حکومتی وزیر کبھی ظریفانہ بیانات دیتے ہیں اور کبھی ستم ظریفانہ۔ اب اس بیان کو کیا کہیے گا جو ایک ذمہ دار نے دیا ہے۔ ظریفانہ یا ستم ظریفانہ ہے۔ فرماتے ہیں‘ اپوزیشن اپنے بچائو میں مصروف ہے جبکہ ہم لوگ یعنی حکمران عوام کو خوشحال بنانے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ بیان جملہ خبر یہ بھی ہے۔ یعنی موصوف یہ اطلاع دے رہے ہیں کہ عوام کو خوشحال بنانے کی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی‘ انہیں ابھی مزید خوشحال بنایا جائے گا۔ ادھر عوام ہیں کہ خوشحالی کے سیلاب کا پانی ان کے سروں سے گزر رہا ہے اور وہ حد سے زیادہ شکر گزار ہو کر درخواست کناں ہیں کہ حضور‘ اب بس ہو گئی مزید خوشحالی نہیں چاہیے۔ ایک وزیر صاحب کا فرمانا ہے کہ ہمیں مہنگائی کا احساس ہے لیکن پریشانی یا گھبراہٹ کوئی نہیں۔سیدھے لفظوں میں وہ بتا رہے ہیں کہ ہماری روحانیات کی لغت میں احساس نام کی کوئی شے نہیں۔ ورنہ یہ کیسے کہتے کہ احساس تو ہے پر گھبراہٹ نہیں۔ ادھر اخباری اطلاعات ہیں کہ عوام کی خوشحالی میں مزید اور گراں قدر اضافے کے لئے آئی ایم ایف سے فنڈ کے حصول کے لئے عوام پر 300 ارب کے نئے ٹیکس لگائے جانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ یوں بات سمجھ میں آ گئی کہ احساس تو ہے لیکن گھبراہٹ یا پریشانی بالکل نہیں۔
مہنگائی کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نے چند پیاروں کی خاطر عوام کو مہنگائی کے سونامی کے حوالے کر دیا۔ یہ چند پیارے کون ہیں؟کوئی ان کا نام کیوں نہیں لیتا۔ سراج الحق نے بھی نہیں لیا اور بلاول بھٹو زرداری نے کبھی گریز برتا۔ بلاول کا بیان ہے حکومت نے معیشت کو تباہ کر دیا۔ اخبارات میں بھی کوئی ان پیاروں کا نام نہیں لے رہا۔ البتہ اشارے ضرور کئے جا رہے ہیں۔ ان اشاروں کی مدد سے کوئی پیاروں کی پہچان کر سکے تو کر لے نہ کر سکے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ چار تو وہ ہیں جو شکر سازی کے اجارہ دار ہیں۔80 فیصد چینی انہی کی ملوں میں پیدا ہوتی ہے اور یہ چاروں تحریک انصاف میں شامل ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جو وزیر نہ ہو کر بھی متحرک ہیں۔ دوسرے سرائیکی صوبہ کے علمبرداری کے ساتھ قاف لیگ سے پی ٹی آئی میں آئے۔ تیسرے ایک عظیم فاتح کے فرزند ارجمندہیں۔ چوتھے ایک صاحبزادے ہیں۔باقی کے کارخانوں کے مالک بھی حکومت میں ہیں اور سندھ میں جی ڈی اے کے کچھ مالکان بھی۔ شریف فیملی کی شوگر ملز کبھی راج کیا کرتی تھیں‘ اب قصہ پارینہ بن گئیں کچھ تو بند ہو گئیں۔ دو چل رہی ہیں لیکن اتنی کم پیداوار کے ساتھ کہ انہیں مل کہنا‘ مل کے نام پر بٹہ لگانا ہے۔ مثلاً ایک سرکاری پیارے کی مل اگر ایک لاکھ 37 ہزار ٹن یومیہ پیداواری صلاحیت رکھتی ہے تو شریف خاندان کی ایک مل دس ہزار‘ دوسری آٹھ ہزار ٹن کی پیداوار پر آ گئی ہے۔چنانچہ یہ پانچ پیارے اشاروں کی مدد سے پہچاننے کی کوشش فرما لیجیے۔ مزید نشانی یہ ہے کہ ان پانچوں میں سے تین کے چہروں پر آٹا میدے کی سفیدی بھی ملی ہوئی ہے۔ آٹے کی مد میں جو خوشحالی آئی ہے اس کا سہرا بھی انہی کے سر ہے۔
وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ مہنگائی کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہو گی۔بالقین یہ پانچ پیارے اس سزا کی زد میں نہیں آ سکتے۔ پھر سزا کسے ہو گی؟ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ سازش ہوئی ہے۔ سازش کس نے کی؟ شاید فضل الرحمن نے یا شاید سراج الحق نے۔ مسلم لیگ کو سزا مل چکی اور بڑی حد تک پیپلز پارٹی کو بھی۔ باقی یہی دو رہ گئے۔ انہی کو سزا ملے گی یا پھر عوام کی سزا میں اضافہ کر دیا جائے۔ اس لئے کہ بے شک انہیں رلا دیا۔ ان کی چیخیں بھی نکلوا دیں لیکن ابھی ان چیخوں سے سرکار کو پورا مزا نہیں آیا: وزیر اعظم کا اعلان پورے مزے کی تمہید ہے۔
حکومت نے اعلان کیا ہے کہ سستائی کے لئے 50 ہزار دکانیں کھولی جائیں گی۔ احباب اس سنجیدہ اعلان کو غیر سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور اسے حکومت کی حس مزاح سے تعبیر کر رہے ہیں جو کہ غلط ہے۔ یہ اعلان سنجیدہ ہے۔ اتنا یہ سنجیدہ جتنا ایک کروڑ نوکریوں کا اعلان تھا۔ جتنا 50 لاکھ گھر بنانے کا اعلان تھا‘ جتنا لوٹے ہوئے اربوں ڈالر باہر سے لانے کا اعلان تھا اور جتنا غیر ملکی قرضے نہ لینے سمیت اور باقی سب اعلانات تھے۔ اور ان اعلانات کی سنجیدگی پر تو کوئی شک کرنے کی گنجائش ہی نہیں۔ ویسے برسبیل تذکرہ‘ ان دکانوں پر‘ اگر کبھی کھل بھی گئیں‘ چیزیں کیا بھائو بکیں گی؟ یوٹیلیٹی سٹورز پر کچھ پر کچھ ہفتے پہلے اربوں ڈالر کا ریلیف پیکیج دینے کا سنجیدہ اعلان ہوا۔ لوگ خریداروں کے لئے گئے تو خالی شلفیں ان کا منہ چڑا رہی تھیں۔
خبر ہے کہ جنوبی پنجاب کے ارکان اسمبلی ڈیڑھ سال گزر جانے کے باوجود سرائیکی صوبہ نہ بنانے پر ناراض ہیں۔ کوئی انہیں سمجھائے کہ سرائیکی صوبہ‘‘ بنانے کا نعرہ ایک پر ینک Prank تھا اور وسیع تر قومی مفاد میں کی جانے والی انتخابی انجینئرنگ کا ایک چھوٹا سا باب۔ رات گئی‘ بات گئی۔ اب بات بڑھانے کا فائدہ۔