گزرے دو ہفتوں کے دوران دو اہم سفارتی کامیابیاں ملک بھر میں سب سے زیادہ زیر بحث رہیں۔ پہلی عظیم سفارتی کامیابی ہمارے ہاں سے بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کو کیا گیا فون تھا۔ جسے خوب سراہا اور وسیع پیمانے پر بغلوں کے طبلے بجائے گئے۔ بجا طور پر اس فون کے بعد اخبارات کے نیوز رومز میں کسی بریکنگ نیوز کا انتظار کیا جاتا رہا، یعنی یہ کہ بنگلہ دیش پاکستان کو قرضے کی پیشکش کرے گا اور پھر قوم سے خطاب ہو گا، کچھ یوں :پاکستانیوں، بہت بڑی خوشخبری سنانے والا ہوں، مبارک ہو کہ بنگلہ دیش سے ہمیں اتنے ارب ڈالر کا پیکج مل گیا ہے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا، بریکنگ نیوز کے منتظر انتظار ہی کرتے رہ گئے۔ برسبیل تذکرہ اچھی بات اس تبدیلی میں یہ ہوئی ہے کہ قرضے کا نام پیکج رکھ دیا گیا ہے۔ جو بیک وقت سمجھداری اور تدبر کا ہائی مارک ہے اور حب الوطنی کی نشانی بھی۔ واضح رہے کہ پیکج لینے کو خارجہ پالیسی کا نام دیا گیا ہے۔ چند روز پیشتر ایک محب وطن مضمون نگار نے اپنے قلم سے موتی پروتے ہوئے یوں فرمایا کہ بے شک اندرون ملک کچھ مسائل ہیں، لفظ کچھ کے انتخاب پر داد لازم ہے لیکن عمران خان کی خارجہ پالیسی بے حد کامیاب ہے۔ بجا فرمایا بے شک کامیاب ہے اور اس کامیابی کی وجہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی بالکل سادہ، غیر پیچیدہ اور یک نکاتی ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ ایک عدد پیکج۔ اس سادہ، غیر پیچیدہ اور یک نکاتی خارجہ پالیسی کی کامیابی پر دنیا انگشت بدنداں ہے اور بے شک، کامیابی کے اس میدان میں کوئی اور ہمارے پاس تک نہیں بھٹک سکتا۔ اور ہاں، اس یک نکاتی خارجہ پالیسی کا ایک ذیلی نکتہ بھی ہے۔ یہ کہ تو نہیں اور سہی، ایک در بند تو دوسرا کھلا۔ خلیج والے سرد مہری برتیں گے توہمالہ پار والوں سے لے لیں گے۔
ایک اور تجزیہ نگار یہ دور کی کوڑی لائے کہ بنگلہ دیش بھارت کے دام سے نکل رہا ہے۔ اس کوڑی نے خارجہ امور کے طالب علموں کے دماغ پر جو کوڑا مکڑی کی ہو گی، اس کا اندازہ کون لگا سکتا ہے۔ بنگلہ دیش بھارت کے دام میں کبھی نہیں تھا۔ بنگلہ بند ہو شیخ مجیب کے دور میں بنگلہ دیش بھارت کا اتحادی تھا۔ 1975ء میں انہیں قتل کر دیا گیا اور ملک نے سی آئی اے کے خدمت گاروں کا طویل دور حکومت شروع ہوا۔ شیخ حسینہ واجد نے 1986ء میں جلا وطنی ختم کی اور اپوزیشن کی سیاست کر کے سی آئی کے خدمت گاروں کو شکست دی اور 2001ء میں وزیر اعظم بنیں۔ انہوں نے بھارت سے دوستی کی لیکن اس کے دام میں کبھی نہیں آئیں۔ دوسری بار وہ 2009ء میں وزیر اعظم بنیں اور حکومت آتے ہی چین سے دوستی کی، بھارت سے جوں کی توں برقرار رکھی۔ اس میں انوکھا کچھ بھی نہیں، مشرق وسطیٰ میں چین کا سب سے بڑا دوست کون ہے؟ جی اسرائیل، چین اس پر دل و جان نچھاور کرتا ہے اور یہی اسرائیل مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا بھی سب سے بڑا دوست ہے؛چنانچہ بنگلہ دیش بھی بالکل ویسے ہی، بیک وقت چین اور بھارت کا دوست ہے اور تجارتی شراکت داری بھی۔ محب وطن تجزیہ نگاروں نے بہر حال، یہ نہیں بتایا کہ بنگلہ دیش جمہوری ملک ہے وہاں جمہوری مضبوط اور آئین بالادست اور اسی کا ثمر ہے کہ ملک میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی شرح ہر سال کم ہو رہی ہے اور 2019ء میں یہ شرح گیارہ اعشاریہ آٹھ فیصد ہو گئی۔ 1971ء میں یہ شرح 90فیصد تھی۔ عالمی اداروں کی پیش گوئی ہے کہ انتہائی غربت اگلے سال مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔ جمہوریت کا ذکر حب الوطنی کے شدید منافی ہے؛ چنانچہ فاضل تجزیہ نگار نے بھی یہ بات ملحوظ خاطر رکھی۔
دوسری عظیم سفارتی کامیابی پاکستان کے نئے نقشے کا اجرا تھا جس میں کشمیر کو (مشرقی سرحد میں رکھ کر) پاکستان کا حصہ دکھایا گیا۔ اسے اینٹ کا جواب پتھر کے مصداق سمجھئے۔ بھارت نے کشمیر ضم کر لیاہم نے نقشہ ضم کر لیا۔
ویسے بزرگ قارئین کو یاد ہو گا کہ پاکستان بننے کے بعد طویل عرصے تک یہی نقشہ ہمارا سرکاری نقشہ تھا جسے اب پھر سے جاری کیا گیا ہے۔ 1971ء کے سانحے کے بعد غیر محسوس طریقے سے دوسرے نقشے آنے لگے جن میں کبھی کشمیر کو متنازعہ دکھایا جاتا کبھی اس کی جگہ خالی دکھائی جاتی۔ کشمیر سمیت نئے پاکستان کا نقشہ ہماری طویل کشمیر پالیسی کا نیا موڑ ہے۔ دو عشرے پہلے تک ہماری کشمیر بذریعہ شمشیر والی پالیسی جاری تھی۔ یعنی کشمیر بذریعہ جنگ، اب کشمیر انضمام نقشہ پر آ رکی ہے، بیچ میں کشمیر بذریعہ ٹویٹ کا تجربہ بھی کیا گیا۔ کشمیری عوام کو بہرحال جو پیغام ملنا تھا، وہ مل گیا ہے۔
خیر، دیوار پر لانے کے لیے یہ نقشہ خوب ہے۔ یعنی نقشہ بردیوار(نقشے کو نقش پڑھنا آپ کی مرضی ہے)نقشہ برسرکار دوسرا ہے، وہی جو پچھلے سال کے جولائی میں صدر ٹرمپ سے دوبدو ملاقات میں روبرو طے ہوا، جس پر فرمایا تھا کہ پھر سے ورلڈ کپ جیت لایا ہوں اور جس کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے چوکھٹے پر باچھیں دائیں سے بائیں پھیلتی ہی چلی گئیں، باچھیں پھیلنے کو آپ کھل اٹھنا بھی کہہ سکتے ہیں۔ اور ہاں، کشمیر کی آزادی قریب ہے۔ بس کسی شمشیر بدست کے عازم کشمیر ہونے کی دیر ہے۔ بوسنیا سے جنوبی سوڈان، ویت نام سے مشرقی تیمور، دنیا کا کوئی بھی ملک بیرونی مداخلت کے بغیر آزاد نہیں ہوا۔ ایک بھی مثال نہیں ہے۔ خود برصغیر کو انگریزوں نے آزاد کیا جب نازی یلغار نے اس کی فوجی قوت تہس نہس کر کے رکھ دی۔