فلسفی مارٹن ہیڈیگر نے کہا ہے "ہم سب خود ایسی ہستیاں ہیں، جن کا تجزیہ ہونا ہے" قدیم ایتھنز میں افلاطون کے پیروکار ایک دن خود سے یہ سوال کرنے کے لیے اکٹھا ہوئے "ایک انسان کیا ہوتا ہے" ایک طویل سوچ بچارکے بعد وہ لوگ درج ذیل جواب تک پہنچے " ایک انسان ایک بے بال و پر دو پایہ ہوتا ہے " ہر فرد انسان کی اس تعریف پہ مطمئن نظر آتا تھا، یہاں تک کہ دیو جانسن کلبی لیکچر ہال میں اس طرح داخل ہوا کہ اس کے ہاتھوں میں پر نوچی ہوئی ایک مرغی تھی، اس نے باآواز بلندکہا " ٹہرو " میں تمہیں ایک انسان دکھاتا ہوں"ہر طرف ایک کھلبلی مچ گئی۔
جب یہ شور ختم ہوا تو فلسفیوں نے پھر سر جوڑا اور انسان کی اپنی تعریف میں اصلاح کی، انھوں نے کہا "ایک انسان ایسا بے بال وپر دو پایہ ہوتا ہے جس کے ناخن چپٹے ہوتے ہیں " اس تعریف کے عرصے بعد جب انسان پر تحقیقات کی گئیں تو پتہ چلا کہ دوسروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ قسمیں انسان میں پائی جاتی ہیں۔
آپ کو ہر قسم کا انسان بغیر ڈھونڈے با آسانی دستیاب ہو جاتا ہے، ہم صرف انسان کی مشہور اقسام پر ہی بات کر پائیں گے، کیونکہ ایک وقت میں تمام اقسام کو احاطے میں لینا ناممکن ہے، ان مشہور اقسام سے باآسانی پاکستان میں بھی آپ کی ملاقات ہوسکتی ہے۔ بچپن تک انسان صرف شرارتی یا سیدھا سادا تک محدود رہتا ہے اس کے بعد اس کی پڑھنے والا یا نہ پڑھنے والا میں تقسیم ہو جاتی ہے پھر نوجوانی تک انسانوں کے درمیان تقسیم کی لکیر واضح ہونا شروع ہو جاتی ہے اور جوانی تک لکیرگہری اور واضح ہوچکی ہوتی ہے۔
اس وقت آسانی سے ہم انھیں مختلف خانوں میں رکھنے کے قابل ہوچکے ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے مثبت خانوں کی گنتی کرتے ہیں ان میںشریف، دیانت دار، وفادار، ایماندار، با اصول، جفاکش، محب وطن، رحم دل، عقل مند، بہادر، اعتدال پسند، روشن خیال، صبر اور برداشت کرنے والے، سچے شامل ہیں۔ اب ہم منفی خانوں کی گنتی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان میں بدمعاش، چور، دھوکہ باز، فراڈی، بزدل، غدار، انتہاپسند، بے ایمان، کرپٹ، بے شرم، بد دیانت، جلن اور حسد کرنے والے، جھوٹے، بات بات پر قسم کھانے والے، وعدہ خلافی کرنے والے، لٹیرے، قبضہ خور، بھتہ خور، جعلسازی کرنے والے غیبت کرنے والے، مفاد پرست، رشوت خور، ہڈحرام، غصہ کرنے والے، انسانوں کی بے عزتی کرنے والے شامل ہیں۔
ایک قسم ایسی بھی ہے جووقت پڑنے پرکبھی مثبت خانے میں جا بیٹھتی ہے اورکبھی اپنے مفاد کے لیے منفی خانے میں گھس جاتی ہے۔ اس قسم کو مفادات کا پجاری کہا جاسکتاہے۔ انسانوں کی یہ تمام مشہور اقسام تین مختلف طریقوں سے سوچتی ہے۔ (1) دل سے (2) دماغ سے (3) پیٹ سے۔
