Sunday, 22 December 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Sag Nama

Sag Nama

امریکی شہر لاس اینجلس سے کل پرسوں یہ خبر آئی کہ وہاں ایک شخص کو کسی مشہور گلوکارہ کے ایک کتے کو گولی مارنے، دوسرے کو چوری کرنے پر 21 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ گلوکارہ کا نام لیڈی گاگا ہے جو بہت مقبول اور بااثر گلوکارہ ہے۔ خبر کو اجمالاًپڑھنے سے پتہ نہیں چلتا کہ سزا محض کتے کو گولی مارنے پر ہوئی ہے یا اس بات پر کہ اس نے لیڈی گاگا کے کتے کو زخمی کیا، لیکن ظاہر ہے، ایسا نہیں ہے۔

یہ امریکہ کی خبر ہے جہاں جانور کو بے رحمی کا نشانہ بنانے پر سزا ملتی ہے۔ ہاں، ہمارے پیارے دیس کی بات کچھ اور ہے۔ یہاں جانور کو اذیتناک موت دینے پر کوئی سزا سرے سے ہے ہی نہیں۔ بظاہر قانون میں تو سزا لکھی ہے، لیکن قانون تو ٹھہرا غریب کی بیوہ۔ ہاں، یہاں کسی صاحب کے کتے کو مار دیا جائے تو ملزم کی خیر نہیں، ان کے بچے سمیت کولہو میں پلوا دینے جیسی صورتحال ہو جاتی ہے۔

دور کیوں جایئے، کل پرسوں ہی کی ایک خبر ہے کہ کامونکے میں ایک تین سالہ بچے حمد کو کسی نے زیادتی کا نشانہ بنا کے زندہ جلا دیا اور جلی ہوئی نعش کھیتوں میں لے جا کر پھینک دی۔ ملزم گرفتار ہوگیا جو تعجب خیز خبر ہے، لیکن کوئی بات نہیں۔ چند دنوں بعد رہا ہو جائے گا۔ کارروائی اول تو آ گے بڑھے گی نہیں، بڑھی تو باعزت بری ہو جائے گا۔ تین سالہ بچے سے زیادتی پھر زندہ جلا دینا، تصور میں نہیں آتا، لیکن جو بات تصور میں نہیں آتی، ہمارے ہاں وہی روبہ عمل آتی ہے۔ اس شہر میں ایک اور تیرہ سالہ لڑکے حمزہ کو بھی زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا اور نعش گوبر کے ڈھیر میں دفن کر دی۔ بالیقین اس واردات کے ملزم بھی باعزت بری ہو جائیں گے۔

اور اگر کوئی واردات ایسی ہو کہ کسی بھی وجہ سے ملک بھر کی توجہ میں آجائے تو ایسے ملزموں کی بریت مسئلہ بن جاتی ہے، لیکن ریاست بہرحال ریاست ہے، اسے بھی حل کر ہی ڈالتی ہے چاہے کتنے ہی مہینے یا برس لگیں آخر محض مسئلہ ہی ہے، مسئلہ کشمیر تو نہیں ہے۔ شاہ زیب جتوئی کی مثال دیکھ لیجئے یا پھر سانحہ ساہیوال کی جس میں پہلے بچوں کے سامنے ماں باپ کو کار کے اندر پُررونق شاہراہ پر قتل کیا گیا، پھر ان کی بچی کو باہر نکا ل کر اسے بھی گولی سے اڑا دیا گیا۔ ایک ملزم نے کہا یہ تو محض چھوٹی سی بچی ہے، بری طرح سہمی ہوئی ہے تو ساتھی نے کہا، بچی تو ہے، لیکن بول سکتی ہے، بتا دے گی۔

میڈیا مسئلہ بنا دے گا اور اس سہمی ہوئی، بری طرح روتی ہوئی بچی کو بھی گولیاں ما کر ٹھنڈا کر دیا۔ میڈیا پر ویڈیو کلپ چلے، ایسی دہائی مچی کہ دنیا بھر میں بات جا پہنچی۔ ملزموں کو فوراً چھوڑنا ناممکن تھا، لیکن عمران حکومت بھی ٹھہری الوالزعزم حکومت، چند ماہ کی تاخیر تو ہوئی، "معصوم ملزموں" کو آخر انصاف مل گیا۔ باعزت بری ہو گئے اور اپنے عہدوں پر بحال بھی۔ عمران خان کے نفس ناطقہ فواد چودھری نے میڈیا کو بتایا کہ یہ قتل کی واردات سرے سے تھی ہی نہیں، یہ تو محض حادثہ تھا۔ چلتی ہوئی سڑک پر ہوا۔ فواد چودھری چاہتے تو اسے اس بنا پر ٹریفک حادثہ بھی کہہ سکتے تھے، لیکن نہیں کہا۔ صرف حادثہ کہا، وہ بھی ان کی مہربانی تھی۔

