Saturday, 23 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Ustad Barre Khan Sahib Raag Se Ragni Tak

Ustad Barre Khan Sahib Raag Se Ragni Tak

گم شدہ ماضی کا حصہ بنے بہت زمانہ پہلے بیتے دنوں کی بات ہے، ایک دن دور سے ریڈیو پر بجتا گیت کانوں میں پڑا۔ کوئی راگ ملہار میں، کلاسیکی رنگ میں گا رہا تھا۔ بہت سریلا گیت بلکہ انت سریلا۔ بول سمجھ میں نہیں آ رہے تھے لیکن جادوئی گائیکی رنگ دکھا رہی تھی۔ دھن کمال کی تھی تو تان پلٹے اور مرکیاں کمال سے بھی آگے کی چیز تھیں۔ گیت ختم ہوا، بات آئی گئی ہوگئی۔

ایک دو دن بعد وہی گیت پھر کسی ریڈیو پر بجا اور اس بار قدرے قریب سے۔ کئی گیت دور سے جتنے سہانے لگتے ہیں، نزدیک سے اتنے سہانے نہیں لگتے لیکن یہ گیت پہلے سے بڑھ کر گرفت میں لے رہا تھا لیکن اس کے بول بے تکے سے لگے مثلاً مکھڑا ہی کچھ یوں تھا کہ لپک جھپک کے تُو آرے بدروا۔ بادل کے ساتھ لپک چھپک لکھنا بولنا بے تکا سا لگا۔

بادل گھر گھر کے آتے ہیں، امڈ امڈ کر آتے ہیں، گھٹا جھوم کے، لہرا کے آتی ہے، لپک جھپک کے ساتھ طوفان آتا ہے، بادل نہیں۔ یعنی کوئی گیت لکھنے والے کو بتائے کہ میاں یہ میگھ دوت ہے، لہراتا جھومتا آئے گا، کوئی یم دوت تو نہیں جو لپک کر آئے گا اور (تن سے آتما) جھپٹ کے لے جائے گا۔ اتنا کمال کا گیت اور اتنے اناڑی بول۔ آگے چل کر سر کی کھیتی سوکھ رہی ہے اور اکڑ اکڑ کر پانی لاتو جیسے بول سنے تو شک ہوا، کہیں لکھنے والے نے مزاحیہ گیت تو نہیں لکھا۔

بعد میں پتہ چلا کہ ایسا ہی تھا۔ "بوٹ پالش" ایک فلم اس دور کے ترقی پسند انقلابی ادیبوں اور فلمسازوں نے بنائی تھی، بہت معیاری اور تعمیری، جدوجہد اور امید کا پیغام دینے والی فلم تھی اور یہ گانا ایک مزاحیہ "سچوئشن" کیلئے لکھا گیا تھا۔ گلوکار مناڈے اسے مضحکہ خیز بنانے سے قاصر رہے۔ وہ فنّی طور پر، اس گیت کی گائیکی میں اتنا بلند ہوئے کہ خود سے بھی اوپر نکل گئے۔ البتہ فلم میں"سچوئشن" ٹھیک تھی، گنجے قیدی سر پر بال اگانے کی خواہش میں یہ گیت گا رہے تھے اور پاگلوں اور بے وقوفوں کی "پرفارمنس" دے رہے تھے۔

مناڈے اپنے "معیار" سے مجبور تھے، وہ نیچے آ ہی نہیں سکتے تھے۔ کچھ قصور شنکر جے کشن کا بھی تھا۔ انہیں ڈائریکٹر نے انگریزی والی فنّی FUNNY دھن بنانے کو کہا، انہوں نے اردو والی فنّی دھن بنا دی۔ مناڈے نے اس گیت کو کلاسیکل فن پارہ بنا دیا اور اسے مضحکہ خیز آئٹم نہ بنا سکے اگرچہ ان میں ایسا کرنے کی صلاحیت بھی تھی جیسا کہ کئی سال بعد انہوں نے "اک چتر نار کرکے سنگھار" گا کے کر دکھایا۔ فنّی طور پر یہ بھی پختہ گائیکی تھی۔ مدراسی لہجے میں گائے گئے اس گیت کا ایک کمال اور بھی تھا۔ اسے اداکار "محمود" پر فلمایا جانا تھا، مناڈے نے یہ بات ذہن میں رکھی اور کھرج میں ایسی بدلاؤ کی کہ سننے دیکھنے والوں نے سمجھا کہ اس گیت کا پلے بیک سنگر بھی محمود ہے۔ یہ غلط فہمی البتہ بعد میں دور ہوگئی۔

