اتفاق رائے بہت اچھی چیز ہے اور جتنا بڑا اتفاق رائے امریکی ایوا ن نمائندگان میں ہوا ہے وہ تو بہت ہی اچھی چیز ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان میں سب سے بڑی لابی اسرائیل کی، دوسری بڑی لابی بھارت کی ہے۔ چند ایک ارکان پاکستان کے حامی بھی ہیں۔ ماضی میں مختلف عالمی امور پر بھارتی اور اسرائیلی لابی کی لائن الگ رہی ہے۔ مثلاً روس یوکرائن کی جنگ افغانستان اور عراق کی جنگ، جی سیون وغیرہ پر اسرائیلی لابی کی سوچ اور رہی ہے اور بھارتی لابی کی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی "عالمی ایشو" پر دونوں لابیاں متحد ہوئی ہوں۔
گزشتہ سے پیوستہ روز ایوان نمائیندگان نے تقریباً اتفاق رائے سے پاکستان میں انتخابی بے ضابطگیوں پر گریٹ خان کے موقف کی تائید کی۔ 368 ارکان نے ایک ہی رائے دی اور قرارداد پاس کی۔ صرف سات ارکان کی ازحد حقیر تعداد نے مخالفت کی۔ ان سات نامعقول افراد میں سے کچھ پاکستان کے حامی تصور کئے جاتے ہیں، باقی دو تین کسی اور وجہ کی بنیاد پر نامعقول ہوں گے۔ بالواسطہ طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ نے گریٹ خان کی حقیقی آزادی کے جہاد کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ حقیقی آزادی کس سے؟ یہ بات بھی واضح ہوگئی۔
قرار داد سے پیشتر کچھ ارکان کانگرس اور سینٹر غیر معمولی طور پر متحرک تھے خاص طور سے وہ رکن جنہوں نے ایک ہی سانس میں غزہ پر ایٹم بم گرانے اور گریٹ خان کی رہائی کے مطالبات کئے۔ قصہّ مختصر ثابت ہوگیا کہ گریٹ خان حق پر ہے اور ریاست پاکستان ناحق پر۔ امریکہ میں ایک لابی تو، بلکہ، یہ بھی کہتی ہے کہ پاکستان کا وجود ہی سرے سے ناحق ہے۔ اس لابی کے حامی جتنے امریکہ میں پائے جاتے ہیں اس سے زیادہ پاکستان میں ہیں وہ انسانیت کی وسیع تر بھلائی کیلئے پاکستان کے تین ٹکڑے ہونے کی پرارتھنا سرعام بلکہ جلسہ عام میں کرتے ہیں۔
***
سانحہ سوات کے بعد پاکستان کے "ایوان نمائندگان" میں بھی ایک قرارداد پاس کی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ لوگوں کو ہجوم کے ذریعے قتل کرنے یعنی ڈنڈے پتھر مار کرلِنچ کرنے پر سخت سزا دی جائے اور کوئی کسی شہری کو زندہ مت جلائے۔
پی ٹی آئی نے اس قرارداد کو مسترد کر دیا اور اس کے خلاف ووٹ دیا۔ حکومتی پارٹی نے جب قرارداد کا مسوّدہ پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر کے ہاتھ میں تھمایا تو انہوں نے اسے پڑھے بغیر ہی پھینک دیا۔ اس واقعے سے گویا حقیقی آزادی کے آئین کی ایک شق مرتب ہوگئی جس کے تحت لوگوں کو "لِنچ" کرنا یا انہیں زندہ جلانا نہ صرف جائز بلکہ ان کے بنیادی حقوق میں شامل ہے اور ظاہر ہے انسانی حقوق پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ ان دنوں ہماری عدلیہ بھی انسانی حقوق کیلئے غیر معمولی طور پر متحرک ہے۔
