Safarat Kari Kahan Hai
Abdullah Tariq Sohail103
بھارتی جارحیت کے بعد سے دونوں ملکوں میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ بالاکوٹ کے علاقے میں جارحیت کے اگلے روز بھارت نے پھر فضائی خلاف ورزی کی جس کا خمیازہ اسے دو طیاروں کی تباہی اور دوپائلٹوں کی گرفتاری کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ سب کی دعا ہے اور امید بھی کہ جنگ کی نوبت نہ آئے لیکن فضا بتا رہی ہے کہ خطرہ قریب آ رہا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو سب سے زیادہ ضرورت کامیاب سفارت کاری کی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکہ سے امید باندھ رکھی ہے۔ کہا ہے کہ وہ کشیدگی کو بڑھنے سے روکنے میں اپنا کردار ادا کرے گالیکن اس کی آشیر باد تو بدستور بھارت کے ساتھ ہے۔ پلوامہ واقعہ پر اس نے بھارت کو حملے کے لئے یہ کہہ کر اکسایا کہ اسے اپنے دفاع میں کارروائی کا اختیار ہے۔ بالا کوٹ میں بھارتی جارحیت پر اپنے تبصرے میں اس نے اسے انسداد دہشت گردی کا آپریشن قرار دیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ دونوں ملک تحمل سے کام لیں۔ یہی فقرہ چین نے بھی کہا ہے حالانکہ پاکستان کو اس سے بالکل مختلف کی امید تھی۔ بھارت نے کھلی جارحیت کی۔ پاکستان کے اندر آ کر بم گرائے۔ یقینی توقع تھی کہ چین اس جارحیت کی مذمت کرے گا لیکن اس نے دونوں ملکوں کو تحمل کا مشورہ دے کر جارح اور مجروح کو ایک ہی صف میں رکھا۔ تازہ اطلاع ہے کہ ایران نے پاکستانی سرحد سے منسلک اڈوں پر اپنے جنگی طیارے تعینات کر دیے ہیں۔ اس علاقے میں ایران بھارت جنگی مشقوں کا منصوبہ بھی ہے۔ اس کے باوجود سعودی عرب نے بھارتی جارحیت کی مذمت نہیں کی۔ ایک خاموشی سی چھائی ہے جو ماضی کے پاک سعودی تعلقات میں پہلے کبھی نہیں تھی۔ سعودی سرمایہ کاری کے بڑے بڑے منصوبوں کے بارے میں بھی کچھ لوگ خدشات ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ محض کاغذی اطلاعات ہیں۔ سعودی ولی عہد نے پاکستان کے دورہ میں کہا کہ انہیں سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر سمجھا جائے لیکن یہی سفیر صاحب بھارت گئے تو مودی کے ساتھ رکھشا بندھن کر لیا۔ یورپی یونین نے بھارتی جارحیت کی حمایت کی ہے۔ پوری دنیا میں ایک ملک بھی بھارتی جارحیت کی مذمت نہیں کر رہا۔ یہاں تک کہ ترکی بھی خاموش ہے۔ اسلامی کانفرنس ابھی تک اطلاع کے مطابق بھارت کو مہمان خصوصی کا درجہ دینے کے ارادے سے پیچھے نہیں ہٹی۔ یہ بھی حیرانی کی بات ہے، ساتھ ہی صدمے کی تھی۔ ہماری سفارتی پالیسی اس مرحلے میں کیسے داخل ہوئی۔ سارا الزام وزیر خارجہ اکیلے پر نہیں لگ سکتا۔ حکومت کی مجموعی خارجہ پالیسی ہی کمزور ہے اور کچھ ماضی کا وہ ورثہ بھی جس کی بنیاد پرویز مشرف نے رکھی۔ فی الوقت لگ رہا ہے کہ حکومت خارجہ میدان میں کسی بات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔ اس کے بجائے وہ قرضے لینے کو خارجہ پالیسی کی کامیابی سمجھ رہی ہے۔ ایک صاحب کو ٹی وی پر یہ کہتے سنا کہ حالیہ مہینوں میں عمران خاں کی حکومت نے خارجہ پالیسی کے میدان میں زبردست "اچیومنٹس" Achicvementحاصل کی ہیں۔ تفصیل یہ بتائی کہ سعودی عرب سے قرضہ لیا۔ متحدہ عرب امارات سے قرضہ لیا اور اب آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے والا ہے۔ گویا اڑھائی اچیومنٹس۔ ملکی نہیں، پوری عالمی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی حکومت قرضے لینے کو سفارتی اچیومنٹ کہہ رہی ہے اور اسے کامیاب خارجہ پالیسی قرار دے رہی ہے۔ ایسا ہے تو بتایا جائے، 1958ء اور اس کے بعد کی کون سی حکومت ہے جس نے یہ اچیومنٹس حاصل نہیں کیں۔ گویا ہر حکومت ہی زبردست کامیاب خارجہ پالیسی چلاتی رہی ہے۔ ہاں 1958ء سے پہلے کی حکومتیں اس حساب سے ناکام کہی جا سکتی ہیں کہ انہوں نے کوئی غیر ملکی قرضہ نہیں لیا اور اچیومنٹ حاصل کرنے سے محروم رہیں۔ لاہور کراچی سمیت بڑے شہروں کے ٹریفک سگنلز پر آپ کو کامیاب سفارت کاروں کے غول ملیں گے جو اشارے بند ہوتے ہی ٹوٹ پڑتے ہیں اور زبردست سفارتی اچیومنٹس حاصل کرنے کے بعد ہی ٹلتے ہیں۔ ہاں اتنا اعتراف کرنا پڑے گا کہ سفارتی اچیومنٹس کے معاملے میں موجودہ حکومت بازی لے گئی ہے۔ اس نے فی یوم کے حساب سے سب سے زیادہ قرضے لئے ہیں اور اب غیر ملکی قرضوں کا حجم ماشاء اللہ ایک کھرب ڈالر ہونے میں تنکا برابر کسر ہی رہ گئی ہے۔ سفارت کاری کے بعد دوسری ضرورت دشمن دار ملک کو مضبوط معیشت کی ہوا کرتی ہے اور وہ خیر سے عمرانی حکومت نے کامیابی سے پیوندزمین کر دی ہے۔ کاروبار ٹھپ، بے روزگاری کا سونامی ہے، بلوں میں کئی کئی گنا اضافوں نے مڈل کلاس کی قوت خرید بھی کالعدم کر کے رکھ دی ہے۔ سرمایہ کاری نہیں ہو رہی الٹا سرمایہ باہر کو جا رہا ہے۔ کوئی ترقیاتی منصوبہ زیر عمل نہیں رہنے دیا گیا۔ نجی شعبہ بھی منجمد کر دیا گیا ہے۔ مضبوط معیشت تو دور کی بات، لنگڑی لولی معیشت بھی سہانا خواب بن گئی ہے۔ دشمن دار ملک کو تیسری ضرورت اندرونی اتحاد اور یک جہتی کی ہوتی ہے۔ اس کا حال سب کے سامنے ہے۔ اپوزیشن کا دم ہے کہ اس نے حکومت کی مسلسل یلغار اور شبانہ روز کی "عزت افزائی" کے باوجود ان حالات میں ہر بات بھلا دینے کا اعلان کیا اور یوں اتحاد کی فضا پھر سے بنا دی ورنہ حکومت نے کیا کسر چھوڑی تھی۔ ایسے حالات سے "الیکٹڈ" حکومت ہی نمٹ سکتی تھی لیکن کرم فرمائوں کی مہربانی سے "سلیکٹڈ" حکومت نافذ ہے اور وہ یہی کچھ کر سکتی تھی جو کر رہی ہے۔