***

اس یاد کا ذکر کیوں آیا۔ یوں سمجھئے کہ اس محاورے والی بات ہوگئی کہ چھوٹی سی بٹیا، گز بھر کی چٹیا۔ شروع میں یہ کہاوت اسی طرح تھی، بعد میں کسی نے بٹیا کی جگہ گڑیا کو ڈال دیا۔ یعنی چھوٹی سی گڑیا، گز بھر کی چٹیا۔ تو یہ واقعہ جو لکھا تو اس نے گز بھر کی چٹیا سمجھئے، چھوٹی سی گڑیا یہ ہے کہ آدمی "معیار" کو بہت زیادہ اونچا کر لے تو نیچے آ جانا اتنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ناممکن ہی سمجھئے۔

اور وجہ اس ماجرے کے یاد آنے کی یہ ہے کہ ہمارے مایہ ناز، بے مثال، میدان سیاست کے نان کلاسیکل کلاکار کی طرف پھر سے یہ اشارے مل رہے ہیں کہ وہ ایک نئی احتجاجی مہم چلانے والے ہیں جس میں نہ صرف یہ کہ سارا ملک بند اور جام کرنے کی تان بھی ہوگی اور سول نافرمانی کا پلٹا بھی۔ یہ مہان کلاکار صرف دو راگوں کے راگی ہیں۔ ایک راگ مار دھاڑ، دوسرا راگ چیخ و پکار۔

2014ءمیں بھی انہوں نے پہلے راگ ماردھاڑ گایا۔ چار مہینے تک تو صرف الاپ کیا، پھر سول نافرمانی، یوٹیلٹی بل پھاڑ کے آگ لگا دو، باہر سے پیسہ ہنڈی میں بھیجو کی بندشیں لگائیں لیکن سر سارے کے سارے کچّے رہ گئے تو پھر راگ چیخ و پکار کی تانیں لگانا شروع کر دیں، سامعین کا وہی حال ہوا جو قادر خاں نے فلم "بدھائی ہو بدھائی" میں محلے والوں کا کیا تھا۔ وہ جب پکّے راگ کا ریاض کرتا تھا تو دکاندار دکانیں کھلی چھوڑ کر بھاگ جاتے تھے، لوگ گھروں کے دروازے کھڑکیاں بند کرکے لحافوں میں دبک جانے میں ہی عافیت سمجھتے تھے۔ ہمارے بڑے خان صاحب کے راگ مار دھاڑ سے ڈر کر معیشت بانو لحاف میں ایسا دبکی کہ کتنی بہاریں آ چکیں، وہ لحاف سے باہر آنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔

اس "بھوپت راگ" نے سماج پورے اور معیشت گڑھ نامی بستیوں میں زلزلہ تو برپا کر دیا لیکن خود بڑے خان صاحب کو کیا ملا؟

الیکشن میں دھاندلی کا راگ بہت اونچے سروں میں گایا گیا۔ لیکن -16 فروری کو ملک گیر احتجاج کی جو کال دی گئی تھی، اس کا کیا بنا؟ وہی جو قادر خاں کے راگ کے بعد سنا تھا یعنی سب گھروں میں چھپ گئے تھے۔ -16 فروری کو راوی نے صبح سویرے چین ہی چین لکھنا شروع کیا تو شام ڈھلنے کے بعد بھی چین ہی چین لکھتا رہا۔ خود کی سنگیت کے سنگی یہ صلاح دے رہے ہیں کہ استاد جی، اب کے یہ راگ نہ الاپنا۔

اس بار معیشت کی نہیں، کہیں ہماری اپنی ڈھولکی نہ بچ جائے لیکن خان صاحب ڈٹے ہوئے ہیں۔ وہ خان صاحب کو اپنا "معیار فن" گرانے کی درخواست کر رہے ہیں کہ کومل سر لگانے کا وقت ہے لیکن خان صاحب مناڈے کی طرح مجبور ہیں، وہ خود سے بھی اوپر نکل گئے ہیں، نیچے آنا ان کے بس میں ہی نہیں ہے۔ چنانچہ اس بار تو معیار اور اونچا کر دیا ہے اور اب وہ پھر آئی ایم ایف والوں کو خط لکھیں گے کہ پاکستان کا دانہ پانی بند کرو، اندر سے ہم پہیہ جام کریں گے اور بس پیس کر رکھ دیں گے۔

یہ سب کچھ تو ہونے والا نہیں ہے۔ آخر میں کہیں ایسا نہ ہو کہ بڑے خان صاحب کو راگ چیخ و پکار سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جائیں اور بقیہ عمر آہ و زاری کی راگنی بجا کر ہی گزارا کرنا پڑے۔