گزشتہ روز پاکستان میں بھی آزادی صحافت کا عالمی دن منایا گیا۔ اب کی بار جو صورتحال ہے، اس پر افغانستان والا لطیفہ یاد آتا ہے کہ وہاں کسی کو ریلوے کا وزیر بنا دیا گیا تو کسی نے طنز کیا، آپ کے وہاں ریلوے ہے ہی کب کہ وزیر بنا دیا۔ جواب میں کہا گیا کہ آپ کے ہاں بھی تو قانون اور انصاف کی وزارت ہے۔ خیر، اب افغانستان کو یہ طعنہ دینا ممکن نہیں رہے گا کہ وہاں ریل کی پٹڑی کچھ بچھ گئی ہے، کچھ بچھ رہی ہے اور جلد ہی ایک اچھا خاصا نیٹ ورک بن جائے گا۔ ہاں، اس دوران اپنی ریلوے کی خیر منائیے، شیخ جی کو مزید پانچ سال مل جائیں، بس پھر لطیفے میں افغانستان کی جگہ پاکستان لے لے گا۔ بہرحال، پاکستان میں آزادی صحافت کا عالمی دن منانا ایسے ہی ہے جیسے کچھ عرصہ قبل کے افغانستان میں ریلوے کا عالمی دن منانا۔ بات اتنی ہی نہیں ہے جو پاکستان پریس فریڈم کی گزشتہ روز جاری ہونے والی رپورٹ میں بتائی گئی ہے کہ سال گزشتہ پاکستان میں 8صحافی قتل اور کتنے ہی گرفتار اور زخمی کئے گئے۔ رپورٹ کے مطابق اسلام آباد صحافیوں کے لئے دنیا کی سب سے خطرناک جگہ بتایا گیا ہے۔ سال بھر میں 31صحافیوں کو ہراساں کیا گیا۔ بات اس سے بھی آگے کی یہ ہے کہ اخبارات میں اب"خبر"چھپ نہیں پاتی، ٹی وی پر نشر نہیں ہو سکتی۔ ایوب خاں نے میڈیا کو "مثبت طریقہ" سے استعمال کرنے کے لئے نیشنل پریس ٹرسٹ بنایا تھا۔ اس پر قومی خزانے سے بھاری رقم خرچ کرنا پڑتی تھی۔ ہمارے آج کے حکمرانوں نے ھنگ لگائی نہ پھٹکڑی "کفایت شعاری" کی داد تو دیجیے۔
آزادی صحافت کا ایک تمثیلی نمونہ یہ ہے کہ دو روز پہلے ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان نے ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال پر تفصیلی رپورٹ جاری کی جو نہ تو کسی ٹی وی پر چلی نہ اخبار میں دو سطر کی جگہ پا سکی۔ رپورٹ خاصی مہیب ہے۔ رپورٹ نہیں چھپی تو کالم میں کہاں چھپ سکتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پڑھنے والوں نے نیٹ پر پڑھ لی۔ رپورٹ میں صحافت کو پابند سلاسل بلکہ جکڑ بند کرنے کی تفصیل ہے، اخبارات و جرائد کی بندش کا نوحہ پڑھا گیا ہے، ایگزٹ کنٹرول لسٹ کے سیاسی استعمال اور مظاہرہ کرنے کے حق کی پامالی پر گریہ کیا گیا ہے، جبری گمشدگیوں میں اضافے کا رونا رویا گیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ کمشن کا اگر یہ خیال ہے کہ ایسی رپورٹیں جاری کرنے سے ریاست ماں کے جیسی ہو جائے گی تو اس کی ناقص خیالی ہے۔ پاکستان بہت آگے کی منزلیں طے کر چکا ہے، اب واپس آنے سے رہا۔ قوم کے ذہنی سکون کے لئے یہ بات البتہ کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو اجر دیتا ہے۔
