دو ہی دن پہلے ایوان صدر کے سابق براجمان اور پی ٹی آئی کے "ٹیکنیشن رہنما عارف علوی نے ببانگ دہل یہ خارا شگاف اعلان کیا تھا کہ سیاستدانوں اور حکمرانوں سے کوئی بات نہیں ہوگی، مذاکرات صرف فوج سے ہوں گے کہ وہی "مکان مالک" ہے اور آج یہ دردناک، دلدوز اور دلسوز خبر آئی ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے پارٹی رہنمائوں کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ سیاستدانوں اور حکمرانوں سے مذاکرات کی تیاری کریں اور ان سے رابطے بڑھائیں۔
دوسرے لفظوں میں بانی پی ٹی آئی نے پارٹی کو یہ کہا ہے کہ وہ چوروں، ڈاکوئوں اور فارم 47 والوں سے رابطے بڑھائیں، ان کا دل موم کریں۔ ہدایت نامے کا پورا متن سامنے نہیں آیا اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پارٹی رہنمائوں اور پارٹی کے سوشل میڈیا کو اس دوران چوروں اور ڈاکوئوں کیخلاف گالم گلوچ کے حوالے سیکوئی عارضی سٹے آرڈر بھی دیا گیا ہے کہ نہیں۔
عارضی سٹے آرڈر مولانا فضل الرحمن کے بارے میں دیا گیا تھا۔ ایک جلسے سے خطاب کے دوران پی ٹی آئی کے رہنما نے حاضرین جلسہ کو مولانا کے خلاف نعرہ بازی سے روک دیا تھا اور کہا تھا کہ ابھی رکیں، ابھی ان سے رابطے جاری ہیں۔ بعدازاں مولانا کے حتمی انکار کے بعد پارٹی نے یہ سٹے آرڈر خارج کر دیا تھا۔
***
کچھ کا کہنا ہے کہ یہ سپریم کورٹ میں سماعت کا ضمنی نتیجہ ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک جج نے خان صاحب سے کہا کہ آپ مذاکرات کریں۔ دوسرے نے کہا کہ قوم کو آپ سے بہت امیدیں ہیں۔ ممکن ہے جلد ہی سپریم کورٹ کی زیر رہنمائی کوئی گول میز کانفرنس بلانے کا اہتمام بھی ہو جائے۔
اس دوران یہ "ڈاکٹرائن" بھی سامنے آ چکا ہے کہ جس شخص کے لاکھوں فالوورز ہوں اور وہ عوام میں مقبول ہو، قانون کو اس پر اطلاق کے حوالے سے کوئی مراعاتی پیکج بھی بنانا چاہیے۔ دیکھنا ہوگا کہ اس عدلیاتی اکتشاف کو آئین میں جگہ ملتی ہے کہ نہیں۔
***
اس سماعت میں گریٹ خان کے "ڈیتھ سیل" کی تصاویر بھی پیش کی گئیں۔ ڈیتھ سیل کے ایک کمرے میں راشن سے بھری ہوئی دو الماریوں کے علاوہ ایک الماری کولڈ ڈرنکس سے بھری ہوئی بھی دکھائی گئی۔
میز کرسی بھی تھی، روم کولر بھی، آرام دہ بستر بھی۔ دنیا کا سب سے مہنگا منرل واٹر بھی موجود تھا۔ ایک کمرہ اور دکھایا گیا جس میں جم کی سہولیات ٹریڈمل، ڈمبل بمعہ لوازمات، بائیسکل اور دیگر قیمتی کھلونے بھی۔
جو کمرے اس ڈیتھ سیل کے نہیں دکھائے گئے ان میں ملاقاتیوں کا کمرہ بھی شامل تھا۔ جہاں گریٹ خان پارٹی رہنمائوں وکلا اور دوسرے اکابرین کوشرف زیارت بخشتے اور ہدایات سے سرافراز کرتے ہیں۔ وہ کچن بھی نہیں دکھایا گیا جس کیلئے دیسی بکرے، مرغے، گھی، انڈا، مچھلی وغیرہ وغیرہ پر مشتمل فوڈ سپلائی چین کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ اس مسلسل سپلائی کے تسلسل میں ذرا سا خلل آنے کا ذرہ برابر بھی امکان نہیں ہے کہ عدلیات کی چوکس نگاہ اس سپلائی لائن پر ہے، ذرا سی کوتاہی ذمہ داروں کو حوالہ زنداں کر سکتی ہے۔ گریٹ خان کی "واک" کیلئے پورا کاریڈور ہے۔ خان کی عقیدت مند ایک خاتون صحافی نے ٹویٹ کیا کہ یہ کاریڈور بہت چھوٹا ہے، واک کیلئے کسی اچھے پارک کا انتظام ہونا چاہیے تھا۔ بے شمار عقیدت مند اس ٹویٹ کو پڑھ کر زار و قطار رو پڑے۔ روتے روتے پہلے ہچکی پھر گھگھی بند ہوگئی۔