***

بات کتے سے چلی تھی، بیچ میں آدمی آگئے۔ حکومت پاکستان نے ایک اچھا فیصلہ کیا ہے کہ ایک ادارہ بنایا جائے گا جو بچوں کو جانوروں کے حقوق کا شعور دے گا۔ خوشی کی بات ہے، لیکن پہلے حکومتی افسروں کو یہ شعور دینے کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں کراچی کے افسروں نے کتا مار مہم چلائی کیونکہ کسی کتے نے ایک بااثر وکیل پر حملہ کردیا تھا۔ حکم ہوا کہ سب کتے مار دیئے جائیں۔ بہت سے کتوں کو زہر دیدیا گیا اور وہ بہت اذیتناک موت مرے۔ بہت سے کتے گولی کا نشانہ بنا دیئے گئے۔ بچت کی خاطر ایک کتا ایک گولی کی پالیسی اپنائی گئی۔

ایک گولی سے کوئی کتا اتنی جلدی نہیں مرتا۔ کئی دن جان کنی سے گزرنے کے بعد مرتا ہے اور نہیں تو ان افسروں کو اتنا ہی شعور دیدیا جائے کہ کتوں کو زہر سے نہ مارا جائے اور بیک وقت کئی گولیاں ماری جائیں تاکہ وہ جلدی مر جائے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ایک رحم دل پولیس افسر نے کراچی ہی میں چند ہفتے پہلے ایک راہگیر کو بیک وقت تین چار گولیاں مار کر فوری موت عنایت کی تھی۔ راہگیر کی اس پولیس افسر سے ہاتھا پائی ہوگئی تھی۔ پولیس افسر ابھی تک گرفتار نہیں ہو سکا۔ کتا مار مہم کے دوران لوگوں کے پالتو کتے بھی مار دیئے گئے۔

***

جانور ایجادات و انکشافات نہیں کر سکتے۔ ہاتھ پاؤں سے وہ کام نہیں کر سکتے، وہ بی اے ایم اے پاس نہیں ہو سکتے، لیکن باقی ہرلحاظ سے وہ ہم جیسے ہی ذی روح ہوتے ہیں۔ انہیں بھی بھوک لگتی ہے، پیاس ستاتی ہے، زخم کا درد ہوتا ہے، بچوں سے پیار کرتے ہیں، ان کی موت پر دکھی ہوتے ہیں۔ انہیں بھی پُرسکون نیند چاہئے اور وہ بھی اپنی سلامتی اور ماہنت کے طلبگار ہوتے ہیں۔ ان کے دل اور انسان کے دل میں جذبات احساسات کی یکسانی ہوتی ہے۔

لیکن بہت سے معاملات میں وہ انسانوں سے بہتر اخلاقیات رکھتے ہیں۔ وہ ذخیرہ اندوزی نہیں کرتے۔ دوسروں کو بلاوجہ ہلاک یا زخمی نہیں کرتے، جائیدادیں نہیں بناتے، دوسروں کے حق نہیں مارتے۔

ان کی ضروریات بہت کم، لالچ سے محروم ہوتے ہیں۔ انہیں ریشمی قالین اور لگژری رہائش گاہیں نہیں چاہئیں۔ وہ شراب، چائے، کافی نہیں پیتے، وہ سینکڑوں قسم کے کھانوں کا لالچ نہیں رکھتے۔ ان کا ڈی این اے وہ نہیں ہے جو انسان کا ہے ا ور جسے دیکھتے ہی فرشتے پکار اٹھے تھے کہ یا رب حلیم و کریم، یہ مخلوق تو کرہ ارض کو خون میں نہلا دے گی، فساد سے بھر دے گی۔

یہ کتے اور بلیاں، یہ ہماری چھتوں پر اترنے والے پرندے اپنے رزق کیلئے ہمارے محتاج ہیں۔ یہ بے کس، بے بس مخلوق دن بھر ہڈی بوٹی اور روٹی کے ایک ٹکڑے کیلئے گھر گھر در در بھٹکتی ہے۔ سارے دن کی مشقت کے باوجود پیٹ نہیں بھر پاتی۔ سکون سے چند لمحے آرام نہیں کر سکتی۔ ہر دم کھٹکا رہتا ہے، کوئی آدم زاد ادھر سے گزرے گا، بلاوجہ ڈھیلا پھینک مارے گا۔ ٹھوکر پر رکھ لے گا۔ بہت رحم دل ہوا تو ہش کرکے بھگا دے گا، ظالم ہوا تو اپنی گاڑی تلے کچل دے گا۔

یورپ امریکہ میں کوئی شخص جانور پر ظلم کرے تو بچ نہیں سکتا۔ سزا مل کر رہے گی۔ قانون ہمارے ہاں بھی ہے، عمل کی نوبت نہیں آتی۔ اور شعور کے باب میں ہمارا نمبر دنیامیں شاید 170 نہیں تو 180 ہوگا۔ یہ بے شعوری اور بے حسی وہ عذاب ہوتی ہے جو ہم پر آیا ہوا ہے۔