وطن عزیز، اللہ رحم کرے، تیسرے عذاب کی یلغار میں ہے۔ یعنی ٹڈی دل کا عذاب۔ دوسرا عذاب کورونا کئی ماہ سے جاری ہے اور دن بدن چوگنی ترقی کر رہا ہے اگرچہ وزیر اعظم نے یہ تسلی آفرین بیان جاری فرمایا ہے کہ کورونا کا گراف گر رہا ہے۔ پہلا عذاب بتانے کی ضرورت نہیں۔ آپ سب جانتے ہیں اور دو سال سے بھگت رہے ہیں۔ تاریخ میں اس سے پہلے حضرت موسیٰؑ کے دور میں مصری قوم پر اسی طرح سے پے درپے سات عذاب آئے تھے۔ ہم چونکہ مصری قوم نہیں ہیں اس لئے امید ہے گنتی سات پر نہیں پہنچے گی اگرچہ محترمہ زرتاج گل کا بیان ذرا حوصلہ شکن بلکہ کافی حوصلہ شکن ہے۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ اچھے حکمران آ جائیں تو قوم پر پے درپے برکات نازل ہوتی ہیں۔ اس بیان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ برکات مزید کا نزول ابھی ہونا ہے(عذاب یاد کیجیے، قحط سالی، پیداوار میں کمی کا طوفان، ٹڈی دل، جوئیں، مینڈک اور خون۔
ٹڈی دل کورونا کی طرح لایا نہیں گیا، خود آیا ہے لیکن اس کی شہ ہم نے خود دی ہے۔ ابتدا میں اس کی یلغار سندھ اور بلوچستان پر تھی۔ بلوچستان تو خیر بے چارہ کسی بھی دور میں، کسی بھی ریاستی گنتی میں نہیں رہا لیکن سندھ بہرحال باقاعدہ صوبہ ہے اور دریائے سندھ کی پوری وادی یعنی شمال سے جنوب تک لگ بھگ سو میل چوڑی پٹی زراعت کی وادی ہے، جو ٹڈی دل نے تباہ کر دی۔ سندھ حکومت بار بار وفاق سے مدد طلب کرتی رہی کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کی صلاحیت صرف وفاق کے پاس ہے لیکن وفاق نے سنی ان سنی کر دی بلکہ ازراہ تفنن متعدد مرکزی وزیر، صوبائی ارکان اسمبلی اور ایک عدد سرکاری ٹی وی اس کی گت بنانے کے لئے چھوڑ دیا۔ اب خیر سے یہ ٹڈی دل پنجاب میں تشریف فرما ہو چکا ہے اور کھیتوں کے وسیع سلسلے اس کی تاراج میں ہیں۔ اب حکومت کیا کرے گی؟ وہی کرے گی جو اس نے کورونا کی مد میں کیا۔
کورونا کی مد میں حکومت کی پالیسی یہ تھی کہ دھوپ نکلے گی تو خود ہی تھک ہار کر بھاگ جائے گا۔ اب دھوپ چمکنے کے دن آ گئے لیکن کورونا تو اور بھی چمک اٹھا۔ درجنوں اموات روزانہ ہو رہی ہیں اور مریضوں کی گنتی بھی۔ پہلی بار ہزاروں کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ صرف پندرہ روز کا لاک ڈائون پوری سختی سے کر لیا ہوتا تو آج یہ عذاب بے قابو نہ ہوتا۔ اب یہ بے قابو ہو چکا ہے اور اوپر سے ٹڈی دل۔ زرتاج گل کا برکات کے بارے میں کوئی بیان نہیں آیا البتہ ان کے حوالے سے ایک تصویر وائرل ہوئی ہے جس میں وہ قطر سے آئی ہوئی امداد اپنے نام سے تقسیم کر رہی ہیں۔ محترمہ قطر والے سٹکر پر کوئی کالا کاغذ ہی لگا لیا ہوتا۔
اوپر جس سرکاری ٹی وی کا ذکر آیا ہے، سندھ حکومت کے خلاف مہم چلانے پر خصوصی طور پر مامور کیا گیا ہے۔ جملہ ریاستی وسائل اس کے ڈسپوزل پر ہیں۔ لیکن مزے کی بات ہے، پیپلز پارٹی کے اکیلے سینئر سعید غنی نے آگے لگا رکھا ہے۔ انصاف پرور حکومت توجہ فرمائے، اس کے ابلاغی برین کا ڈرین ہو چکا ہے۔
کورونا کے ضمن میں اس ہسپتال کا ذکر نہ کرنا تاریخ سے زیادتی ہو گی۔ جواب تاریخ کا سنگ میل بن چکا ہے اور ایک عالمی نشریات ادارے نے اس کی رپورٹ نشر کر کے اسے شہرت یافتہ سے بین الاقوامی شہرت یافتہ بتا دیا ہے۔ جی ہاں، یہ اسی المشہور فیلڈ ہسپتال کا ذکر ہے جو حکومت نے 90کروڑ کی لاگت سے حال ہی میں تعمیر کیا ہے۔ جانے دس کروڑ کی بچت کیوں کر ڈالی، نہ کرتے تو پورے ایک ارب کا ہو جاتا۔
شیخ جی نے ایک اور بصیرت ربا بیان دیا ہے۔ بیان کیا دیا ہے حکومت کی احتساب پالیسی کے دریا کو ایک فقرے کے کوزے میں سمو دیا ہے۔ فرمایا ہے، عید کے بعد نیب ٹارزن بن جائے گا، بہت لوگ پکڑے جائیں گے البتہ چودھری برادران ہمارے اپنے ہیں۔ بجا فرمایا۔ احتساب پالیسی کا خلاصہ نچوڑنے کے ساتھ ساتھ حب الوطنی کے اثاثوں کے محفوظ ہاتھوں میں ہونے کی تصدیق بھی کر دی۔ بہرحال اس میں انکشاف کی کوئی بات نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ حب الوطنی کے اثاثے محفوظ تھے۔ محفوظ ہیں اور محفوظ رہیں گے۔ سانحہ ساہیوال سے یاد آیا، عمران خاں اس وقت باہر قرضہ مانگو پروگرام پر تھے۔ وہیں سے بیان جاری فرمایا کہ آتے ہی قاتلوں سے نمٹ لوں گا۔ ایسا انصاف کروں گا کہ بس۔ قومی اسمبلی میں درود شریف پڑھ کر"سچ " بولنے والے وزیر نے بھی ایک دھواں دار بیان نشر فرمایا کہ یہ ریاست مدینہ ہے، مجرم کسی حال میں نہیں بچ سکتے۔ بچ گئے تو پتہ نہیں کیا چھوڑوں گا، شاید سیاست یا ممبری یاد نہیں۔ خدا کو جان دینی ہے والے وزیر نے بھی مکے مار مار کر قاتلوں کا بھرکس نکالنے کا وعدہ کیا۔
ایک اور انصاف یاد آیا۔ کئی برس پہلے کچھ اہلکاروں نے ایک نوجوان کو محض تفریح طبع کے لئے گولیاں مار مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ یہ واقعہ کراچی میں پیش آیا تھا اور اس پر بہت غل مچا تھا۔ تب "پریس"آج کی طرح آزاد نہیں تھا۔ قاتلوں کو سزائے موت ہوئی، صدر عارف علوی نے یہ سزا معاف کر دی۔ سرکاری درباری مبلغ اعظم سے سوال ہے، کیا "ریاست مدینہ" مقتول کے لواحقین کی مرضی کے بغیر قتل کے سزا یافتہ مجرموں کو معاف کر سکتی ہے؟