شیخ جی کا ذکر ازراہ تذکرہ، درضمن ریلوے آ گیا تھا لیکن یہ سطریں لکھتے ہوئے ان کی آواز ٹی وی پر گونجی تو کان لگانا ہی پڑے۔ ایک ٹی وی شو میں اکلوتے مہمان خصوصی کے طور پر بہت کچھ معارف و حقائق بیان فرما رہے تھے۔ اس سوال پر کہ کیا عمران حکومت کو کسی طرف سے خطرہ ہے تو کہا، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ ان کی ہر بات مان رہا ہے، خطرہ کیوں ہو گا۔"ان" سے کیا مراد ہے، شیخ جی کو پتہ ہو گا یا ناظرین، سامعین اور قارئین کو، ہمیں بہرحال نہیں پتہ۔ شیخ جی نے حکومت کو خطرات سے محفوظ رکھنے کا "گر" البتہ منکشف فرما دیا، اگرچہ وہ پہلے ہی منکشف ہے لیکن شیخ جی کی سرکاری مہر لگنے کے بعد کیفیت ذرا پرلطف ہو گئی ہے۔
یہ تو کل تازہ انٹرویو ہے، دو تین دن پہلے بھی انہوں نے کچھ معارف سے پردہ اٹھایا تھا۔ فرمایا، پاکستان میں وزیر اعظم عوام کے ووٹوں سے نہیں بنتا، کہیں اور سے بنایا جاتا ہے۔ یہ "کہیں اور" کیا ہے؟ "ان" کو پتہ ہو گا۔ ویسے ان کی یہ بات ہمیں اچھی نہیں لگی۔ اپنے حالیہ قائد اور مرشد کے بارے میں انہیں ایسی بات نہیں کرنا چاہیے تھی۔ برسبیل تذکرہ، چند وزرائے اعظم ایسے بھی تھے جو "کہیں اور" سے نہیں آئے تھے، عوام نے منتخب کئے تھے۔ پھر انہوں نے اپنا حشر دیکھ لیا۔ ایک کو پھانسی ہوئی، دوسرے کو گولی مار دی گئی، تیسرے کو دوسری بار جلاوطن کر کے عمر بھر کے لئے نااہل کر دیا گیا۔ عبرت پکڑنے والوں کے لئے اتنی مثالیں کافی ہیں۔ غنیمت ہے کہ "وہ۔ ان" کی کسی بات پر ناں میں سر نہیں ہلاتا۔
شیخ جی نے ریلوے کے پیٹ سے بھی پردہ اٹھایا۔ فرمایا، میرے پاس جون کی تنخواہیں دینے کے لئے پیسے ہیں، جولائی کے نہیں۔ ارے بھئی، ایسا تو ہونا ہی تھا۔ آخر آپ ادھورا مشن پورا کرنے آئے ہیں، اس بار تو کسر نہیں چھوڑیں گے۔ پچھلی بار کی دہرائی اس بار نہیں ہو گی۔ شیخ جی اپنی دھن میں یا نہ جانے کسی دھن میں یہ بھی کہہ گئے کہ میں نہیں دیکھ رہا کہ قوم بلندی کی طرف جا رہی ہے۔ آپ نہیں دیکھ رہے تو کوئی اور بھی کہاں دیکھ رہا ہے۔ قوم پاتال کی دھند میں اوجھل ہوتی جا رہی ہے، سبھی دیکھ رہے ہیں اور قوم خود بھی۔ قیامت کے دن یہ سوال، امید ہے، ضرور ہو گا کہ تو کس جرم میں زندہ گاڑ دی گئی۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں انکشاف ہے کہ زکوٰۃ اور بیت المال میں بڑے پیمانے پر "گڑ بڑی"ہوئی ہے۔ تیرہ فیصد رقم کا آڈٹ ہوا ہے اور پتہ چلا ہے کہ پنجاب میں 961ملین کی زکوٰۃ میں سے 574 ملین لاپتہ ہیں۔ ع ناوک نے تیرے زکوٰۃ بھی نہ چھوڑی زمانے میں ناوک نہ ہوا، کھل ناوک ہو گیا۔ ایسا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر معاملہ بیت المال کا ہے۔ سچ کہا تھا کسی نے اوپر ایماندار بیٹھا ہو تو ایمانداری نیچے تک کی جڑوں میں بھی بیٹھ جاتی ہے۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ دنیا بھر کی حکومتیں عوام کی خدمت جبکہ ہماری حکومت عوام کو نچوڑ رہی ہے۔"مصرعہ"بے وزن ہو گیا۔ یوں کہیے کہ دنیا بھر کی حکومتیں عوام کی خدمت، ہماری حکومت عوام کی مرمت کر رہی ہے۔