی کے نرخ چھ روپے چھ پیسے فی یونٹ کے حساب سے بڑھانے کی تجویز دی ہے۔ نیک تجویز ہے اور نیک تجویز پر حکومت بجلی کی رفتار سے عمل کرتی ہے اور کیوں نہ کرے، وہ تو آئی ہی نیک تجویزوں پر عمل کرنے کے لئے ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ فائنل سمری میں حکومت یہ کہہ سکتی ہے کہ یہ نرخ بہت زیادہ ہیں، ہم نے خدام کو ریلیف دینے کے لئے فیصلہ کیا ہے کہ صرف چھ روپے فی یونٹ بڑھائے جائیں اور چھ پیسے کا ریلیف دیا جائے۔ پچھلے ہفتے ہی حکومت نے لگ بھگ دو روپے فی نرخ کا اضافہ دو قسطوں میں کیا ہے۔ دو برس میں کتنے اضافے ہوئے، اب تو یاد بھی نہیں رہا۔ آج ہی پنجاب کے ایک سینئر وزیر، جن کی "ایمانداری" کے قصے ضرب المثل بن چکے ہیں کا بیان چھپا ہے کہ تمام معاشی اشاریے ترقی کی نشاندہی کر رہے ہیں، پتہ نہیں انہوں نے پاور ڈویژن کا یہ اشاریہ بھی ان ترقیاتی اشاریوں میں شامل کیا کہ نہیں۔

    سینئر صوبائی وزیر سے پہلے یہی بات وفاقی وزیر شبلی فراز بھی ایسی ہی اطلاع دے چکے ہیں۔ فرمایا مہنگائی کے سوا تمام اشاریے مثبت ہیں۔ تمام اشاریوں میں گروتھ ریٹ کا اشاریہ بھی شامل ہے جو 5.8فیصد کی منفی شرح سے منفی زیرو کی مثبت شرح میں بدل چکا ہے۔ دو کروڑ لوگ جو منفی طور پر باروزگار تھے، اب "مثبت" کی حدود میں داخل ہو گئے ہیں۔ صنعتی پیداوار بھی نفی کے روپ میں مثبت ہو گئی ہے۔ قرضوں میں چار گنا اضافہ تو مثبت ضرب چار کہلایا جانا چاہیے۔ تعلیمی بجٹ صفر کر کے اثبات کی منزل سر کی گئی ہے۔ اور ہاں، تازہ خبر یہ ملی ہے کہ مارکیٹ میں جو 20کلو آٹا تھیلا مل رہا ہے، بعض کارخانوں کی حد تک، وزن کرنے پر وہ 18کلو کا نکلا ہے۔ یہ منفی دو کلو بھی مثبت کے کھاتے میں ڈال دیں۔

    مہنگائی عوام کی زندگی موت کا مسئلہ بن گئی ہے۔ روٹی کھانا بھی حکومت نے قریب قریب ناممکن بنا دیا ہے اور ان کی حس مزاح کے کیا کہنے، مہنگائی پر ایکشن لینے کا اعلان کرتے ہوئے ٹائیگر فورس کی ڈیوٹی لگا دی ہے۔ شاید اس سے ٹائیگر فورس والوں کو اپنی جیب بھاری کرنے کا موقع مل جائے۔ لیکن کہیں دکانداران کی"چندہ مہم" پر بھڑک گئے تو۔ ویسے بھی سامنے کی بات یہ ہے کہ مہنگائی دکاندار نہیں، کوئی اور کر رہا ہے۔

    مہنگائی پر نوٹس لینے کا عمل اپنی جگہ خوب تو ہے ہی لیکن شاید تاریخ عالم کا اکلوتا باب بھی۔ اس طرح کہ یہ واحد حکومت ہے، جو قیمتیں بڑھاتی ہے، پھر اس کا نوٹس لے کر قیمتوں میں مزید اضافہ کر دیتی ہے، پھر مزید نوٹس لے کر مزید در مزید مہنگائی کرتی ہے۔ محض ایک آٹے کی قیمت پر کئی نوٹس لئے گئے اور وہ کئی بار مہنگا ہوا۔ آٹا 82روپے تو ہو ہی چکا، خبر ہے کہ دو تین ہفتوں تک یہ "ٹرپل ڈجٹ" میں دستیاب ہو گا یعنی سو روپے یا اس سے بھی زیادہ۔ ڈبل سے ٹرپل ڈجٹ میں آٹا مثبت نہیں تو اور کیا ہے۔

