پہلی جنگ عظیم کے بعد سے اب تک کی تاریخ میں یہ پہلا جلسہ ہے جو اس وجہ سے منسوخ کیا گیا کہ "ہمیں پتہ ہے، ہمیں جلسے کی اجازت نہیں ملے گی۔ جی، ذکر پی ٹی آئی کے اس جلسے کا ہو رہا ہے جو آج ہونا تھا اور چار روز تک مسلسل یہ اعلان بھی کیا جاتا رہا کہ حکومت یا عدالت اجازت دے یا نہ دے، جلسہ تو ہوگا۔ آئندہ سے ہم بلااجازت جلسے کیا کریں گے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ پہلے اجازت لو، پھر جلسہ کرو، پھر اچانک، رات گئے اعلان کیا گیا کہ ہم جلسہ نہیں کریں گے۔ ہمیں پتہ ہے اجازت نہیں ملے گی اس لئے نہیں کریں گے۔
یہ پہلا جلسہ نہیں ہے جو ملتوی کیا گیا۔ حالیہ تین چار مہینوں میں پی ٹی آئی نے چھ سات جلسے اجازت ملنے کے باوجود منسوخ کئے۔ دو جلسے کئے بھی۔ ایک گزشتہ سے پیوستہ ہفتے میں اسلام آباد کا جلسہ جو ناکام رہا۔ اس کی کل حاضری میں سے افغان مہاجرین کو نکال دیا جائے تو باقی اڑھائی تین سو افراد ہی بچنے تھے، دوسرا لاہور کا جلسہ جو ناکام نہیں ہوا، ناکام ترین ہوا۔ اسی لئے پی ٹی آئی نے لاہور (کاہنہ) کے اس جلسے کی تصویریں آپ لوڈ نہیں کیں، اس کے بجائے مارگلہ پہاڑیوں کے علاقے میں ہونے والے کسی ماضی بعید کے جلسے کی تصویریں کاہنہ کی تصویریں بنا کر آپ لوڈ کر دیں۔
کاہنہ والے اگلے روز جوق در جوق ان پہاڑیوں کی تلاش میں گھروں سے نکل آئے کہ سائنس کی ترقی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا دور ہے، کیا پتہ، راتوں رات پہاڑی سلسلہ ویسے ہی اگ آیا ہو جیسے بعض علاقوں میں رات کی بارش کے بعد علی الصبح کھمبیاں اْگ آیا کرتی ہیں لیکن "رڑا" میدان دیکھ کر انہیں مایوسی ہوئی اور ان کے جذبات مجروح ہوئے۔ سنا ہے انجمن شہریان کاہنہ پی ٹی آئی والوں کیخلاف جذبات مجروح کرنے کا کیس کرنے جا رہی ہے۔
***
غیر معتبر اور نچلی سطحی ذرائع کے مطابق جلسے کے التوا کے پیچھے علی امین گنڈاپور کا ہاتھ ہے۔ کاہنہ کے پہاڑوں پر ہونے والے جلسے کیلئے خان صاحب نے ان سے فرمائش کی تھی (یا حکم دیا تھا) کہ ایک لاکھ افراد کا جلوس کے پی سے لانا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پنجاب میں جلسہ کسی جگہ بھی ہو، حاضرین کے پی سے آتے ہیں یا لائے جاتے ہیں اور اب پی ٹی آئی کی "عوامی مقبولیت" کی واحد وجہ یا وجہ تسمیہ کے پی کا صوبہ ہوگیا ہے، ایک لاکھ افراد لانے کی ہدایت میڈیا پر آئی تھی۔ بعد میں گنڈاپور کا بیان آیا کہ وہ 30 ہزار افراد کا جلوس لے کر کوہستان کے حصہ میں نزول فرمائیں گے لیکن جب ان کا فقیدالمثال جلوس لاہور رنگ روڈ پر پہنچا تو پتہ چلا کہ پولیس کی پچاس پروٹوکول گاڑیوں کے علاوہ کل دو سو کاریں ان کے جلوس میں تھیں۔ 30 ہزار افراد کو دو سو کاروں میں کس طرح سمویا ہوگا، یہ گنڈاپوری جادو کا راز ہے اور طلسمی راز افشا نہیں کئے جاتے۔
بہرحال دو سو کاروں میں ٹھنسے 30 ہزار افراد گاڑیوں سے باہر نہیں آئے اور گنڈاپور صاحب یہ معلوم ہونے پر کہ جلسہ تو کب کا ختم ہو چکا، رنگ روڈ سے ہی واپس پشاور روانہ ہو گئے اور دو سو کاروں میں ٹھسے ٹھسائے 30 ہزار افراد بھی، بنا باہر آئے، ان کے ساتھ چلے گئے۔
ایک طلسمی راز یہ بھی ہے کہ گنڈا پور صاحب کو ایک دن پہلے ہی پتہ تھا کہ میں تب لاہور پہنچوں گا جب جلسہ ختم ہو چکا ہوگا۔ سْنا ہے کہ گنڈا پور کو یہ اطلاع آب پارے کے چائے خانے سے دی گئی تھی اور یہ اطلاع سچ ثابت ہوگئی۔
