Sunday, 22 December 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Na-Ahli, Fikar Makun

Na-Ahli, Fikar Makun

الیکشن کمیشن سے عمران خان کی نااہلی کا فیصلہ پی ٹی آئی کے لیے پریشانی کا باعث نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ جلد ہی ریلیف مل جائے گا۔ پی ٹی آئی نے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے یعنی ریلیف میں دیر نہیں۔ قید کی سزا مل گئی تب بھی خیر ہے۔ ریلیف اس میں بھی مل جائے گا اور جیل جانے سے پہلے ہی مل جائے گا۔ اصل پریشانی الیکشن کمشن کے فیصلے میں لکھے گئے ریمارکس ہیں، وہ مستقل پیچھا کریں گے۔ فیصلہ کہیں سے کالعدم ہو گیا تب بھی یہ پیچھا کریں گے، یہ کبھی کالعدم نہیں ہوں گے۔

فواد چودھری نے فیصلے کے فوراً بعد ملاحیوں بردزن گالیوں کے لچھے برسائے۔ الیکشن کمشن کو بدکار ہونے کی سند بھی عطا کی اور یہ دلچسپ اعلان بھی کیا کہ آج سے انقلاب شروع ہو چکا ہے۔ دلچسپ اس لیے کہ انقلاب کی ابتدا تو 20 اپریل سے ہی ہو گئی تھی۔

دراصل انقلاب نہیں، ساڑھ ستی برپا ہوا ہے۔ ساڑھ تو چھ مہینے میں گزر گئی۔ باقی بچی ستّی۔ عمران خان زیادہ پریشان نہ ہوں، یہ سات سال بھی چٹکی بجائے گزر جائیں گے اور خیر سے سات برس بعد بھی وہ بدستور جوان الفکر، جوان العمر اور جوان العمل ہی ہوں گے۔

دریں اثنا فیصلے کے بعد شاہ محمود قریشی کے چہرے پر عجیب سا نور نظر آیا۔

***

کسی چینل پر ایک تجزیہ نگار بتا رہے تھے کہ سوات، مالا کنڈ میں طالبان نے بڑی حد تک اپنا نظام بنا لیا ہے یعنی نافذ کر دیا ہے۔ نظام بنانے کے کئی مطلب لئے جا سکتے ہیں۔ یہ کہ انہوں نے اپنی رٹ قائم کر دی ہے، اپنا نظم و نسق چلا رہے ہیں لیکن بہرحال یہ مطلب نہیں نکالا جا سکتا کہ انہوں نے اپنی حکومت بھی بنا لی ہے اس لیے کہ حکومت تو بہرحال وہاں پی ٹی آئی کی ہے اور عرصہ نو سال سے ہے۔ اے این پی کے رہنما زاہد خاں نے بتایا کہ دیر اور چترال میں بھی ایسا ہی ماجرا ہے۔ کچھ دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیرستان میں بھی صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں۔

چلئے، کوئی بات نہیں۔ ان علاقوں میں بے شک رٹ طالبان کی ہے، نظم و نسق اور نظام بھی ان کا ہے، بھتے کی پرچیاں بھی انہی کی چلتی ہیں، بندوق بھی انہی کے پاس ہے لیکن فکر کرنے کی چنداں ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ حکومت تو بہرحال پی ٹی آئی کی ہے اور نو سال سے ہے۔

وزیر اعلیٰ پختونخواہ محمود خاں کے بھائی نے چند روز قبل ایک جلسہ عام سے خطاب کیا اور فرمایا کہ سوات وغیرہ سے فوج واپس چلی جائے۔ کیوں؟ یہ انہوں نے نہیں بتایا۔ شاید ان کے مطالبے کا تعلق شروع میں لکھے گئے تجزیہ نگار کے فقرے سے ہو کہ طالبان نے بڑی حد تک اپنا نظام بنا لیا ہے۔ اس فقرے میں"بڑی حد تک" والے الفاظ کو شاید پوری حد تک میں بدلنے کی ضرورت بھائی صاحب کو محسوس ہو رہی ہو گی!