یہ تو خیر ایک طرف رہا، پی ٹی آئی کی ایک رہنما شاندانہ گلزار (عمران نہیں تو پاکستان نہیں والے تاریخ ساز نعرے کی موجد) نے ایک قابل قدر اور قابل غور تشریح سانحہ سوات کی فرمائی ہے۔ سانحہ سوات یہ تھا کہ سیالکوٹ کے ایک شہری کو جو سیر و تفریح کیلئے سوات گیا تھا، لوگوں کے ایک ہجوم نے توہین کا الزام لگا کر لِنچ کر دیا تھا اور اسے سرعام زندہ جلانے کے بعد اجتماعی جشن بھی منایا تھا۔ حملہ آوروں میں، میڈیا رپورٹس کے مطابق پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی اور مقامی قائدین پیش پیش تھے۔
شاندانہ گلزار نے اس دعوے کی تردید کی ہے اور انکشاف کیا ہے کہ سانحہ سوات ایک سازش تھا۔ سیالکوٹ کے مقتول کو دراصل پیسے دے کر "پلانٹ" کیا گیا تھا اور اسے کہا گیا تھا کہ سوات جا کر ہجوم کے ہاتھوں مارا جائے تاکہ پی ٹی آئی کو بدنام کیا جا سکے۔
ویڈیو خوب وائرل ہے۔ ہم نے بھی ایک بار دیکھی ہے، بار بار دیکھنے کی ہوس ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر سانحہ سوات پر کچھ خاص پروگرام نہیں ہوئے، اب ہونے چاہئیں اور اس "استدلال" کو اجاگر کیا جانا چاہیے جو شاندانہ صاحبہ نے دریافت کیا ہے۔
***
جو بات ہم جیسے قلم کار ڈر ڈر کر احتیاط کا دامن تھام کر کرتے آ رہے ہیں، مولانا فضل الرحمن نے کل قومی اسمبلی میں کھل کر بتا دی۔
انہوں نے بتایا کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کا 50 ہزار کا جتّھہ پختونخواہ میں داخل ہو چکا ہے، کئی علاقوں پر اپنی رٹ قائم کر چکا ہے اور کوئی دن جاتا ہے جب وہ علاقے پر باقاعدہ قبضہ کر لے گا، یعنی اپنی ریاست "ڈکلیئر" کر دے گا۔
اتنے بڑے جتھّے کا پولیس مقابلہ کر ہی نہیں سکتی انہیں صرف فورسز ہی روک سکتی ہیں۔ حیرت کی بات ہے، آپریشن کی بات ہوئی تو مولانا برہم ہو گئے اور فرمایا، ریاست کو بار بار کہہ رہا ہوں کہ آپریشن کا "پنگا" نہ لے۔ پنگے کا "پارلیمانی" لفظ مولانا نے ہی استعمال کیا۔
یعنی جتھّے کو قابض ہونے دے؟ مولانا کا بظاہر مطلب تو یہی نکلتا ہے۔ باطنی مطلب کچھ اور ہو تو پتہ نہیں۔
50 ہزار میں سے چالیس ہزار تو وہ تھے جن کو گریٹ خان باجوہ اور فیض کی "تثلیث" افغانستان سے لائی۔ باقی دس ہزار حالیہ مہینوں میں شاید ازخود نوٹس کے تحت تشریف لائے۔ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جانا چاہیے، بڑا مشکل سوال ہے، خصوصاً اس تناظر میں کہ ہماری عدلیہ ان دنوں انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے سربکف ہوگئی ہے۔
ادھر ایک بڑا جیّد دہشت گرد ملا منصور پکڑا گیا ہے۔ جو کسی دور میں گریٹ خان کا میزبان اور دوست بھی رہ چکا ہے۔ اس نے بتایا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کی بڑی تعداد میں پاکستان داخل ہونے کو تیار بیٹھی ہے اور ان کا سارا خرچہ بھارت کی "را" اٹھا رہی ہے۔ خرچہ یعنی "فارن فنڈنگ"۔