Saturday, 28 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Molana Ka Plan B

Molana Ka Plan B

مولانا کے مخالفین اور حامی دونوں یک زبان ہو کر ایک بات پر تو متفق نظر آتے ہیں کہ وہ اس ملک کے سب سے زیادہ زیرک سیاستدان ہیں اور یہ مولانا کے زیرک ہونے کی ہی نشانی ہے کہ کوئی بھی شخص حتمی طور پر مولانا کے دھرنے کے اغراض و مقاصد کے حوالے سے بات نہیں کر پا رہا تھا۔ اسی ابہام کے ساتھ وہ دھرنا بدھ کی شام ختم ہو کر "پلان بی" میں بدل دیا گیا۔

جہاں ایک طرف مولانا کے دھرنے کے اغراض و مقاصد کو لے کر شدید کنفیوژن پائی جاتی ہے وہیں پر سازشی تھیوریز کا ایک انبار ہے جو اپنے اپنے طریقے سے مولانا کے دھرنے کی وجوہات کو بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان سب سے ہٹ کر سب سے اہم سوال یہ ہیں کہ مولانا کے اس دھرنے سے عمران سرکار کا سیاسی نقصان کیا ہوا؟ کون سیاسی طور پر مرا اور جیا؟

ن لیگ، پیپلزپارٹی کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟ مولانا اسلام آباد سے کیا حاصل کر کے اٹھے؟ دنیا کو کیا پیغام ملا؟ دھرنے سے کشمیر کا مسئلہ دفن ہو گیا یا اجاگر ہوا؟ فریقین کے درمیان کون کیا پیغام رسانی کرتا رہا؟ اس دھرنے سے حکمرانوں کی صفوں میں کتنی دراڑیں پڑ یں؟ کون ملک سے بھاگنے والا ہے؟ کون کون وفاداریاں تبدیل کرنے کا سوچ رہا ہے؟پارلیمنٹ کے اندر سے تبدیلی آئی ہے؟یا عمرانی سرکار ہی پانچ سال چلتی جائے گی؟

کیا بادی النظر میں یہ محسوس نہیں کیا گیا کہ دھرنے میں مولانا فضل الرحمن نے متنازعہ اور سخت گفتگو کی؟ خیر ان سوالوں کے جوابات تو شاید ہمیں کبھی نہ مل سکیں مگرایک فائدہ تو ہوا کہ مولانا نے دور پسماندہ علاقوں سے لوگوں کو لا کر اسلام آباد ضرور دکھا دیا، ان "باصلاحیت" لوگوں کی اکثریت نے پاکستان کا دارالحکومت بھی شاید پہلی بار ہی دیکھا ہو گا اور ان کا احساسِ محرومی بھی ضرور بڑھا ہو گا مگر دھرنے کا سیاست سے ہٹ کر ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اس کے شرکاء منظم بھی رہے، کہیں طوفان بدتمیزی بھی نہیں دیکھا گیا، اور نہ ہی کہیں کسی جگہ لوٹ مار یا بلاوجہ ٹریفک کے روکنے کے واقعات سامنے آئے۔

لیکن یہ کیا! دھرنے کا پلان بی تو اس کے برعکس نظر آ رہا ہے، کہا جا رہا ہے کہ پورے ملک کو بند کر دیں گے، اپنے اعلان میں مولانا نے کہا کہ میں شہریوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ سڑکوں پر نکل آئیں۔ میرے خیال میں مولانا نے اپنے تئیں فیس سیونگ کی ہے۔ اگر اب کی بار خدانخواستہ پلان بی پر عملدرآمد ہو گیا تو ایک بار پھر ملک میں تحریک لبیک جیسی صورتحال نظر آئے گی، شاہراہوں اور چوراہوں پر آگ کے دھوئیں اُٹھتے نظر آئیں گے، موٹروے تک کو بلاک کر دیا جائے گا۔

سوال یہ ہے کہ ایسے میں حکومت کہاں ہے؟ کیا اُس نے فری ہینڈ دے دیا ہے؟ ریاست کی رٹ کہاں ہے؟ ہم اپنے ملک کی حفاظت کا بندوبست پہلے سے کیوں نہیں کرتے؟ جیسی باتیں مولانا نے کی ہیں اور پلان بی سی وغیرہ پر عمل کرنے کا عندیہ دیا ہے کیا ملک اس کا متحمل ہو سکتا ہے؟ اور خدارا یہ تو ایک ایسی روایت پڑ رہی ہے کہ جس کا دل چاہے گا، وہ 50 ہزار یا لاکھ بندہ اکٹھا کرے گا اور ملک کو بند کر دے گا۔