***
بہرحال اطلاع مزید یہ ہے کہ آبپارے میں واقع شہرہ آفاق چائے خانے والوں نے دو ہفتے پہلے گنڈاپور کو "لانگ ٹی" پلائی تھی اور اس میں کچھ قول و قرار بھی ہوئے تھے۔ گنڈاپور نے کچھ کی پاسداری کی، کچھ کی کرنا بھول گئے تو اس بار چائے خانے والوں نے زیادہ "دلکش" انداز میں یاد دہانی کرائی اور گنڈاپور نے براہ راست خان صاحب کو تو کوئی اطلاع نہیں دی البتہ پی ٹی آئی کی باہر موجود قیادت کو یہ اطلاع د ے دی کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ کل کے جلسے کے روز میری طبیعت اچانک خراب ہو جائے گی اور میں دو سو کاروں میں 30 ہزار افراد لانے سے قاصر رہوں گا۔
اطلاع نامے کے آخر میں انہوں نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ "چنانچہ فدوی درخواست گزار ہے کم از کم جلسے کی حد تک چھٹی عنایت فرمائی جائے، فدوی شکر گزار رہے گا۔ البتہ ہنگامے کی صورت فدوی کی یہ درخواست وصول فرمانے کے بعد پی ٹی آئی کے ایک اجتماع ہنگامی میں حسب توفیق حصہ لوں گا۔
بسلسلہ غور و خوض طلب کیا اور طے پایا کہ چونکہ ہمیں پتہ ہے کہ جلسے کی اجازت نہیں ملے گی اس لئے ہم جلسہ نہیں کریں گے بلکہ موقع پر فی البدیہہ احتجاج کریں گے۔ چنانچہ آج عوام الناس، آبپارہ کا چائے خانہ، میڈیا اور دیگر متعلقہ حضرات "فی البدیہہ" احتجاج کا انتظار کریں گے۔ مطلب پولیس ناحق راستہ دیکھنے پر مجبور ہوگی، راستے ویران ہوں گے، اکّا دکّا پر گزارا کرنا پڑے گا۔ ایک اور طلسمی نکتہ ہے کہ فی البدیہہ احتجاج کیلئے بھی بندے کے پی ہی سے لانے ہوں گے لیکن یہ راستہ بھی دن بدن مسدود ہوتا جا رہا ہے۔
***
ذکر اس گنڈاوش کا اور پھر بیاں اپنا نہیں، خیر یہاں اپنے بیان کی ضرورت ہی کیا ہے، اخبار میں ایک سے بڑھ کر اور ایک کے بعد ایک خبر آتی ہے تو تازہ خبر ہے کہ گنڈاوش، مطلب گنڈاپور پر ایک مقدمہ دہشت گردی اور سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ کا درج کیا گیا ہے۔
کوہستان کاہنہ کے جلسے کے موقع پر ایک وڈیو ازحد وائرل ہوئی تھی جس میں گنڈاپور فیروز والا کے قریب گاڑی سے اتر کر ایک سرکاری گاڑی پر حملہ آور ہوتے ہوئے دکھائے گئے تھے۔ سرکاری گاڑی اپنے کسی اور کام سے آ رہی تھی، گنڈاپور کو دیکھتے ہی غریب ڈرائیور کی سٹی گم ہوگئی۔ گنڈاپور نے اترتے ہی نئی نکور کلاشنکوف نکالی اور بدست خود اس کے بٹ مار مار کر اس سرکاری گاڑی کے شیشے، مرر اور لائٹس وغیرہ توڑ دیں۔ اس موقع پر حقیقی آزادی کے پْرجوش نعرے لگائے گئے تو مقدمہ اسی ماجرے پر بنا۔
پتہ چلا ہے کہ گنڈا پور کا ارادہ برا نہیں تھا، وہ محض اپنی نئی نکور کلاشنکوف کا بٹ چیک کرنا چاہتے تھے کہ اصلی ہی ہے، نقلی اور دو نمبر تو نہیں کہ وقت پڑنے پر دغا دے جائے۔ تو دراصل یہ انہوں نے "ٹرائل" کیا تھا۔ ماضی میں ایک بار انہوں نے بلیک لیبل والے اسلامی شہد کا تجربہ چلتی گاڑی میں اور بعدازاں سڑک پر پیدل دوڑ کر کیا تھا۔
پولیس گنڈاپور کا بالمشافہ اور فی البدیہہ معائنہ اور مشاہدہ کرکے اسلامی شہد کے اصلی یا نقلی ہونے کا تعین کرنا چاہتی تھی۔
پی ٹی آئی کے رہنما اور گنڈاپوری مشیر مزمل اسلم نے آئی ایم ایف سے ہونے والے معاہدے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
تحفظات کی تفصیل انہوں نے نہیں بتائی لیکن غیرمنقولہ اور بے اعتبارے ذرائع کے مطابق سرفہرست اعتراض یہ ہے کہ جب ہم نے بارہا آپ سے کہا کہ پاکستان کی مدد کرو، اسے دیوالیہ ہونے دو تو پھر آپ نے قرض منظور کرکے ہمارے جذبات کو مجروح کیوں کیا۔ پی ٹی آئی کو اب عالمی عدالت جانا چاہیے۔