    وفاقی گاڑیوں کے بیڑے میں 310کا مثبت اضافہ ہونے والا ہے۔ خبر ہے کہ ورلڈ بنک سے دو سو ملین ڈالر قرضہ لینے کی حکومت نے منظوری دے دی ہے۔ 310گاڑیاں اسی قرضے سے لی جائیں گی۔ یہ وہی حکومت ہے جس نے دو سال پہلے وزیر اعظم ہائوس کی بھینسیں "بچت" پروگرام کے تحت بیچ ڈالی تھیں اور سرکار دربار کے عقیدت مند دانشوروں نے اسے ریاست مدینہ کی طرف ایک مثبت قدم قرار دے کر زندہ جاوید قصیدے گائے تھے۔

    ایک اور مثبت اشاریہ ملاحظہ فرمائیے۔ زیر گردش کرنسی نوٹوں کی تعداد میں ایک اعشاریہ ایک ٹریلین کا اضافہ ہوا ہے اور یہ اضافہ اس لئے ہوا ہے کہ حکومت بڑی تعداد میں نوٹ چھاپ رہی ہے اور اسکے نتیجے میں سکیورٹی پیپرز لمیٹڈ (نوٹ کے لئے کاغذ بنانے والی فرم) کے منافع میں مالی سال کے دوران 60فیصد اضافہ ہوا۔ کہیے، کتنا بڑا مثبت اشاریہ ہے۔ بی بی سی کو بتایا کہ حکومت دھڑا دھڑ نئے نوٹ چھاپے جا رہی ہے۔ یعنی دھڑا دھڑ مثبت اشاریے اب اس دھڑا دھڑ نوٹ چھاپ کی مہم سے افراط زر بڑھ جائے تو وہ ایک اور مثبت اشاریہ ہو گا۔ افراط زر یعنی دولت کی بہتات اور کیا چاہیے۔ افراط زر کا مظہر زیادہ مہنگائی ہو تو بلا سے۔ ہرن مسلم بریاں شدہ در روغن گائو کھانے والوں کو اس سے کیا۔ دریں اثنا ماہرین کا کہنا ہے کہ نوٹ اس طرح چھاپنے سے بلیک اکانومی کو فائدہ ہوتا ہے۔ ارے کیا خوب۔ ماشاء اللہ نور علی نور۔

    جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ حکومت کا احتساب سلیکٹڈ ہے۔ احتساب والی بات غلط ہے۔ احتساب کہاں ہو رہا ہے۔ پکڑ دھکڑ کو دنیا میں کہیں بھی احتساب نہیں کہا جاتا۔ احتساب تولوٹی رقم کا سراغ لگا کر اسے برآمد کیا جاتا ہے۔ یہاں سراغ کہاں ہے اورمال مسروقہ کی دھجی بھی نہیں ملی۔ انہوں نے اپوزیشن کی تحریک کو مسترد کیا۔ فرمایا کہ ہم کسی کے اقتدار کے لئے کندھا نہیں بنیں گے۔ اقتدار کے لئے کندھا بننے کا سوال انتخابی الائنس کے مرحلے پر اٹھتا ہے۔ فی الحال تو تحریک کا مرحلہ ہے۔ اس میں آپ کے عدم تعاون سے تو بات کچھ اور بھی لگتی ہے۔ مولانا مودودی مرحوم نے ایوب خان کی مزاحمت کی، ان کے بعد جماعت نے ہر ایوب خاں کا ساتھ دیا۔ یحییٰ خان کا، ضیا خان کا مشرف خان کا۔ ایک بار عوام کا ساتھ دے کر بھی دیکھیے امید ہے فائدہ ہی ہو گا۔ گھاٹا بالکل نہیں۔ اب تو نواز شریف نے معشوق والے پردہ زنگاری کو بھی ہٹا دیا ہے، سب کچھ آئینہ ہو گیا ہے۔ اب کیا دشواری ہے۔