ایک بات جو متوقع اور غیر متوقع تھی، وہ ہوگئی یعنی پنجاب اسمبلی ٹوٹ گئی۔ متوقع اس لیے کہ صوبے کے حکمران اتحاد کے سربراہ عمران خان نے بہت پہلے سے اس کا اعلان کر رکھا تھا بلکہ ان کے اعلان کے مطابق تو دو مہینے پہلے یعنی نومبر ہی میں اسے توڑ دیا جانا تھا اور غیر متوقع اس لیے کہ اخبار نویسوں، سیاسی حلقوں بلکہ غیر سیاسی حلقوں کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب اسمبلیاں توڑنا نہیں چاہتے تھے، ہر بار عمران خان کو غچّہ دے جاتے تھے۔ پھر پتہ نہیں کل پرسوں میں ایسا کیا ہوا کہ ان کے غچّے کی "گچی" عمران کے قابو میں آ گئی اور اسمبلیاں توڑنے کی سمری بھیجتے ہی بنی۔ حیرت انگیز طور پر قاف لیگ کا یہ اعلان کہ اسمبلی تو ضرور توڑیں گے لیکن پہلے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا قضیہ بھی ضرور طے کریں گے، بیچ ہی میں رہ گیا بلکہ غائب ہوگیا۔ قضیہ یہ تھا کہ قاف لیگ قومی اسمبلی کی 25 اور صوبائی اسمبلی کی 35 سیٹیں مانگ رہی تھی۔ شاید یہ قضیہ اب طے ہو جائے۔ اس طرح کہ عمران خان خوش ہو کر کہہ اٹھیں کہ مانگ فریادی، کیا مانگتا ہے۔
***
عام تاثر یہ ہے کہ یہ عمران کی جیت اور وفاق میں حکمران اتحاد بالخصوص مسلم لیگ کی شکست ہے اور شکست بھی کوئی ایسی ویسی نہیں، بہت ہی شرمناک۔ لیکن یہ تاثر بہت جلد قائم کر لیا گیا ہے۔ جوں جوں دن گزریں گے، بات کھلے گی اور اگلے منظر نامے کی جھلک واضح ہوتی جائے گی۔ پھر پتہ چلے گا اصل گھاٹا کس کا ہوا۔
جہاں تک مسلم لیگ نون کا تعلق ہے، وہ وفاق میں حکومت بنانے کے بعد سے ہی شکست کھاتی چلی آ رہی ہے۔ سیاسی میدان سے وہ غائب ہے۔ کچھ لیگی حلقوں نے بتایا تھا کہ مریم نواز کے جلسوں اور پریس کانفرنسوں سے وزیر اعظم بے چین تھے۔ وہ کہتے تھے کہ وہ اپنے طریقوں سے ملک کو بحران سے نکال رہے ہیں، مریم کے جلسوں سے محاذ آرائی بڑھے گی، ان کے کام میں رکاوٹ آئے گی۔ ان کے دبائو پر بڑے بھائی نے مریم کو لندن بلوا لیا۔ جس کی وجہ سے ضمنی انتخابات کی دو سیریز مسلم لیگ نون ہار گئی۔ چلئے، کوئی بات نہیں، الیکشن ہار گئے تو کیا ہوا۔ محاذ آرائی تو کم ہوئی۔ کیا واقعی؟
***
مسلم لیگ نون تو جہاں ہے، وہیں رہے گی۔ اصل گھاٹا قاف لیگ کو ہوا ہے۔ اس کی حکومت ختم ہوگئی اور اب کبھی نہیں بنے گی۔ الف پارٹی کی بنے یا بے پارٹی کی، اس کی نہیں بنے گی۔ ایک فوری گھاٹا "روڈا" پراجیکٹ کے ہاتھ سے نکل جانے کا ہوا۔ قاف لیگ کی سیاست کا مقصد جاننا ہو تو وہ حافظ جی والا لطیفہ یاد کر لیجئے۔ کسی نے پوچھا حافظ جی حلوہ کھائو گے، بولے، کیوں نہیں، حافظ بنے کس بات کے لیے تھے، اسی کے لیے تو بنے تھے۔ روڈا تو ہاتھ سے گیا۔ آٹے کی قلّت کا کریڈٹ کارڈ بھی نہ رہا۔ ویسے بتانے والے بتاتے ہیں کہ روڈا کی ملائی تو پہلے ہی کھا چکے اس لیے چنداں غم نہیں (واللہ اعلم)
پی ٹی آئی کے دو ادارے "سروے" کرانے کا کام کراتے ہیں۔ بڑی باقاعدگی سے ان کے "سائنٹفک سروے" آتے رہتے ہیں۔
اچھی خاصی سے زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے۔ تازہ سروے ان کے یہ ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت 51 فیصد ہے، باقی سب کی ملا کر 49 فیصد ہے اور بلاول بھٹو کی محض ایک فیصد، شہباز شریف کی "صفر" فیصد ہے۔
