Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. 92 News/
    3. Qaumi Khasara

    Qaumi Khasara

    تعریف کرنے میں کفایت شعاری کرنے والے احباب کو کچھ فراخدلی دکھانی چاہیے اور اس بات پر حکومت کی ستائش کرنی چاہیے کہ اس نے حالیہ بجٹ میں عوام کے مختلف طبقات کو اطمینان بخش حد تک ریلیف دیا ہے۔ مثال کے طور پر سرکاری ملازمین کو یہ شاندار ریلیف ملا کہ ان کی تنخواہوں میں کوئی کمی نہیں کی گئی حالانکہ کئی بدخواہ یہ بتا رہے تھے کہ تنخواہوں میں کٹوتی ہو گی۔ دیکھ لیجیے ایسا کچھ نہیں ہوا اور تمام سرکاری ملازمین نے یہ سن کر اطمینان کا سانس لیا کہ ان کی تنخواہیں محفوظ ہیں اور محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ اطمینان کے سانس ہی کو ریلیف کہتے ہیں۔

    تاجروں، صنعت کاروں اور کاروباری حضرات کو یہ ریلیف ملا کہ وہ بدستور گھروں میں تشریف رکھیں اور اطمینان کے لمبے لمبے سانس لیتے رہیں۔ اخبار کی سرخی ہے کہ بجٹ میں صنعتوں اور کاروبار کو چالو کرنے کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔ اربے بھئی، یہی بات تو قابل تعریف ہے کاروبار چالو ہو جائے صنعتیں چل پڑیں تو سب طرف آپا دھاپی، افراتفری پھیل جائے گی۔ دن بھر کی مصروفیت اور رات کو اگلے دن کی مصروفیات کی فکر۔ اس فکر سے نجات دلا کر حکومت نے دراصل ان طبقات کو ریلیف دیا ہے۔

    مجموعی طور پر عوام کے لئے ایک ہزار ارب روپے کا ریلیف ہے۔ اگرچہ اعلانیہ نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا لیکن ماہرین نے بتایا ہے کہ غیر اعلانیہ طور پر ایک ہزار ارب کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ حکومت چاہتی تو دو ہزار ارب روپے کے غیر اعلانیہ ٹیکس لگا سکتی تھی لیکن صرف ایک ہزار ارب کا ٹیکس لگایا، یوں عوام کو ایک ہزار ارب کا ریلیف مل گیا۔ ریلیف اور بھی بہت سے ہیں لیکن لکھنے سے فائدہ نہ پڑھنے سے۔ آنے والے دنوں میں یہ سارے ریلیف جب عوام اپنی دہلیز پر دیکھیں گے تو جان جائیں گے کہ انہیں کیا کیا ملا ہے۔

