حکومت نے تیل سستا کیا ہے یا مہنگا؟ ہم عام لوگوں کو تو معلوم نہیں لیکن حساب کتاب لگانے والے ایک صاحب کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمت جتنی گر چکی ہے، اس کے بعد تو پاکستان میں تیل فی لٹر 30 روپے سستا ہونا چاہیے تھا لیکن حکومت نے پانچ روپے ہی سستا کیا ہے یعنی 25روپے کی پھر واردات کر گئی ہے۔ ایک اور رپورٹ یہ ہے کہ دس سے بارہ روپے سستا ہونا چاہیے تھا یعنی حکومت نے 25نہیں 6روپے فی لٹر کی واردات کی ہے۔ اب پتہ نہیں کون سا حساب درست ہے۔ البتہ یہ سب کو معلوم ہے کہ نواز دور میں عالمی قیمت تیل کی 51 ڈالر فی بیرل تھی اور پاکستان میں تیل 71 روپے لٹر بک رہا تھا۔ اب عالمی منڈی میں 47 روپے بیرل ہے یعنی نواز دور سے بھی 4روپے سستا لیکن پاکستان میں یہ ایک سو گیارہ روپے فی لٹر مل رہا ہے۔ ، یوں دیکھو تو نواز دور کے مقابلے میں تیل چالیس روپے فی لٹر مہنگا ہے اور عالمی قیمت کو دیکھو تو لگ بھگ 45 روپے مہنگا ہے۔ بہرحال، وہ چوروں کی حکومت تھی۔ یہ سچے لوگوں کی حکومت ہے۔ موازنہ کرنا ٹھیک نہیں۔
یاد آیا، نواز دور میں عمران خاں نے کئی تقریریں کی تھیں کہ حکومت مہنگا تیل بیچ رہی ہے، ہم آئیں گے تو تیل سستا کر دیں گے۔ بہت سے لوگ ان تقریروں کو اب یاد کرتے ہیں لیکن بہت سے ان تقریروں کو بھول چکے ہیں۔ بھول جانا ہی بہتر ہے۔ یاد رکھنے میں دل دکھتا ہے۔ اس لئے تو کہتے ہیں کہ نسیان کی بیماری ایک نعمت ہے اور اسی لئے تو غالب نے دعا کی تھی کہ چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔ تیل ہی نہیں، بجلی پر بھی عمران خاں نے ایسی ہی تقریریں کیں تھیں۔ تب بجلی آٹھ روپے یونٹ تھی اور عمران خاں ہر جلسے میں کہا کرتے تھے، چوروں کی حکومت ہے جو اتنی مہنگی بجلی بیچ رہی ہے۔ یہ حکمران اپنی چوری کی قیمت بجلی مہنگی کر کے وصول کر رہے ہیں۔ ہم آ کر یہ چوری ختم کر دیں گے اور بجلی سستی کر دیں گے۔ سستی یعنی آٹھ روپے سے کم۔ سات روپے یونٹ یا پھر شاید چھ روپے یونٹ۔ کون جانتا تھا کہ یہ آئیں گے تو آٹھ روپے کی بجلی 28 روپے کی کر دیں گے اور پھر اسے ریلیف کا نام دیں گے۔ چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔
بجلی پر ایک اور بات بھی یاد آئی۔ آج کے حکمران کہا کرتے تھے کہ حکومت سستی بجلی خرید کر مہنگے داموں بیچ رہی ہے۔ اب وہی حکمران کہتے ہیں کہ ماضی کے حکمرانوں نے مہنگی بجلی سب سڈی دے کر عوام کو سستے داموں بیچی۔ اس لئے گردشی قرضہ بڑھ گیا۔ کون سی بات سچ ہے؟ بات دراصل یہ ہے کہ ہر دور کا اپنا سچ ہوتا ہے۔ اس دور کا سچ وہ تھا، اس دور کا سچ یہ ہے۔ اور ہاں، یاد آیا، سستی بجلی بیچنے کی وجہ گردشی قرضہ بڑھنے کی بات بھی خوب ہے۔ گردشی قرضہ تب لیا تھا اور اب جبکہ بجلی کے فی یونٹ پر حکومت 20 روپے اضافی لے رہی ہے کتنا ہے؟ خیر سے 1330 ارب ہو گیا ہے۔ اب کئی گناہ بڑھ چکا ہے۔ یعنی بجائے کم ہونے کے کہیں زیادہ بڑھ گیا۔
