Saturday, 28 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Sadiyon Purana Khail

Sadiyon Purana Khail

ایمرسن کہتا ہے " ہر جلتی کتاب دنیا کو روشن کردیتی ہے" تاریخ پے درپے اس حقیقت کی شہادتیں فراہم کر رہی ہے کہ کتابیں متحرک اور زندہ قوتیں ثابت ہوئی ہیں، جنہوں نے واقعات کا دھارا بدل ڈالا ہے، یہ کتابیں ہی ہیں جنہوں نے دنیا یکسر تبدیل کر ڈالی۔ جہاں کہیں اور جب کبھی مخالف گروہوں کو دبانے اور افکارکو ختم کرنے کا ارادہ کیا گیا، ان کا پہلا قدم بلا اختلاف یہ ہی رہا کہ مخالفانہ افکارکی کتابوں اور ان کے منصفوں کو تباہ کر دیا جائے۔

ڈاکٹر ڈریپر اپنی کتاب معرکہ و مذہب و سائنس میں لکھتے ہیں کہ اسکندریہ کا کتب خانہ جس میں اندازاً سات لاکھ کتابیں تھیں، جولیس سیزرکے حکم سے بر باد کر دیاگیا اور اس کی نصف کتابیں جلا دی گئیں پھر قیصر تھیو ڈوسیس دوئم نے تھیا فلس کو حکم دیا کہ باقی ماندہ کتابیں جلادو۔ جب اسپین کا مشہور مورخ اور وشیش 413 میں اسکندر یہ پہنچا تو وہاں ایک بھی کتاب موجو د نہ تھی۔ قرون وسطیٰ میں راہبوں کی علمی سرگرمیاں یہ تھیں کہ وہ یونان و روما کی کتابیں جلا کر ان کی جگہ مسیحی اولیا کی داستانیں رکھ دیتے تھے، چونکہ اس زمانے میں کاغذ نایاب تھا لہذا اس کی جگہ چرمی جھلی استعمال ہوتی تھی جس کی قیمت کافی زیادہ تھی اس لیے یہ راہب جھلی پہ لکھی ہوئی کتابیں کھرچ ڈالتے اور ان پر دعائیں اور اولیا کی داستانیں لکھ دیتے تھے۔

پاپائے اعظم گریگوری سائنس، تاریخ، ادب، شعر اور دیگر علوم کا شدید دشمن تھا اور دینیات یا دعائوں کے سوا کسی اور صنف کو برداشت نہیں کرتا تھا۔ اس نے رومی سیاست دان وخطیب سسرو اور مورخ لیوی کی سب کتابیں تلف کر ڈالیں۔ فرانس کے ایک پادری سینٹ بر نارڈ کی تنگ نظری کا یہ عالم تھا کہ وہ عوام کو ملکی قوانین کے مطالعے سے بھی روکتا تھا۔ اسپین میں مسلمانوں کے بڑے بڑے ثقافتی مر کز چار تھے قرطبہ، غرناطہ، اشبیلیہ اور طلیطلہ (ٹالیڈو) ہر مرکز میں عظیم الشان کتب خانے تھے جنھیں بعد میں پادریوں نے جلادیا صرف طلیطلہ میں وہاں کے بشپ زی نی نیز نے مسلمانوں کی اسی ہزارکتابیں سپر آتش کیں، انگلستان کے ایک مورخ ہچببن سٹر لنگ لکھتے ہیں کہ چوتھی صدی عیسوی میں راہبوں کے گروہ جا بجا گھومتے نظر آتے تھے، یہ جہاں بھی کوئی کتاب یا آرٹ کا کوئی نمونہ پاتے تو اسے جلا دیتے۔

چوتھی صلیبی جنگ میں جب صلیبیوں کا لشکر قسطنطنیہ میں پہنچا تو اس نے ساری کتابیں جلا دیں۔ دوسو سال پہلے جب اسپین نے امریکا کی ایک ریاست میکسیکو پر حملہ کیا تو وہاں ساری کی ساری کتابیں جلاد ی گئیں۔ طرابلس میں اس دورکی عظیم ترین لائبر یری تھی جس میں کتابوں کی تعداد تیس لاکھ بتائی جاتی ہیں، جب صلیبیوں کا لشکر اس شہر میں پہنچا تو کتب خانے کو آگ لگا دی گئی تمام کتب جلا ڈالی گئیں۔ اسپین کی مذہبی عدالت نے جو 1478 میں قائم ہوئی تھی۔ عربی علوم پر یہودی علماء کی لکھی ہوئی چھ ہزارکتابیں سپرد آتش کردیں۔

یونان کی ایک لڑکی ہائے پیشیا اسکندریہ میں تحصیل علوم کے لیے آئی اور برسوں کی محنت کے بعد وہ ایک ممتاز فلسفی بن گئی۔ اسے افلاطون وارسطو کے فلسفے اور ریاضی میں بڑا عبور حاصل تھا۔ اسکندریہ کے بشپ سائرل نے اسے کافرہ قرار دے دیا اور پھر ایک روز اسے ننگا کرکے بازار میں گھسیٹا گیا پھر اسے گر جے میں لے گئے وہاں تیز سیپیوں سے اس کی کھال کھرچی، پتھر سے اس کا سر توڑ ڈالا، لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے اور انھیں آگ میں پھینک دیا گیا۔

