ماضی کی لڑائیوں اور جنگوں میں ہوتا یہ تھا کہ اسی وقت گھمسان کا رن پڑتا، کشتوں کے پشتے لگتے اور فیصلہ چندگھنٹوں میں ہو جاتا تھا۔ جیسے پانی پت کی تینوں لڑائیوں میں فیصلہ ایک دن ہی میں ہو گیا تھا۔ دو میں مغل جیتے، اور تیسری میں ابدالی! اب معاملہ سیاسی جنگوں کا ہے۔
یہ مقابلہ لمبا ہوتا ہے اور صبر آزما بھی! اس میں سیاسی حمایت بھی کردار ادا کرتی ہے اور لیڈروں کے اعصاب بھی۔ اس میں پیسہ بھی چلتا ہے اور "لابنگ" بھی۔ آج اسی طرح کی ایک سیاسی جنگ لڑی جارہی ہے جس میں وہ بھلے صبر و تحمل سے کام لے مگر حالات پھر بھی سیاسی جنگ نما ہو چکے ہیں جس میں دونوں اطراف سے بیانات کی سخت "گولاباری" جاری ہے۔
اسی جنگ کو جاری رکھنے کے لیے اپوزیشن نے اتحاد بنا لیا ہے، جو ہر لمحہ حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے تیار ہے، پہلے یہ میدان گوجرانوالہ میں سجا، پھر کراچی میں اور اب 25اکتوبر کو کوئٹہ اور پھر دوسرے شہروں میں بھی سجے گا۔ یعنی قصہ مختصر کہ گیارہ مختلف الخیال جماعتوں کو ایک مشترکہ سیاسی مخالف نے باہم اکٹھا کر دیا ہے۔ ان میں ن لیگ، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی(ف)کے قائدین میں کردار ادا کررہی ہیں، دیگر جماعتوں کے دیگر رہنما بھی کم تر نہیں۔
اسفند یار ولی کی جماعت اے این پی (عوامی نیشنل پارٹی) قومی اسمبلی میں اس جماعت کے پاس صر ف ایک نشست ہے۔ پھر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کو کون نہیں جانتا، اس جماعت کا زیادہ ووٹ بینک بلوچستان میں ہے اور عام طور پر صوبہ اور مرکز میں یہ دوسرے جماعتوں کے ساتھ حکومت یا اپوزیشن میں رہی ہے۔ قومی اسمبلی میں پشتونخواملی عوامی پارٹی کی صرف ایک نشست ہے۔ نیشنل پارٹی بلوچستان کی قوم پرست جماعت ہے۔ اس کے سراہ میر حاصل بزنجو تھے جن کا گزشتہ دنوں انتقال ہو ا تھا۔
نیشنل پارٹی کی قومی اسمبلی میں کوئی نشست نہیں ہے۔ جمعیت علما پاکستان(نورانی گروپ) گروپ بھی خاصا با اثر گروپ ہے۔ جے یو پی کے سربراہ مولانا انس نورانی ہیں۔ وہ شاہ احمد نورانی مرحوم کے فرزند ہیں۔ جمعیت اہلحدیث پاکستان کے امیرپروفیسر ساجد میر ہیں۔ اہلحدیث مکتبہ فکر کی اس جماعت کا بڑا حلقہ پنجاب میں ہے۔ قومی اسمبلی میں اس جماعت کی کوئی نشست نہیں ہے۔ یہ جماعت ہمیشہ ن لیگ کے ساتھ رہی ہے۔
پھر قومی وطن پارٹی کے قائد سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا آفتاب احمد خان شیرپاؤ ہیں۔ اس جماعت کی نہ قومی اسمبلی اور نہ ہی سینیٹ میں کوئی نشست ہے۔ شیرپاؤ صاحب بھی کوئی عام رہنما نہیں ہیں بلکہ امیر ترین شخصیت ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل)جیسا کے نام سے ظاہر ہے، بلوچستان کی قوم پرست جماعت ہے۔ اس کے سربراہ سردار اختر مینگل ہیں۔ بی این پی کل تک تحریک انصاف کی اتحادی تھی لیکن اختر مینگل نے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس کے باوجود اس جماعت کے ارکان حکومتی بینچز پر براجمان ہیں۔ بی این پی مینگل کی قومی اسمبلی میں کل 4 نشستیں ہیں جن میں سے 3 جنرل اور ایک مخصوص نشست ہے۔
الغرض یہ وہ سیاسی جماعتیں ہیں جن کی اپنے اپنے علاقوں میں اثرورسوخ رکھتی ہیں۔ ہم دیکھتے رہے ہیں کہ یہ جماعتیں اقتدار میں طویل عرصہ تک رہی ہیں۔ ایسے میں تحریک انصاف کی حکومت آئی جسے یہ جماعتیں نہ تو چلنے دیں گی اور نہ ہی قوم چین کا سانس لے پائے گی۔ چلیں یہ مان لیا کہ اس ملک کو ٹھیک کرنے کے لیے ایک سخت گیر انقلاب کی ضرورت ہے لیکن موجودہ انقلابیے(اپوزیشن) تو پہلے ہی آزمائے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا لیڈر پیدا ہوا ہو جو کہے کہ میرا ایجنڈا پاکستان ہے۔ پاکستان میں ووٹ کی عزت بھی مانگی جا تی ہے، لیکن ووٹرز کے ساتھ یہ سیاستدان جو سلوک کرتے ہیں، اسے عوام اچھی طرح جانتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب جماعتیں اقتدار میں آنے کے لیے بے چین نہیں ہیں یا این آر او کے لیے بے تاب نہیں ہیں تو غریب عوام کو لیڈ کرنے کے بجائے مہنگی گاڑیوں میں بڑھکیں مار کے فرار کیوں ہوجاتے ہیں؟ پھر ایک سوال یہ بھی ہے کہ ان جلسوں میں قائدین کس کو خوش کر رہے ہیں؟ پاکستان کے اداروں کو؟ پاکستان کے عوام کو؟ بھارت کو؟ یا انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کو؟
بہرکیف ایک دوسرے سے متصادم ایجنڈا رکھنے والی پارٹیاں 11 رنگ اور گیارہ ہی ایجنڈے۔ اب یہ سرکس نہیں تو اور کیا ہے۔ ان میں سے سب سے بڑے جتھے کا لیڈر ویڈیو خطاب سے آگے نہیں بڑھنا چاہتا۔ مجھے یقین ہے ان تمام موضوعات پر محترمہ مریم نواز، بلاول بھٹو یا مولانا اسعد بن فضل الرحمن کی زبان سے کسی نے آج تک ایک جملہ نہیں سنا ہو گا۔
یہ وہ تعلیم ہے جو سماج، ریاست معاشیات اور گورننس کے متعلق انسانی فہم کو بہتر کرتی ہے۔ کسی کو یہ جاننے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ فلاحی ریاست کیسے بنتی ہے، کسی نے آج تک کسی ایک گاؤں کو ترقیاتی ماڈل پر منتقل کرنے کا تجربہ نہیں کیا۔ ان لوگوں کے ہاتھ میں ملک کی تقدیر کیسے دی جا سکتی ہے۔ پی ڈی ایم کا جلسہ بتاتا ہے کہ پینتیس برس سے اقتدار سے چمٹے رہنے کے باوجود ان لوگوں کو ملک کی کسی چھوٹی سی بستی کی تقدیر بدلنے کا موقع نہیں ملا۔ لہٰذا، آج کا سبق یہ ہے کہ بات جلسے جلوسوں سے نہیں بنے گی بلکہ اس کے لیے عوام سے محبت کا ثبوت بھی دینا پڑے گا۔