چند ماہ پہلے انہی اداروں کے سروے میں بتایا گیا تھا کہ عمران خان کی مقبولیت 85 فیصد ہے اور یہ سروے پڑھ کر ہی پی ٹی آئی نے اعلان کیا تھا کہ بات دوتہائی اکثریت سے آگے نکل گئی اور اب عمران خان تین چوتھائی سے بھی زیادہ سیٹیں لیں گے یعنی لگ بھگ 80 فیصد۔
ایسا کیا ہوا کہ سروے کا نیٹ رزلٹ بدل گیا۔ شاید سروے کرانے والے اداروں کو یاد نہیں رہا ہوگا کہ پچھلی بار انہوں نے کیا "سروے" تخلیق کیا تھا۔
***
کراچی میں بھی متوقع غیر متوقع والا ماجرا ہوگیا۔ توقع تھی کہ متحدہ کے دھڑے متحد ہو جائیں گے سو ہو گئے لیکن بہت سوں کا خیال تھا کہ اتنی جلدی نہیں ہوں گے لیکن یہ بھی ہوگیا۔ ویسے اتنی جلدی کے الفاظ اتنے بھی ٹھیک نہیں ہیں۔ مہینہ سے اوپر ہوگیا، تب سے کوششیں جاری تھیں۔
عمران خان کی یہ بات کہ متحدہ کو متحد کرنے کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہے، کسی نے نہیں مانی۔ اس لیے کہ اسٹیبلشمنٹ پیچھے ہوتی تو اتنے دن نہ لگتے۔ زیادہ سے زیادہ دو تین دن۔ یاد ہوگا"باپ" پارٹی بلوچستان والی ایک ہی رات میں بن گئی تھی۔
بہرحال، کمال کی بات یہ ہوئی کہ متحدہ کے دھڑوں نے متحد ہو کرجو متحدہ پریس کانفرنس کی، اس میں پارٹی کے بانی، تاحیات قائد یعنی لندن والے بھائی صاحب سے "بریت" کا اعلان کیا گیا بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ان پر وہ الزامات بھی لگا دئیے جو اب تک ان کے مخالف لگاتے رہے ہیں۔ کیسا انوکھا کمال کر دکھایا۔
متحدہ نے متحد ہو کر یہ دھمکی دی کہ 15 جنوری کو ہونے والے بلدیاتی الیکشن نہیں ہونے دیں گے اور اس دھمکی کے چند گھنٹے بعد سندھ حکومت نے گھٹنے ٹیک دئیے اور الیکشن کمشن کو لکھ ڈالا کہ صاحب، ہم یہ الیکشن نہیں کرا سکتے۔
یہ بھی حیرت میں ڈالنے والی بات ہے۔ حالانکہ آخری دنوں کے تمام سروے بتا رہے تھے کہ دو ہی جماعتیں یہ الیکشن جیتیں گی۔ ایک جماعت اسلامی، دوسری پیپلز پارٹی۔ متحدہ اور پی ٹی آئی دوڑ میں نہیں تھیں۔ پی ٹی آئی بعض پوش علاقوں سے کچھ سیٹیں اگرچہ نکال سکتی تھی۔ اِکا دُکا مقامات پر لبیک والے بھی جیت جاتے۔ پانچویں کوئی پارٹی تھی ہی نہیں۔ پیپلز پارٹی اپنے فائدے سے کیوں بھاگی؟ ، شاید امن و امان والا چیلنج اٹھانے کی طاقت نہیں تھی۔ یا کوئی اور بات ہوگی؟
***
الیکشن کمشنر نے مسلم لیگ ن کو -14 مارچ تک کی مہلت دی ہے کہ وہ انٹرا پارٹی الیکشن کرا لے۔
سخت زیادتی والا حکم ہے۔ ایسے حکم سیاسی جماعتوں کو دئیے جا سکتے ہیں، غیر سیاسی جماعتوں کو نہیں۔ کیا الیکشن کمشن کو اب تک یہ پتہ نہیں چلا کہ مسلم لیگ نون نے لگ بھگ ایک سال سے سیاست چھوڑ دی ہے اور سیاست کے میدان کو الوداع کہہ چکی ہے؟ اس نے اس عرصے میں ایک بھی "سیاسی حرکت" کی ہے؟ ، سخت ناقابلِ فہم ہے کہ ایک قطعی غیر سیاسی انجمن کو الیکشن کمشن نے ایسا نوٹس جاری کر دیا۔
"ادارہ" تو اب غیر سیاسی ہوا، مسلم لیگ تو اس سے بھی پہلے غیر سیاسی ہو چکی تھی۔ الیکشن کمشن سے اپیل ہے کہ وہ اپنا ناروا نوٹس واپس لے۔