گلیلیو فلارنس اٹلی کا وہ مشہور ہیت دان ہے جس نے دوربین ایجاد کی تھی جب اس نے کا پرنیکس کے نظام شمسی کی تائید کی تو پوپ نے اسے گرفتارکرکے مذہبی عدالت کے سامنے پیش کردیا، اس نے وہاں ڈر سے توبہ کرلی لیکن 1632 میں اپنی کتاب " نظام عالم" شائع کردی جس پر اسے جیل میں پھینک دیا گیا جہاں وہ دس سال تک انتہائی دکھ اٹھانے کے بعد 1642 میں وفات پا گیا۔

اٹلی کے مشہور فلسفی برونو جو فلسفے میں ابن رشد اور اسپینوزا کا پیرو تھا، مذہبی عدالت نے 1600 میں زندہ جلا دیا۔ کپلر جس نے سب سے پہلے کشش ارضی اور سمندر پر چاند کا اثرکے نظر یات پیش کیے تھے، جب اس نے 1618 میں اپنی کتاب شائع کی توکلیسا نے اسے کافر قرار دے دیا اور اس کی کتاب سپرد آتش کر دی گئی۔ ڈانٹے فلارنس اٹلی کا شہر ہ آفاق فلسفی شاعر تھا اس نے اپنی لازوال کتاب "طربیہ خداوندی " پہ اٹھارہ برس صرف کیے تھے اور یہ دیگر تین اورکتابوں کا بھی مصنف تھا۔ 1301 میں اسے وطن سے نکال دیاگیا اور 20 برس تک مسافرت میں بھٹکنے کے بعد 1321 میں فوت ہوگیا۔

نسل انسانی پہ اس سے بڑا ستم کیا ہوسکتا ہے کہ وحشی بادشاہوں اور پادریوں نے ساٹھ لاکھ سے زیادہ کتابیں جلا دیں اور رہی سہی کسر تیرہویں صدی میں تاتاریوں نے پوری کردی، انھوں نے بغداد، کوفہ، بصرہ، حلب، دمشق، خراسان، خوارزم اور شیرازکی سیکڑوں لائبریریاں جن میں کتب کی مجموعی تعداد تین کروڑ سے زیادہ تھی بھسم کر ڈالیں۔ بے شمار فلسفی و علما مار ڈالے لیکن تمام ظلم وستم کے باوجود علم، وقت اور سچ کو قید نہیں کیا جاسکا نہ ہی روکا اور دبا یاجاسکا اور نہ ہی اپنے مطابق چلایاجاسکا کیونکہ سچ کو آپ جتنا چھپانے اور دبانے کی کوشش کریں گے سچ اتنی ہی طاقت سے آپ کے سامنے آجائے گا۔

کامڈن نے کہا تھا جب تم کسی کتاب کے بند اوراق کوکھولتے ہو تو تمہیں اڑنے کے پر مل جاتے ہیں تمام تروحشت و بر بریت کے باوجود انسان کو اس کی قربانیوں اور جدوجہد کے نتیجے میں آخرکار پر مل ہی گئے اندھیروں کی قوتوں کے لیے علم اور سچ موت ہے۔ ان کی بقا صرف اور صرف جہالت میں ہی ہے، اسی لیے اندھیروں کی قوتوں نے اپنی تمام تر طاقت پاکستان کے عوام کو جاہل رکھنے کے لیے لگا رکھی ہیں، ہمارے ہاں بھی وہی صدیوں پرانا کھیل کھیلا جا رہا ہے، بس طریقہ کار بدلا ہوا ہے آج ان ہی قوتوں نے سچ کو چھپانے اور مٹانے کے لیے خوف اور نفرت کا ہتھیار اپنایا ہوا ہے لیکن یہ قوتیں یہ نہیں جانتی ہیں کہ انسان دیکھے جاسکتے ہیں، ٹٹولے جاسکتے ہیں، تم انھیں پکڑ سکتے ہو، ان پر حملہ کر سکتے ہو اورقید کرکے ان پر مقد مہ چلا سکتے ہو اور انھیں تختہ دار پر لٹکاسکتے ہو، انھیں خودکش حملہ کرکے مارسکتے ہو، لیکن اس طرح خیالات اور سچ پر قابونہیں پایا جاسکتا وہ نا محسوس طورپر پھیلتے ہیں، نفوذ کرجاتے ہیں، چھپ جاتے ہیں اور اپنے مٹانے والوں کی نگاہوں سے مخفی ہوجاتے ہیں اور روح کی گہرائیوں میں چھپ کر نشوونما پاتے ہیں، پھلتے پھولتے ہیں، جڑیں نکالتے ہیں، جتنا تم ان کی شاخیں جو بے احتیاطی کے باعث ظاہر ہوجائیں کاٹ ڈالوگے، اتنا ہی ان کی زمین دوز جڑیں مضبوط ہوجائیں گی۔

ویچوکہتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے، اس عمل کواس نے Ricorsi کا نام دیا ہے، تمام انسانوں کے احساسات بنیادی طور پر ایک جیسے ہیں، ضروریات ایک جیسی ہیں، مفاد ایک جیسے ہیں، یہی خیال نسل، رنگ اور زبان کے تعصبات کو آہستہ آہستہ مٹا رہاہے۔ مارکس آریلیس نے وحدت نوع انسان کا جو خواب دیکھا تھا، اس کی تعبیرکا وقت آگیاہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ دنیا کی طرح پاکستان سے وحشت وبربریت کے دورکاخاتمہ نہ ہو اورعقل وفکر کی نشوونما نہ ہو عمل ارتقا کی مزاحمت کی جاسکتی ہے، اس کی رفتارکو سست کیا جاسکتا ہے، لیکن اسے کسی خاص مرحلے پر روک دینا تو کسی کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