آزاد کشمیر کے صدرسردار مسعود احمد خاں نے بتایا ہے کہ ہم ماضی میں چھ بار کشمیر کے لئے جہاد کر چکے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ کشمیر کی آزادی کے لئے جہاد کا اعلان کیا جائے۔ یعنی ساتواں جہاد شروع کیا جائے۔ ایک معاصر کی رپورٹ ہے کہ اسلامی کانفرنس کے ایک بھی رکن ملک نے بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر نہیں اٹھایا۔ یعنی ترکی نے بھی نہیں۔
حالانکہ ترکی اکیلا ملک ہے جو کشمیریوں کے حق میں بھارت کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے اور اتنے زور دار طریقے سے کہ بھارت اس سے ناراض ہو گیا ہے۔ خیر، یہ جملہ معترضہ تھا، اصل بات کہنے کی یہ ہے کہ تینوں بیانات اور خبر مسئلہ کشمیر کی صورتحال کی جامع تصاویر بناتے ہیں۔ سردار مسعود نے جن چھ جہادوں کا ذکر کیا ہے، اس کی تفصیل معلوم نہیں۔ شاید وہ ان میں آپریشن جبرالٹر کو بھی شامل کر رہے ہیں جو ایوب خاں نے 65ء میں شروع کیا تھا۔ بس یہ ایڈونچر کشمیر کی آزادی کے لئے نہیں تھا۔ مادر ملت کو دھاندلی اور زور آوری سے صدارتی انتخابات میں شکست دے چکے تھے جس پر عوام کے اندر غم اور غصے کا لاوا ابل رہا تھا۔ اس سے قبل کہ یہ لاوا پھوٹ بہتا، شاطر ایوب خاں نے یہ آپریشن شروع کر دیا۔ نتیجے میں بھارت سے جنگ شروع ہو گئی اور پاکستان کو ناقابل برداشت حد تک نقصان پہنچا۔ یہ کشمیر کاز کے تابوت میں پہلی کیل تھی۔ اس لئے کہ ایوب خاں نے جنگ بندی کی بھیک مانگی۔ سوویت یونین نے ہماری مدد کی اور اعلان تاشقند ہوا۔ پاکستان اس وقت کی سیز فائر لائن پر کئی اہم چوٹیوں سے دستبردار ہوا اور سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اعلان تاشقند کی دستاویز میں پاک بھارت جنگ چھیڑنے کی تاریخ ستمبر نہیں بلکہ اگست بتائی گئی یعنی آپریشن جبرالٹر کی تاریخ اور اس طرح ایوب خاں نے اقوام عالم کے روبرو تسلیم کر لیا کہ جارح بھارت نہیں، پاکستان تھا۔ آنے والے وقتوں میں یہ شرمناک اعتراف کشمیر کاز کے لئے عالمی ہمدردی میں کمی کا باعث بنا۔
دوسرے جہادوں میں وہ "جہاد کشمیر" بھی شامل ہے جو جماعت اسلامی (حزب المجاہدین) لشکر طیبہ اور جیش محمد کے ذریعے کروایا گیا۔ نتیجہ وادی پر بھارتی شکنجے میں سختی کی صورت نکلا۔ دسیوں ہزار جوان ادھر سے بھی اور ادھر سے بھی شہید ہوئے۔ بھارت میں اس کا ردعمل مسلم دشمن طاقتوں کے عروج کی صورت میں نکلا۔ عالمی سطح پر اس جہاد نے پاکستان کے موقف کی بین الاقوامی حمایت تقریباً ختم کر کے رکھ دی جو کارگل کے ایڈونچر نے بالکل صاف کر دی۔ آپریشن جبرالٹر کی طرح کارگل ایڈونچر بھی اندرونی سیاست سے متعلق تھا نہ کہ کشمیر کی آزادی سے۔ پرویز مشرف اقتدار پر قبضہ کے لئے بے تاب تھا اور اس نے یہ راستہ چنا۔ اس لئے نواز شریف سے یہ فقرہ منسوب ہوا کہ کشمیر کی آزادی کا راستہ کارگل سے ہو کر نہیں جاتا۔ یہ تو ٹھیک لیکن کارگل سے ہو کر جانے والا راستہ مشرف کو اقتدار کے ایوان میں ضرور لے آیا اور اب یہ جو خبر آئی ہے کہ اسلامی کانفرنس میں ایک بھی رکن مسئلہ کشمیر بھارت کے ساتھ اٹھانے کو تیار نہیں تو یہ کشمیر کاز پر پاکستان کی علامتی تنہائی کی رسید ہے۔ سعودی عرب جیسا ملک بھی ہمارا ساتھ نہیں دے رہا۔ ترکی کشمیر کاز سے مخلص ہے لیکن ایک بے فائدہ پیش رفت کر کے وہ بھارت کو ایک حد سے زیادہ مخالف نہیں بنا سکتا۔ پچھلے برس اسلامی کانفرنس نے کشمیر پر اجلاس بلانے تک سے انکار کر دیا تھا۔ چین کی تمام تر دلچسپی لداخ کے ساتھ ہے۔ لداخ پر بھارت چین کا موقف مان لے تو سارا گلہ جاتا رہے گا۔ باقی کشمیر کے ساتھ اس کی دلچسپی رسمی ہے۔ اس ہفتے مہاتیر محمد کا زور دار بیان بھارت کے خلاف آیا لیکن وہ سابق حکمران ہیں اور اخیر عمر کی سیاسی قلابازیوں، عہد شکنیوں اور حیرت انگیز سیاسی بے اصولیوں کے باعث ملائشیا کے عوام کی نظروں سے گر چکے ہیں۔ عمر کے دسویں عشرے میں وہ نئی سیاسی جماعت بنا رہے ہیں، آنے والے الیکشن میں یہ جماعت ایک دو سیٹیں بھی جیت لے تو معجزہ ہو گا۔
مسئلہ کشمیر کے حل کا آخری موقع بھارتی وزیر اعظم واجپائی کی لاہور آمد پر ملا تھا جسے پرویز مشرف نے قاضی حسین احمد کی مدد سے ناکام بنا دیا اور مقبوضہ کشمیر پر لمبی گہری کالی رات کے مستقل ہونے کی راہ ہموار کر دی۔
محب وطن حلقے یہ خوشخبری سناتے نہیں تھکتے کہ زنجیریں ٹوٹنے والی ہیں مگر کیسے؟ آزادی کشمیر کے لئے دو میں سے ایک راستہ چننا ہو گا، تیسرا راستہ کوئی چنے گا بھی نہیں۔ ایک یہ کہ بھارت پر عالمی دبائو ڈالا جائے لیکن عالمی دبائو الٹا ہم پر ہے۔ کوئی ملک ہمارا ساتھ نہیں دے رہا۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ ہم بھارت پر حملہ کر دیں اور کشمیر چھین لیں۔ اس راستے پر کسی اور کو تبصرہ کرنے کا حق نہیں ہے، محب وطن اسلامی دانشور، خاص طور پر غزوہ ہند کے علمبردار ہی رائے دے سکتے ہیں، بالخصوص جولائی 2019ء میں وائٹ ہائوس میں ہونے والی "کشمیر کیمپ ڈیوڈ" کی ون ٹو ون ملاقات اور مفاہمت کی روشنی میں!
کوئی بھی غلام ملک بیرونی حملے کے بغیر آزاد نہیں ہوا۔ بوسنیا والوں نے ایک لاکھ جانوں کا نذرانہ دیا۔ جو تناسب کے اعتبار سے دنیا میں سب سے بڑی قربانی ہے۔ تب بوسنیا کی کل مسلم آبادی پندرہ لاکھ تھی۔ لیکن آزادی تب ملی جب سعودی عرب نے بے تحاشا مالی امداد دی، اس کی اہم شخصیات نے مسلح جدوجہد کے کیمپ بنائے اور امریکہ کی کلنٹن انتظامیہ نے غاصب سربیا پر بمباری کی۔ جنوبی ویت نام کو آزادی دلوانے میں چین اور روس نے شمالی ویت نام کی مدد سے مسلح کردار ادا کیا۔ شمالی ویت نام سے کمبوڈیا(اب کمپوچیا) کے راستے ہتھیاروں اور گوریلوں کی پائپ لائن بنائی جسے ہوچی مینہ ٹریل کہا جاتا ہے۔ عالمی رائے عامہ بھی امریکہ کے خلاف تھی۔
فی الحال ہمارے لئے واحد قابل عمل راستہ سال کے سال ایک ٹویٹ جاری کرنا، ایک ملی نغمہ لانچ کر دینا اور اسلامی دانشوروں کا یہ نعرہ حق ہی رہ گیا ہے کہ اے لوگو، سنو، کشمیر کی آزادی کا وقت آ پہنچا ہے۔