آخرکار 72 سالوں کی طویل تھکا دینے والی جدوجہد کے بعد ہم حکومت کا تختہ الٹنے کا سب سے آسان طریقہ دریافت کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے لیکن اس کا سارا کریڈیٹ ترکی کے ادیب عزیز نہ سن کو جاتا ہے۔
حکومت کے مخالفین سے درخواست ہے کہ وہ اپنی اداسیاں اور مایوسیاں فوراً ترک کردیں کیونکہ اس طریقے کی آگاہی کے بعد ان کے وجود کے کوئی معنیٰ نہیں رہیں گے اور یہ بھی اس طریقے میں نہ جدو جہد ہے نہ مقدمات ہیں اور نہ ہی جیلیں، یہ راستہ تمام خطرات سے پاک ہے۔
آئیں!ہم آپ کو بھی اس راز میں شریک کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں " حکومت کا تختہ الٹنے کا علم" نامی کتاب مدت ہوئی مجھے کسی گمنام مہربان نے بیرون ملک سے بذریعہ ڈاک روانہ کی تھی۔ کتاب کے ہر صفحے پر لفظ "خفیہ" چھپا ہوا تھا مجھے کتاب پا کر بڑی حیرت ہوئی کہ اس قسم کی خطرناک چیز بغیر " باز پرس " مجھ تک ڈاک کے ذریعے کیسے پہنچ گئی؟کتاب کے دیپاچے میں لکھا تھا کہ چونکہ دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان انگریزی ہے، اس لیے یہ کتاب انگریزی میں شایع کی گئی ہے۔ دیباچے کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔ "ہم یہ کتاب خفیہ طور پر ان لوگوں تک پہنچائیں گے جو ہمارے ریکارڈ کے مطابق حکومت کا تختہ الٹنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں حکومت کا تختہ الٹنا آپ کا بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔ یاد رکھیے دنیا میں کوئی حکومت اتنی مضبوط نہیں کہ اس کتاب میں بتائے گئے طریقوں سے اس کا تختہ نہ الٹا جاسکے آزمائش شرط ہے۔ " کتاب میں کئی باب ہیں ہر باب میں کسی ایک قسم کی حکومت کا تختہ الٹنے کے متعدد طریقے درج ہیں۔
حکومت کی نوعیت، ملک کے لوگوں کی اپنی خصوصیت اور تختہ الٹنے والوں کے اغراض و مقاصد کے مطابق ہر طریقہ دوسرے طریقوں سے مختلف ہے مجھ جیسا ڈرپوک انسان بھی کتاب کے چند باب پڑھتے ہی اپنے آپ کو دنیا کے معروف ترین انقلاب پسندوں کا ہم پلہ تصورکرنے لگتاہے۔ مختلف ابواب کے عنوان ملاحظہ کیجیے۔
(1) عوام دشمن حکومتوں کا تختہ الٹنے کی ترکیب۔ (2) ڈکٹیٹر شپ سے نجات حاصل کرنے کے طریقے۔ ( 3) ڈرپوک انقلاب پسندوں کی حوصلہ افزائی کے کامیاب نسخے۔ (4) استبداد پسند حکومتوں کے خلاف عوام کو بغاوت پر اکسانے کی ترکیبیں۔ (5) وعدہ خلاف حکومتوں سے نجات کی راہیں۔ (6) حکومت وقت کا تختہ الٹنا کن حالات میں مشروط ہے۔ (7) پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں حکومت کا تختہ الٹنے میں قابل توجہ عوامل۔ (8) متمدن ممالک میں انقلاب لانے کے آزمودہ طریقے۔ چونکہ کتاب کاآخری باب پوری کتاب میں سب سے زیادہ اپیل رکھتا ہے۔ اس لیے آخری باب میں درج شدہ نسخہ من وعن قارئین کے پیش خدمت کیا جاتا ہے۔
مجھے یقین ہے، آپ یہ باب صرف ایک دفعہ غور سے پڑھنے کے فوراً بعد بے صبر ہوکر اس نسخے کو آزمانے کے لیے اٹھ کھڑے ہونگے۔ کسی زمانے میں براعظم گمٹی کے شمال مشرق میں کوہ فلک پیما اوردریائے جگادری کے درمیان ایک پہاڑی ملک واقع تھا جس کا نام تھا خاقان۔ اس سال ماہ فروری تک ملک میں " زندہ باد " پارٹی برسراقتدار تھی اس ماہ کے انتخابات میں یہ پارٹی ہارگئی اور " اولاد وطن " پارٹی نے حکومت بنا لی یہ تبدیلی ملک خاقان کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ تھا اولاد وطن پارٹی کا لیڈرکاغان خان تھا، برا آدمی نہیں تھا بین الاقوامی کانفرنسوں کے درمیان سوتے رہنا یااگر جاگ رہا ہوتا ناک میں انگلی پھیرنا بس یہ ہی دو اس کی بڑی برائیاں تھیں۔