ماضی میں ہم نے ملک کی اہم ترین جگہوں پارلیمنٹ یا پی ٹی وی کی عمارتوں پر بھی حملے ہوتے دیکھے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ماضی میں جب بھی ملک کی شاہراہوں کو بند کیا گیا تو پاکستان کئی سال پیچھے چلا گیا، بیرونی سرمایہ کاری کے راستے بند ہو گئے، اپنے ہی لوگوں نے پاکستان سے منہ پھیر لیے اور ان دھرنوں کی بدولت پاکستان کے اپنے کاروباری لوگ دوسرے ملکوں میں بسیرا کر گئے۔

بہرحال دھرنا ختم ہو گیا، پلان بی پر تا دم تحریر چند شاہراہوں پر عمل بھی شروع کر دیا گیا ہے، چمن شاہراہ روک دی گئی ہے، ابھی اکا دکا شاہراہ ہی روکی گئی ہے، افسوس کہ ہم اُس وقت ہوش میں آئیں گے جب پورا ملک بند ہو گا اور اہم بدقسمت شہری محصور ہو کر رہ جائیں گے، شادیوں کا سیزن ہے، عوام مشکلات کا شکار ہوں گے، ایمبولینسز میں بہت سے مریض دم توڑ جائیں گے، ویسے بھی جاڑے میں بہت سے مریض اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں اور اسپتال بھر جاتے ہیں تو اس صورت میں ایسی روایات غلط ہیں، انھی غلط رویوں کی بدولت آج اس نظام میں بے شمار دراڑیں بن چکی ہیں اور ان دھرنوں نے ان دراڑوں کو مزید گہرا کیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کو ہم اپنے کالموں میں مسلسل باور کرا رہے ہیں کہ ان کے چند وزرا ایک خاص سوچ کے تحت اپوزیشن کو اشتعال دلانے کے مشن پر ہیں۔ اسی طرح کا معاملہ ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار کے آخری دونوں میں پیش آیا تھا۔ جب ان کے اقتدار کا سورج غروب ہو رہا تھا تو غلام مصطفی کھر، ڈاکٹر غلام حسین، مولانا کوثر نیازی اور عبدالحفیظ پیرزادہ اپوزیشن کو دھمکیاں دے رہے تھے۔ اسی کے نتیجے میں پانچ جولائی 1977ء کا سانحہ پیش آیا۔

وزیر اعظم عمران خان کے چند وزرا بھی اسی راہ پر گامزن ہیں مگر بدقسمتی سے عمران خان کو اپنے ان وزرا کے ایجنڈے کا احساس نہیں۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ مولانا کا یہاں تک آنا ہی غلط تھا، اور جب یہ بات بھانپ لی گئی تھی کہ اُن کے آنے کا مقصد واضح نہیں ہے اور نہ ہی کوئی سنجیدہ مطالبہ ہے تو انھیں وہیں روک دینا چاہیے تھا۔ لیکن ان وزراء کی کوشش تھی کہ مولانا کو آنے دیں، پاور شور کر نے دیں تاکہ ان کے حوصلے بلند ہوں، ان وزراء کے لیے میر تقی میرؔ کا یہ شعر عرض کیاہے :

پتا پتا، بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

بہرکیف مولانا فضل الرحمٰن ایک زیرک اور سنجیدہ منطق کے حامل سیاستدان ہیں، لہٰذا ملک کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر ابھی بھی وقت ہے کہ مولانا کو روکا جائے، انھیں رام کیا جائے، بقول حکومت کے اگر وہ دھرنے والوں کو گھر بھیجنے میں کامیاب ہوئی تو یقینا ملک کے لیے یہ اچھی بات ہے، اب ریاست اپنی رٹ بھی قائم کرے۔ کیوں کہ دنیا کے جن ممالک میں ریاست کی رٹ قائم ہے وہ ملک ترقی کر رہے ہیں، فرانس میں حال ہی میں پیلی جیکٹ کے شرکاء نے زبردست احتجاج کیا، جو 10ہفتوں تک چلا، پوری دنیا نے دیکھا کہ ایک مہذب ملک میں پرتشدد احتجاج ہو رہا ہے، لیکن فرانسیسی حکومت نے مظاہرین کو ایک حد سے قطعاََ آگے جانے نہیں دیا، ریاست کی رٹ بھی قائم رہی اور کسی نے فرانس پر انگلی بھی نہیں اُٹھائی۔ لہٰذا حکومت انتہائی دانشمندی سے مولانا کو "کوراپ" دے۔

اس حوالے سے چوہدری برادران نے بھی مرکزی کردار نبھایا ہے لیکن انھیں بھی حکومت سے شکایت ہے کہ جب کھیل بننے لگتا ہے تو اُن کے وزراء ٹانگ اڑا دیتے ہیں لہٰذا عمران خان کو چاہیے کہ وہ چوہدری برادران ہی کے ذریعے افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کروائیں!