***
بھارت کے الیکشن میں نریندرا مودی جسے دیوتا سماں کے پر جس طرح کاٹے گئے، اس پر دنیا بھر کے ممالک میں ٹی وی پر زوردار بحث جاری ہے۔ پاکستان کے ٹی وی چینلز پر مودی اور بھارتی الیکشن پر سرسری بات کی گئی۔ غزہ میں برپا قیامت بھی دنیا بھر کے اکثر ممالک کے ٹی وی شوز کا موضوع بحث ہے، ہمارے ہاں یہ ذکر بھی غائب ہے۔
تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ پاکستان کے تمام چینلز کو انتظامیہ کی طرف سے یہ خصوصی سٹینڈنگ آرڈر ہے کہ ہر ٹاک شو گریٹ خان سے شروع ہوگا، ہر ٹاک شو گریٹ خان کے ذکر پر ہی ختم ہوگا۔
بس اسی ہنگامے پر موقوف ہے گھر کی رونق
اندازہ فرمائیے، یہ سٹینڈنگ آرڈر نہ ہوتا تو وہ بحران کیسے نظر آتا جو موجود ہی نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ بحران موجود نہیں ہے، ہولو گرافی کا کمال ہے کہ جو نہیں ہے، اسے دکھا رہا ہے اور بس اسی کو دکھا رہا ہے۔ جو ہے، اسے کوئی دکھا رہا ہے نہ کوئی دیکھ رہا ہے۔
***
مشکل سوال نہیں کرنے چاہئیں ورنہ جواب میں لعنتوں کی بوچھاڑ میں بھیگنا پڑ سکتا ہے۔ کے پی کے گورنر فیصل کریم کنڈی نے دو روز پہلے دو تین مشکل سوالات کئے۔ پوچھا صوبے میں تعلیم کا وجود رہ گیا ہے نہ صحت کی سہولتوں کا، آخر یہ پیسہ کہاں گیا۔
اس پر وزیر اعلیٰ کا برہم ہونا بجا تھا۔ فرمایا، چپ کر جا لعنتی انسان، تجھ پر لعنت ہو، تجھے اٹھا کر باہر پھینک دونگا لعنتی انسان، تمہارا کھانا پینا بند کر دوں گا لعنتی انسان، تجھ پر لعنت ہو لعنتی انسان، تمہاری گاڑیاں بھی روک دوں گا، ضبط کر لوں گا لعنتی انسان۔
کنڈی صاحب نے دو ہی مشکل سوال پوچھے تھے کہ لعنتوں کا سیلاب آ گیا، دو تین سوالات اور پوچھ لیتے تو سونامی ہی آ جاتا۔ مثلاً یہ کہ جنگلات کیلئے مشہور کے پی کا صدر اتنا گنجا کیسے ہوگیا کہ درخت نظر نہیں آتے، جنگل دھڑا دھڑ کیوں جلائے اور کاٹے جا رہے ہیں، بلین ٹری سونامی کے درخت کہاں گئے یا یہ کہ صوبے میں دہشت گردی، قتل و غارت گری اور بھتہ وصولی اتنی زیادہ کیوں بڑھ گئی ہے کہ کولمبیا کی یاد پیچھے رہ گئی۔
ویسے پختونخواہ میں درپیش ان سوالات والے معاملات سے کچھ فائدے بھی ہوئے ہیں۔ مثلاً لوگ اپنے مریضوں کا علاج کرانے پنجاب اور سندھ جاتے ہیں جس سے بین الصوبائی رابطے بڑھتے اور اخوت فروغ پاتی ہے۔ تعلیمی اداروں کے خاتمے سے پرویز مشرف کی روح کو ایصال ثواب ہوتا ہے جس سے پاکستان سے تعلیم کے خاتمے کے پراجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا تھا اور تعلیمی ادارے نہ ہونے سے بچے سارا دن "صحت مند" مشاغل میں مصروف رہتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ بہرحال بنیادی سیاسی سبق اس قضیے کا یہی ہے کہ مشکل سوالات سے گریز کرنا چاہیے۔