دو برس پورے نہیں ہوئے کہ پنجاب میں چھٹا آئی جی آ گیا۔ حیرت بھری ہاہاکار ہر سو مچی ہے حالانکہ تبادلوں کا یہ سونامی اصل میں تبدیلی ہی کی ایک قسم ہے، وعدہ بھرپور تبدیلی کا تھا، جو اس انداز سے پورا ہورہا ہے۔ بہرحال بہت سے لوگ حیران ہیں کہ سابق آئی جی کو بدلنے کی وجہ کیا ملی۔ لگتا ہے لوگ چھٹے آئی جی کے لیے تیار نہیں تھے، چھٹا آئی جی جس اچانک انداز میں آیا، اس پر لوگوں کو "شاک" لگنا ہی تھا۔ اور اگر شاک لگا ہے تو یہ دراصل لوگوں کی اپنی بے خبری کا نتیجہ ہے۔ وزیراعظم نے تو کئی ماہ پہلے ہی بھرے جلسے میں اعلان کردیا تھا کہ کام نہ کرنے والوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ ارے کمال ہے، آپ کو یاد نہیں آ رہا؟ یاد کیجئے، وزیراعظم نے بھرے جلسے میں کیا کہا تھا؟ فرمایا تھا کہ یہ آئی جی بہت قابل ہے، بہت ایماندار اور پیشہ ور ہے، اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔ لغات سے رجوع کریں تو ان چار نعروں کا یک فکری ترجمہ کیا بنتا ہے۔ موقع کی تلاش تھی، جونہی ملا، اعلان پر عملدرآمد کردیا۔ کہئے، اب نصیحت کی گنجائش کہاں رہی۔
ساری غلط فہمیاں "لغات" سے ناواقفی کا نتیجہ ہے۔ یہ دونوں لغت پڑھ لی جائیں تو وہ سارے اعلانات سمجھ میں آ جاتے ہیں جن کی "تعبیر" پر فکری مغالطے پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب وزیراعظم نے فرمایا تھا کہ ایک کروڑ نوکریاں دیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ اعلان پر عمل کرتے ہوئے وہ ہدف سے آگے نکل گئے۔ دو برس میں اعلان پر عملدرآمد نہیں ہوا لیکن باقی تین بر س میں یہ ہدف بھی عبور ہو جائے گا۔ اسی طرح جب انہوں نے فرمایا کہ قرضے نہیں لوں گا، فرمائیے، یہ اعلان بھی عقل شریف میں آتا کہ نہیں۔ نئی لغات کے مطابق حقیقت کو اوپر لے جائوں گا، کے اعلان کا مطلب یہ تھا کہ معیشت کو گیسی غبارہ بنا کر خلائے بسیط میں پہنچا دوں گا۔ وہ وزیراعظم کے سائیکل پر اتر جانے کا اعلان بڑی کثرت سے کیا کرتے تھے۔ وی آئی پی کلاس یعنی لگثری کلاس میں سفر نہ کرنے کا مطلب چارٹرڈ طیارہ کرانا ہے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ آپ کے مزید فکری مغالطے جن کی تعداد سو سے زیادہ ہوگی اور جنہوں نے آپ کو کنفیوژ کر رکھا ہے اسی لغت فہمی سے۔
پنجاب اور لاہور میں جو نئی تقرریاں ہوئی ہیں، ان معزز افسران کے بارے میں آئی بی اور دیگر خفیہ اداروں کی رپورٹوں کا بھی بہت چرچا ہے۔ رپورٹیں پڑھ کر ایک بات البتہ ماننا پڑتی ہے۔ دونوں افسران تحریک انصاف کے میرٹ پر پورا اترتے ہیں۔
لاہور میں جن صاحب کو تعینات کیا گیا ہے، انہوں نے موٹروے پر خاتون سے ریپ کے واقعے پر کمال کے ارشادات ارشاد فرمائے۔ یاد آیا کہ پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کے بھی ریپ کا شکار ہونے والی خواتین کے بارے میں بھی کچھ ایسے ہی خیالات تھے۔ بہرحال ان ارشادت جمیلہ سے کوتوال صاحب کو میڈیا میں کچھ مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ خیر، اس سے فرق تو کیا پڑے گا، البتہ کچھ تجزیہ نگاروں کی محنت ضائع ہو گئی۔ سنا ہے کہ انہوں نے کچھ الفاظ بھی قلم بند کرلیے تھے کہ موصوف بڑے ہی محنتی اورایماندار ہیں، لیکن کوتوال صاحب کے ارشادات جمیلہ کے بعد انہوں نے اپنے قلم روک لیے اور وہ تشنہ اشاعت رہ گئے یوں تشنہ داد بھی رہ گئے۔
موٹروے پر اس طرح کی جبری عصمت دری کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ اگلے ہی روز ڈاکوئوں نے کمال کے ڈنکے بھی اسی محفوظ ترین شاہراہ پر بجا دیئے۔ درخت کاٹ کر راستہ روکا اوراندھا دھند فائرنگ کر کے لوٹ مار کرتے رہے۔ ایک ٹی وی چینل نے اپنے پروگرام میں بتایا کہ پنجاب میں سنگین جرائم یعنی قتل، ڈکیتی، ریپ، اغوا، بچوں کے قتل کے واقعات میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بھئی اضافہ پچیس فیصد نہیں زیادہ ہوا ہے۔ لیکن چلئے اتنا بھی بتا دینا تبدیلی سے کم نہیں۔
وزیراعظم نے فرمایا ہے، پاکستان کے باہر جتنے محب وطن رہتے ہیں، اتنے پاکستان کے اندر نہیں۔ پاکستان کے باہر نوے لاکھ پاکستانی نژاد رہتے ہیں۔ شریف فیملی کو چھوڑ کر ان سب کو محب وطن مان لیا جائے تو بھی یہ تعداد کم و بیش نوے لاکھ رہتی ہے۔ گویا پاکستان میں محبان وطن کی تعداد نوے لاکھ سے کم ہے۔ کل آبادی 22 کروڑ ہے۔ نوے لاکھ نکالیں تو 21 کروڑ 10 لاکھ غیر محب وطن ہوئے۔ اب ان 21 کروڑ دس لاکھ کا کیاکرنا ہے صاحب!
محب وطن کے ذکر سے ایک سینئر افسر کی یاد آ گئی۔ وہی جو وزیراعظم ہائوس میں بلاوے پر داخل ہوا تو محب وطن تھا، اتنا محب وطن کہ اسے عہد ے میں توسیع کی پیشکش بھی کی گئی لیکن جب وہ باہر نکلا تو غدار مودی کا یار قرار پا چکا تھا۔ مودی کا یار بننے کے لیے کسی مواد کی ضرورت نہیں ہے، بس جو بھی اس کے لیے نرم گوشہ رکھے گا، یا جو سجن جندال کو بلائے گاوہ انھیں کا یار ہے۔ مواد کہاں سے آئے گا۔ بھلا اس کے لیے کسی مواد کی ضرورت بھی ہے، غدار مودی کے یاروں کو اقتدار سے الگ کرنا قابل تعریف بلکہ جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ اب تواور بھی مودی کے یار غدار چن چن کر پکڑے جا رہے ہیں۔