شیخ جی کا ہر بیان نواز شریف کے بارے میں ہوتا ہے، وفاقی حکومت کی پالیسی کا خلاصہ سمجھ لیجیے۔ تازہ بیان میں اطلاع دی ہے کہ اگر نواز شریف وطن واپس نہ آئے تو ان کی سیاست کا "دھیں پٹاس" ہو جائے گا یعنی ان کی سیاست ختم ہو جائے گی۔ مثل مشہو ہے کہ صدق گورا حافظہ بنا شد۔ یعنی سچ بولنے کی عادت ہو تو حافظہ کمزور ہو جاتا ہے بلکہ ختم ہو جاتا ہے اور شیخ جی ٹھہرے ملک کے نمبر دو سچے آدمی (نمبر ون کسی اور کو قرار دے رکھا ہے) ان کا حافظہ تو کب کا دھین پٹاس یعنی غتربود ہو چکا ہو گا۔ چنانچہ انہیں یہ کہاں یاد رہا ہو گا کہ وہ دو اڑھائی سال قبل بار بار یہ بتا چکے ہیں کہ نواز شریف کی سیاست ہمیشہ کے لئے ختم ہو چکی ہے جو شے بقول ان کے ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی، اس کے پھر سے ختم ہونے کا اندیشہ کہاں سے لاحق ہو گیا؟
کسی کی سیاست ختم ہونے کے دنیا بھر میں دو ہی بڑے ماڈل ہیں۔ ایک سیاسی حکمت عملی میں کوئی بہت بڑی غلطی ہو جائے جیسا کہ حال ہی میں ملائشیا کے رہنما مہاتیر محمد سے ہوئی، انہوں نے معاہدے اور وعدے کے مطابق وزارت عظمیٰ کی باقی ماندہ مدت انور ابراہیم کے حوالے کرنے کے بجائے حکومت ہی توڑ دی اور یوں اپنے حامیوں کی نظروں سے گر گئے۔ اب کوئی معجزہ ہی ان کی سیاست کو پھر سے بحال کر سکتا ہے۔ دوسرا ماڈل سیاست ختم ہونے کا عدم کارکردگی یا بری کارکردگی ہے۔ جیسا کہ بھارت میں نہرو خاندان اور کانگرس سے ہوا۔ اسے سیاست میں پھر سے زندہ ہونے کے لئے نجانے کتنے پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ لیکن پاکستان میں یہ دونوں ماڈل ندارد ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ماڈل اس ملک کے لئے موزوں نہیں ہیں چنانچہ یہاں تیسرا ماڈل نافذ ہے۔ جس کے تحت کسی کی سیاست کا خاتمہ اس کی موت کے ساتھ ہی ہوتا ہے، بھٹو، بینظیر، کی مثالیں سامنے ہیں۔۔ یا پھر بندہ چوری میں پکڑا جائے جیسے میاں نواز شریف۔۔۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ثبوت نہیں ملا اس لئے اسے بادی النظر والے غیر اعلانیہ فارمولے کے تحت قید کر دیا جاتا ہے۔ یہ سب کرنے کے باوجود کسر رہ جاتی ہے چنانچہ شیخ جی کو یہ اطلاع دینا پڑی کہ اگر نہ آئے تو سیاست دھیں پٹاس ہو جائے گی۔