انتخابات جیتنے کے بعد کاغان خان ملک کاوزیراعظم بن گیایہ بات مخالف "زندہ باد " پارٹی کو ایک آنکھ نہ بھائی وہ ہر قیمت پر " اولاد وطن " پارٹی کو اقتدار سے ہٹانا چاہتے تھے چنانچہ انھوں نے اخبارات میں کاغان خان اور اس کے ساتھیوں پر الزام لگایا کہ وہ سب چور ہیں عوام نے اس الزام پر توجہ نہ دی کیونکہ آخر زندہ باد پارٹی کے لیڈروں نے بھی اپنے دور اقتدار میں کوئی کم چوریاں تو نہیں کی تھیں پھر انھوں نے افواہ اڑا دی کہ کاغان خان ڈکٹیٹر ہے عوام نے اس افواہ پر بھی کان نہ دھرے غرض یہ کہ مخالف پارٹی کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے تمام جمہوری طریقے آزمائے گئے مگر کسی میں بھی کامیابی نہ ہوئی پھر حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسانے کی انقلابی راہ اختیارکی وہ بھی ناکامی سے دو چار ہوئی جب کوئی طریقہ کامیاب ثابت نہ ہوا تو زندہ باد پارٹی کے لیڈر گرگ خان نے پارٹی کی مجلس عاملہ کا خصوصی اجلاس بلایا اور ممبروں سے یوں مخاطب ہوا "عزیز دوستو ! اس ظالم حکومت کا تختہ الٹنے میں ہماری پارٹی کو جو ناکامی ہوئی ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے انقلاب کے ایسے طریقے اختیارکیے جو دوسرے ملکوں میں استعمال کیے جاتے ہیں، حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ ہم اپنی ثقافت اور مقامی ماحول اور روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے خالص دیسی نسخہ استعمال کرتے۔
اگر آپ لوگ میری تجویزغور سے سنیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کاغان خان کی حکومت کا ڈھانچہ دو ماہ کے اندر اندر دھڑام سے گرجائے گا۔ آئیے ہم سب اپنی پارٹی سے مستعفیٰ ہوکر اولاد وطن پارٹی میں شامل ہو جائیں اس پارٹی کو کھچا کھچ اپنے آدمیوں سے بھردیں ان لوگوں کے ساتھ ساتھ عوام کی نفرت بھی ہماری پارٹی سے اقتدار پارٹی میں منتقل ہوجائے گی "لیکن جناب ہمیں یہ تو بتائیے کہ ہم "اولاد وطن " میں شامل ہونے کے بعد کریں گے کیا؟
گرگ خان گویا اسی سوال کے انتظار میں تھا جھٹ بولا " ہم وہاں بھی کچھ نہیں کریں گے ہمیں عوام نے اس لیے تو نفرت کا نشانہ بنا لیا تھا کہ ہم کرتے کراتے کچھ نہ تھے اور ڈینگیں بھی جی بھر کر مارا کرتے تھے، بس یہ ہی کام اولاد وطن پارٹی میں شامل ہونے کے بعد جاری رکھنا ہوگا ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا۔ "
پھر زندہ بادپارٹی کے اراکین نے ہر سطح پر دھڑا دھڑا ستعفیٰ دے کر اولاد وطن پارٹی کی صفوں میں شامل ہونا شروع کردیا ادھر اقتدار پارٹی کالیڈر اور وزیراعظم مخالف پارٹی کے اراکین کے یوں جو ق در جو ق شامل ہونے کی خبریں سن سن کر جامے میں پھولا نہ سماتا۔ وزیراعظم جہاں کہیں نظر آتا اولاد وطن پارٹی کے نئے اراکین دیر تک اس کی شان میں تالیاں بجا بجا کر نعرے بلند کرتے رہتے اگر وزیراعظم کھانستا تو وہ نعرہ تحسین لگاتے اگر وہ چھینکتا تو پھریہ لوگ نعروں اور تالیوں سے اس کی ان حرکتوں کی داد دیتے۔
آہستہ آہستہ وہ تالیوں اور نعروں کا عادی ہوگیا کچھ عرصے بعد اسے اپنی شان میں بلند کیے جانے والے نعروں اور تالیوں کا اتنا نشہ پڑگیا کہ اگر اس کے اونگھنے پر یہ آوازیں بند ہوجاتیں تو وہ چونک کر اٹھ جاتا اور اپنے ارد گرد یوں نظر دوڑاتا جیسے لوگوں سے جواب طلبی کر رہا ہوکہ تالیاں کیوں بندکردی گئی ہیں۔ نعرے کیوں خاموش ہوگئے ہیں۔
یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا کچھ عرصے بعد لوگوں میں افواہیں پھیلنا شروع ہوگئیں کہ وزیراعظم کا دماغ چل گیا ہے بس پھر کیا تھا جو حشرکسی پاگل کا ہوتا ہے وہ ہی وزیر اعظم اور اس کی اولاد وطن پارٹی کا ہوا دو ماہ کے اندر پارٹی کی حکومت کا تختہ الٹ گیا۔ معزز دوستو! ہمیں چاہیے کہ تاریخ کے اس اہم ترین انقلاب سے سبق سیکھیں، اگر حکومت کا تختہ الٹنے کے باقی سب طریقے ناکام ہوجائیں تو یہ آخری طریقہ آزمانا نہ بھولیے گا۔