***

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے طلبہ کی اخلاقی تربیت کے بعد خان صاحب نے سرگودھا یونیورسٹی کے طلبہ کو بھی اس سعادت سے مشرف کرنے کا فیصلہ کیا۔ زھے نصیب۔ یونیورسٹی کے اندر اور باہر اس عبارت کے بڑے بڑے بورڈ لگے ہوئے تھے کہ ہم قائد انقلاب کو سرگودھا یونیورسٹی میں تشریف لانے پر خوش آمدید کہتے ہیں۔ "ہم" یعنی کون؟ ہم کی وضاحت بورڈوں پر نہیں تھی۔ بلہیا کیہہ جاناں میں کون۔

خان صاحب نے اخلاقی تربیت کرتے ہوئے بلاول بھٹو کے مرد ہونے پر شک و شبہ ظاہر کیا اور کچھ ایسے ارشادات ارشاد فرمائے جن کو نقل کرنا اخبارات کے لیے ممکن نہیں۔ اخلاقیات جب بہت زیادہ بلند ہو جائے تو میڈیا کے پر جلنے لگتے ہیں۔

طلبہ کی اچھی طرح اخلاقی تربیت کرنے کے بعد خان صاحب نے اپنے لیے دعا بھی فرمائی۔ یہ کہ چوروں اور ڈاکوؤں کی اس حکومت میں رہنے سے اچھا ہے کہ میں مر جاؤں۔ پچھلے دو اڑھائی ہفتوں میں آپ نے تیسری بار یہ دعا مانگی ہے۔ اسے ہیٹ ٹرک بھی کہتے ہیں۔ اس ہیٹ ٹرک کا تعلق اخلاقی تربیت سے نہیں، رحونیاتی امور سے لگتا ہے۔ واللہ اعلم!

***

ایف آئی اے نے فیصل آباد سے اس شخص کو گرفتار کیا ہے جس پر الزام تھا کہ اس نے پی ٹی آئی کے اجتماع میں مریم نواز شریف کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔

اسلم نام کے اس ملزم کی وہ وڈیو دیکھی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس نے دھمکی نہیں دی تھی بلکہ قتل کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ محض ارادہ نہیں، اس نے اپنے فیصلے کا اعلان کیا تھا اور حاضرین سے بھرپور داد پائی تھی۔ اس کے الفاظ تھے کہ "مریم کو میں قتل کروں گا"۔

تقریب کی صدارت قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کر رہے تھے (یا شاید مہمان خصوصی تھے)۔ انہوں نے مسکرا کر داد دی۔

اگر خاموشی کو نیم رضا مندی کہا جاتا ہے تو خنداں ہونے کو کامل رضا مندی کیوں نہیں کہا جا سکتا۔ ایف آئی اے کا کیا خیال ہے؟

***

شیخ رشید نے کہا ہے کہ عمران خان جنرل سرفراز کو آرمی چیف لگانا چاہتے تھے لیکن وہ ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہو گئے۔

شہید جنرل کا شمار سنیارٹی لسٹ میں -17 ویں نمبر پر تھا۔ پھر عمران خان انہیں کیسے آرمی چیف لگانا چاہتے تھے؟ شیخ صاحب کے اس بیان نے عقل کی سٹی گم کر دی ہے۔ ان کے بیان میں ایک بات اور بھی ہے، یہ کہ "لیکن" وہ شہید ہو گئے۔ لیکن سے کیا مراد؟ شیخ صاحب کیا بات کہنا چاہتے ہیں؟

بظاہر گیٹ نمبر 4 کی ملازمت سے سبکدوشی نے ان کے ذہن پر کچھ زیادہ ہی منفی اثر ڈالا ہے۔ غنیمت ہے کہ انہوں نے اپنے قائد کی طرح اپنے مرنے کی دعا نہیں مانگی۔

***

شیخ صاحب لال حویلی خالی کرا ئے جانے کے نوٹس پر بھی دلبرداشتہ ہیں۔ محکمہ اوقاف کا کہنا ہے کہ وہ اپنی املاک واگزار کرانا چاہتا ہے۔ شیخ جی نے دھمکی دی ہے کہ یہ املاک میری لاش پر ہی خالی کرائی جا سکتی ہیں۔ متروکہ وقف املاک بورڈ کے مجاز افسر نے پہلے بھی یہ نوٹس دیا تھا لیکن معاً بعد مجاز افسر کا تبادلہ اور نوٹس کو معطل کر دیا گیا تھا۔ اب پھر نوٹس دیا تو وہ بھی معطل ہو گیا۔ شیخ جی کو پریشانی ہے کہ کہیں تیسرا نوٹس بھی آ گیا اور وہ کسی وجہ سے معطل نہ کروایا جا سکا تو کیا ہو گا۔

شیخ جی کو مشورہ ہے کہ وہ چند کنال کی اس حویلی کو مزید اپنے قبضے میں رکھ کر کیا کریں گے۔ دوسروں کی چیز ہے، اسے لوٹا دیں اور اپنے ہزاروں ایکڑ والے فارم ہاؤس میں منتقل ہو جائیں، زندگی کے سب مزے وہاں بھی تو دستیاب ہو سکتے ہیں بلکہ ہیں۔

شیخ صاحب کی عمر مزے کرنے کی ہے لیکن یہ مزے پرائی عمارت پر قبضہ رکھے بغیر کئے جا سکتے ہیں۔

***