عدالت نے نواز شریف کو حکم دیا ہے کہ وہ اس مہینے کی اس تاریخ کو پیش ہوں۔ ورنہ اشتہاری قرار دے دیا جائے گا۔ حکومت کی امید رہی "اشتہاری" قرار دینے پر منحصر ہو گئی ہے۔ یعنی اس کے بعد تو سیاست ختم ہو ہی جائے گی۔ نواز شریف کے قریبی لوگ بتا رہے ہیں کہ وہ نہیں آئیں گے۔ علاج کرا کے ہی آئیں گے۔ ان کی سیاست نااہل ہونے اور دس سال کی سزا سنائے جانے کے بعد اتنی زیادہ ختم ہو چکی ہے کہ اشتہاری قرار دینے کے بعد مزید ختم ہونے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ بہرحال شیخ جی فرماتے ہیں کہ گنجائش اب بھی ہے۔ چلیے اب تو دوچار ہی دن کی بات ہے۔ دیکھیے خاتمے کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
پریشانی ظاہر ہے ہاں اس میں اضافہ ہونے کی وجہ کچھ اور بھی ہے۔ اس کچھ اور کو کورونا کہتے ہیں۔ کورونا عوام کے لئے زحمت، حکومت کے رحمت بن کر آیا۔ ایک ڈیفنس شیلڈ اسے مل گئی۔ اب یہ شیلڈ تحلیل ہو رہی ہے تو اسے سنہری دھوپ کا سامنا ہو گا۔ وہی دھوپ جو پائوں جلاتی ہے تو بندریا اپنے بچے پر پائوں رکھ کر بیٹھ جاتی ہے سیاسی درجہ حرارت نکتہ انجماد سے واپسی کا رخ پکڑ چکا ہر دن بڑھتا ہی جائے گا۔ عوام پر ہر طرف سے بے روزگاری، مہنگائی، غربت بدامنی کی بمباری کر رہی ہے۔ پناہ کی تلاش میں لوگ ادھر ادھر ہاتھ پائوں مار رہے ہیں، ہاتھ میں پتھر آ گئے تو کیا ہو گا۔ دست مہند سنگ کی تصویر سنگ بدست میں بدلتے دیر تو نہیں لگتی۔
ویسے نواز شریف کی سیاست ختم کرنے کا ہر ہتھیار استعمال کر لیا گیا۔ کردار کشی کی سب سے بڑی مہم، چار ہزار گھنٹے کے ٹی وی پروگرام، نااہلیاں، گرفتاریاں، تبادلہ وفاداری، جنوبی پنجاب صوبہ کارڈ، سزائیں نیب کی، شفاف مہم اور پھر الیکشن میں ہارنا۔ اب اور کچھ ہے آپ کے ہتھیار خانے میں؟ اور ہاں، یہ بھی فرما دیجیے اگر الیکشن نہ ہار ہوتا توکتنے ن لیگی اسمبلی میں پہنچتے؟
خبر ہے کہ وفاقی حکومت نے دو سال میں 930نئی گاڑیاں خریدیں۔ یہ گاڑیاں سادگی مہم کے تحت ہی خریدی گئی ہوں گی۔ دو سال پہلے حکومت نے وزیر اعظم ہائوس میں موجود چار لگژری بھینسیں بچت اور سادگی پروگرام کے تحت بیچ دی تھیں اور قومی خزانے کو بھاری فائدہ پہنچایا تھا۔ (ویسے سنا ہے کہ اس کے بعد سے جتنا دودھ کا بل آیا اس سے ہر چھ مہینے بعد ایسی چار بھینسیں خریدی اور پالی جا سکی تھیں )چار لگژری بھینسیں بیچ کر نو سو تیس سستی گاڑیاں خریدنا حکومت کی کامیاب پالیسی کا ثبوت ہے۔ گاڑیاں تو آج کل ویسے یہ سستی ہو رہی ہیں۔ ایک اچھی لینڈ کروزر تیس لاکھ میں اور ایک ایکڑ زرعی اراضی بھی سستی مل جاتی ہے۔ ایک اور خبر ہے کہ دبئی میں مقیم سرکار نے لندن اور دبئی میں چالیس کروڑ کے دو فلیٹ خریدے۔ جن کی رسیدیں مل گئی ہیں واللہ سب سے بڑا لطیفہ اور کیا ہو گا۔ ارب ہا ارب روپے کی غیر اشتہاری جائیدادیں اور اثاثے رکھنے والے صاحب اس پر کھل کر ہنسے ہوں گے۔ ارے اے سادہ لوح لوگو، اتنی رقم تو وہ مہینے میں دستر خوان پر خرچ کر دیتے ہوں گے۔