سب سے پہلے دل سے سوچنے والوں پر بات کرتے ہیں، ہم اگر انسانی تاریخ میں دل سے سوچنے والوں کو تلاش کریں تو ہماری ملاقات سقراط، بدھا، اشوک، افلاطون، ہومر، اسکائی لس، سو فیکلیز، یوری پیڈیز، پلوٹارک، لانجائی نس، بلائی ٹس، ورجل، ہوریس، دانتے، ٹالسٹائی، گورکی، شیکسپیئر، بائرن، شیلے، والیٹر، روسو، جان کیٹس، کولرج، وکٹر ہیوگو، موپساں، گوگول، دوستو فیسکی، سارتر، گوئٹے، سسرو اور دیگر سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد ہم دماغ سے سوچنے والوں کو ڈھونڈیں تو ہماری ملاقات، ایڈیسن، آئن اسٹائن، تھالیس آف ملیس، فیثاغورث، کنفیو شس، ہیرا ملیطس، پارمی نائیڈس، فرانسس بیکن، ڈیکارٹ، پاسکل، جارج برکلے، میکیاولی، تھامس ہابس، ہیوم، کارل مارکس، ولیم جیمز، نطشے، جان ڈیوی، شوین ہار، آئن اسٹائن، پیٹر سنگر، رسل، احد حام اور دیگر سے خود بخود ہوجاتی ہے۔ اب انسانی تاریخ کے گناہگاروں اسے شرمسار کرنے والوں پیٹ سے سوچنے والوں پر بات کرتے ہیں۔
اس فہرست میں جھانکتے ہی ایک صحت مند انسان خوف اور دہشت سے کانپنے لگتا ہے۔ اس لیے کہ اس فہرست میں شامل انسان اپنے جرائم اورگناہوں میں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں، آپ کسی ایک پر اپنی تمام لعنتیں بھیج کر جب آگے بڑھتے ہیں تو دوسرے پر اس سے زیا دہ لعنتیں بھیجنے پر بے اختیار مجبور ہو جاتے ہیں، پیٹ سے سوچنے والوں میں انسانی تاریخ میںگذرے بادشاہوں کی اکثریت، امر اء، جاگیردار، تاریخ قدیم کے پادری، ملا، ڈکٹیٹر، دولت، جائیداد اور عیش وعشرت کے دلدادہ، بے رحم، قبرستانوں کو آباد کرنے والے جیتے جاگتے انسانوں کی زندگیوں کو دوزخ میں تبدیل کرنے والے، بے حس، قابل نفرت شامل ہیں، جنہوں نے دل اور دماغ کو بے معنیٰ اور بے مقصد قرار دیا جنھیں سوچنے سے اس قدر نفرت تھی کہ نہ کبھی انھوں نے سوچا اور نہ ہی کبھی دوسروں کو سوچنے کا موقع دیا۔
پیٹ سے سوچنے والوں سے زیادہ قابل ہمدرد کوئی دوسرا انسان ہوہی نہیں سکتا ہے۔ جوزندگی کامقصد بے معنیٰ، بے مطلب چیزوں کو جمع اور ذخیرہ کرنے کو سمجھ بیٹھے ہیں، جو اقتدار اور اختیار عیش وعشرت کے لیے کسی بھی سطح تک گرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ ایسے تمام انسان اصل میں دنیا کے تمام دکھوں کے باپ ہیں جب حضرت عیسیٰ کو صلیب دی جا رہی تھی تو اس وقت انھوں نے ایک ایسی بات کہی تھی جو تاریخ انسانی میں دکھ برداشت کرنے والوں کی جانب سے کہی جانے والی پختہ باتوں میں سے ایک ہے جب انھیں ایذا دینے والے ظلم در ظلم کرتے ہوئے انھیں ضرورت سے زیادہ تکلیف دینے کی کو شش کر رہے تھے۔
اس وقت حضرت عیسیٰ نے دعا کی تھی " اے خدا انھیں معاف کردے کہ یہ نہیں جانتے یہ کیا کر رہے ہیں" یاد رہے ہمارے تما م دکھوں کے خالق یہ ہی پیٹ سے سوچنے والے ہیں یہ ہمارا نصیب ہے کہ ہمیں ہمیشہ پیٹ سے سوچنے والوں کی اکثریت ہی ہمارے مقدر میں آئی۔ جنہوں نے ہمیں ایذا دینے ظلم در ظلم کرنے اور ضرورت سے زیادہ تکلیفیں دینے میں کوئی کمی نہ رہنے دی یہ قسم بازاروں، آفسوں، محلات اور بڑ ے بڑے ایوانوں میں باکثرت دیکھی جاسکتی ہے۔
ہمارے دکھ اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتے جب تک دل اور دماغ سے سوچنے والے ہمارے نصیب میں نہیں آئیں گے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک پیٹ سے سوچنے والے دل اور دماغ سے سوچنا نہیں شروع کردیتے۔