    "تاریخی خسارے" کا بجٹ بعض اخبارات نے یہ سرخی جمائی ہے وہ چاہتے تو اسے خسارے کا تاریخی بجٹ کہہ سکتے تھے یا پھر خسارے کی تاریخ یا تاریخ کا خسارہ بھی کہہ سکتے تھے۔ بہرحال یہ سب الفاظ کا ہیر پھیر ہے۔ گلاب کو جس نام سے پکاریں گلاب ہی رہے گا۔ کوئی انصاف پسند ہوتا تو یوں سرخی جماتا، عمران نے تاریخ بنا دی۔ تاریخ سازی اسی کو کہتے ہیں۔ جہاں تک خسارے کے لفظ کا تعلق ہے۔ عشاق کے ہاں اسے نفع اور فائدہ مانا جاتا ہے۔ زیاں کو سود کہو، سود کو زیاں مت کہو والا معاملہ ہے بجٹ کے فوراً بعد ہر شے مزید مہنگی ہو گئی۔ اسے بھی سود ہی کہیے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں دو سالہ خسارے کی مختصر ترین تاریخ بتائی جا رہی تھی۔ سات سو سے زیادہ دنوں کی تاریخ محض سات منٹ کے کلپ میں کچھ یوں تھی کہ پی آئی اے کو تاریخی خسارہ، واپڈا کو تاریخی خسارہ، ریلوے کو تاریخی خسارہ اور نہ جانے کتنے اداروں کو تاریخی خسارہ۔ پی آئی اے کے بارے میں دو ماہ پہلے ایک حکومتی وزیر نے پریس کو بتایا تھا کہ نئے چیئرمین ادارے کے لئے بھاگ بھرے ثابت ہوئے ہیں۔ خسارہ کم ہوا ہے۔ منافع بڑھ گیا ہے۔ لیکن جو رپورٹ پچھلے ہفتے خود سرکار نے وزیر اعظم کو دی اس سے پتہ چلا کہ دوبرس میں پی آئی اے کے خسارے نے تاریخ رقم کر دی ہے۔ یعنی یہاں بھی تاریخ سازی ہو گئی۔ مجموعی طور پر خساروں کا وفود کچھ ایسا ہے کہ ازراہ محبت پی ٹی آئی کویہ مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنا نام تبدیل کرے۔ وہ تبدیلی کی علمبردار تو ہے ہی، تبدیلی لا بھی رہی ہے تو اپنا نام بدل کر۔ تبدیلی کی تاریخ میں نیا باب رقم کر سکتی ہے۔

    خسارے کے ضمن میں بتایا گیا ہے کہ گروتھ ریٹ جو دو اڑھائی سال پہلے تک 6فیصد کو چھو رہا تھا، اب رجعت قہقری کرتے ہوئے منفی 0.38پر آ گیا ہے۔ ماشاء اللہ چشم اپوزیشن دور۔ یہ کریڈٹ صرف اور صرف کپتان کو جاتا ہے، کوئی ناہنجار اسے کورونا کے سر باندھنے کی زیادتی نہ کرے۔ جنوری میں کورونا کہاں تھا؟ پاکستان کا گروتھ ریٹ تبھی منفی کی حد سے گزر چکا تھا اب تو اور پیشرفت ہوئی ہے۔ 0.38منفی کی اطلاع سرکاری ہے۔ اسحق ڈار نے کہا ہے کہ اصل میں اس سے بھی زیادہ ہے یعنی منفی ایک اور منفی ڈیڑھ کے درمیان۔ ایک شعر یاد آیا ؎

    بال و پر دوچار دکھلا کے کہا صیاد نے

    یہ نشانی رہ گئی ہے اب بجائے عندلیب

    شعر بہت اچھا ہے لیکن ہمارے حالات کی تصویر پر پورا پورا فٹ تونہیں بیٹھتا۔ اس لئے کہ شعر میں عندلیب کے دو چار ٹوٹے پھوٹے پر تو بچ ہی گئے تھے۔ عندلیب بھلے ہی کالعدم ہو گئی تھی۔ یہاں تو بال و پر کیا۔ مرحومہ معیشت کی سرے سے کوئی نشانی نہیں بچی۔

    بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک مذہب پسند عوام نے مذہبی اصطلاحات کا استعمال کیا۔ فرمایا سال گزشتہ عوام کے زندہ درگور ہونے کا سال تھا۔ سال رواں عذابِ بر کا سال ہے۔ بات تو ٹھیک ہی کہی۔ قبر میں جانے سے کہانی ختم نہیں ہو جاتی بدنصیبوں کے لئے عذاب کا باب کھلتا ہے۔

    فرمایا کورونا سے مرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ پھر اسی خطاب میں فرمایا کہ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ اتنے لوگ مر جائیں گے۔ دونوں باتیں سن کر کسی ناقد نے فرمایا، اسے تضاد بیانی کہتے ہیں۔ ناقد کو جواب دیتے ہوئے انصاف پسند نے فرمایا، جی نہیں،۔