بجلی کی قیمت ابھی اور بڑھنے والی ہے۔ 25 فیصد اضافے کا اصولی فیصلہ ہو گیا ہے یعنی 28 روپے کا یونٹ 35 کا ہو جائے گا۔ خود وزیر اعظم نے دو ہفتے پہلے اعلان کیا کہ ہم بجلی اور بھی مہنگی کریں گے۔ یہ بیان یاد آیا؟ ارے بھئی وزیر اعظم نے کہا تھا اب بجلی مہنگی نہیں کریں گے۔ جب وہ کہتے ہیں کہ کروں گا تو مطلب ہوتا ہے نہیں کروں گا اور جب وہ کہتے ہیں کہ نہیں کروں گا تو مطلب ہوتا ہے کہ کر کے چھوڑوں گا۔ چنانچہ وزیر اعظم کے بیان کا مطلب یہ تھا کہ بجلی اور بھی مہنگی کروں گا، پھر اور مہنگی کروں گا اور اس کے بعد اور بھی مہنگی کروں گا۔
پچھلے ہفتے نورالحق قادری کی وزارت نے خاموشی سے حج فارم میں ختم نبوت والا خانہ ختم کر دیا۔ ایک اخبار نے خبر چھاپی، باقی سب نے بلیک آئوٹ کیا۔ پھر عوامی حلقوں میں ہلچل مچی تو حکومتی ترجمان نے کہا کہ جو فارم نیٹ پر گردش کر رہا ہے جعلی ہے۔ حکومت نے ایسا کوئی اقدام نہیں کیا۔ پھر ایک اور حکومتی ذمے دار کی تردید بھی آئی۔ دو روز قبل مجلس ختم نبوت والے میدان میں اتر آئے۔ پھر جماعت اسلامی نے تحریک التوا پیش کر دی تو نور الحق قادری حرکت میں آئے اور اعلان کر دیا کہ ختم ہونے والا خانہ بحال کر دیا ہے۔ یعنی تین باتیں ہوئیں۔ ایک تو یہ کہ حکومتی تردیدیں جھوٹ تھیں۔ دوسری یہ کہ اگر ختم نبوت اور جماعت اسلامی والے دہائی نہ مچاتے تو خانہ ختم ہی رہتا اور قادری صاحب چپ کا روزہ رکھے رہتے اور تیسری بات تو یکے از کمالات ہے۔ انہوں نے فرمایا افسروں نے بالا بالا یہ خانہ ختم کر دیا، میرے نوٹس میں آئی تو ایکشن لے لیا۔ یعنی کمال دیکھیے حکومتی اور وزارتی تاریخ میں یہ عجوبہ پہلی بار ہوا کہ حج فارم جیسی بنیادی اہمیت کی دستاویز وزیر کے دستخط کئے بغیر ہی، افسروں نے ازخود جاری کر دی۔ کراچی کے ایک معاصر نے لکھا ہے کہ یہ باریک واردات تیسری بار کی گئی اور تینوں بار ناکام ہوئی۔ ناکامی اور کامیابی تو قسمت سے ہوتی ہے باریک کام کی صناعی کی داد دینا ہی پڑے گی۔
نیب نے سابق وزیر خورشید شاہ کے ان مرحوم بھائی کو تفتیش کے لئے بلا لیا جن کا انتقال 8سال پہلے ہو چکا ہے۔ یعنی نیب کی تفتیش کتنی معیاری ہے یہ راز ایک بار پھر کھل گیا۔ ایک بار پھر اس لئے کہ اس سے پہلے بھی ڈیڑھ درجن بھر بار یہ راز کھل چکا ہے۔ کتنے ہی کیس کھلے پھر کہیں کے نہ رہے۔ یہاں تک کہ عدالتوں کو بھی بار بار پوچھنا پڑا۔ اس معیار کے معماروں کی صلاحیت کے کیا کہنے۔ ایک سابق وزیر اعظم کو سال بھر اندر رکھا اور عدالت کو بتایا کہ ابھی تفتیش شروع ہی نہیں کیا۔ معیار ہی معیار۔ سر سے پائوں تک