دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کی مضبوطی، پائیداری اور کامیابیوں کے تسلسل کا راز قابل، محنتی اور ایماندار بیوروکریسی ہوتی ہے۔ سیاست دان آتے جاتے رہتے ہیں، تاہم بہترین بیوروکریسی پالیسیو ں کے تسلسل کو برقرار رکھتی ہے۔ لیکن یہی بیوروکریسی جب کرپشن کا شکار ہو جائے تو ریاست زوال پذیر ہونا شروع ہوجاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حکمران ہی بیوروکریٹس کو خلاف ضابطہ کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں، کیسے؟ اس سوال کی تہہ میں جانے سے پہلے ایک خبر قارئین سے شیئر کرنا چاہتا ہوں کہ گزشتہ دنوں پنجاب پولیس کے افسران کے خلاف سرکاری فنڈز کی خردبرد کے انکشافات سامنے آئے۔ جن کی تفصیل اخباروں میں چھپ چکی ہے۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا وجہ ہے کہ جو سرکاری افسر جتنی بڑی سیٹ پر بیٹھتا ہے، وہ اتنی ہی زیادہ کرپشن کیوں کرتا ہے؟ میں اپنی سوچ کے مطابق چند مفروضے بیان کرتا ہوں۔ فرض کیا کہ ایک ضلع کے ڈی پی او کی تنخواہ تمام مراعات کے ساتھ 2لاکھ روپے ہے۔ کیا دو لاکھ روپے میں گریڈ19یا 20کا آفیسر اپناگھر چلا سکتا ہے؟ گریڈ 17کے افسر کی ابتدائی تنخواہ تقریباً 40 ہزار روپے ہے جب کہ لاہور، اسلام آباد میں اگر آپ گھر میں ایک ڈرائیور رکھنا چاہتے ہیں تو اس کی تنخواہ بھی تقریبا 20 اور 25 ہزار کے قریب ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ اس کی رہائش اور کھانا پینا مفت ہوتا ہے، یوں اس کی تنخواہ اور دیگر مراعات شامل کریں تو گریڈ 17 کے افسر سے زیادہ ہو جاتی ہے۔ کیا اتنی تنخواہ میں کسی بھی سرکاری افسر کے گھر کا بجٹ پورا ہو سکتا ہے؟ اس تنخواہ میں تو شاید وہ گھر کا کرایہ بھی ادا کرنے کی حیثیت نہیں رکھتا اور نہ ہی اپنے بچوں کو مناسب تعلیم مہیا کرسکتا ہے۔
اگر ہم گریڈ 17 کے اسسٹنٹ کمشنر، اسسٹنٹ سپریٹنڈنٹ پولیس، اسسٹنٹ کلیکٹرکسٹم اور اسسٹنٹ کمشنر انکم ٹیکس کے اختیارات دیکھیں تووہ بے پناہ قانونی طاقت رکھتے ہیں۔ وہ کسی کو بے پناہ فائدہ پہنچا سکتا اور اسی تناسب سے اسے نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔
برصغیر کی تقسیم اور قیام پاکستان پر لکھی گئی مشہور کتاب "فریڈم ایٹ مڈ نائٹ"کے مطابق انگریزوں نے برصغیر میں صرف آٹھ ہزار سرکاری افسروں کے ذریعہ کم وبیش ڈیڑھ صدی تک حکمرانی کی۔ انگریز سرکاری افسروں جنھیں برصغیر میں انتظامی امور چلانے کے لیے تیار کیا جاتا تھا، انھیں تین ہدایات دی جاتی تھیں۔
ایک جب وہ برصغیر میں کسی اہم انتظامی عہدہ پر فائز ہوں گے تو صرف انصاف کریں گے۔ دوسری ہدایت یہ ہوتی تھی وہ کرپشن یا رشوت خوری میں کسی صورت ملوث نہیں ہوں گے۔ تیسری ہدایت یہ تھی کہ وہ مقامی لوگوں کے مذہبی اور ثقافتی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کریں گے۔ یہ تین "خفیہ ہتھیار" تھے جن کے ذریعہ صرف آٹھ ہزار انگریز افسر ایک صدی سے زیادہ اتنے بڑے خطے پر کامیابی سے حکومت کرتے رہے۔ انگریز افسران کی تنخواہ و مراعات اس قدر تھیں کہ اُس کے افسران رشوت کا سوچتے بھی نہیں تھے۔
8000انگریز بیوروکریٹس، اور ایک لاکھ تیس ہزار مقامی بیوروکریٹس تمام برصغیر(پاکستان، انڈیا و بنگلہ دیش) جس کی آبادی تیس کروڑ تھی کو سنبھالتے تھے۔ اُس وقت ایک انگریز بیورو کریٹ کی تنخواہ اوسطاََ 1800پاؤنڈ اور مقامی بیوروکریٹ کو 1200پاؤنڈ مل جاتے تھے۔ آپ انگریز کے تیار کردہ کمشنر آفس، ڈپٹی کمشنر آفس، گورنر ہاؤس اور دیگر سرکاری دفاتر دیکھ لیں۔ تمام عمارتیں کشادہ اور منفرد ہیں، انگریزنے ایسا اس لیے کیا کہ جس آفیسر کے سامنے شہر کے امیر ترین افراد کھڑے ہوں گے، انھیں معلوم ہو کہ جس کے روبرو وہ کھڑے ہیں، وہ واقعی "اعلی اور بااختیار " افسر ہے۔
جب پاکستان بن گیا تو 60، 70اور 80کی دہائی میں سول سرونٹس بڑی حد تک اپنی ذمے داریاں دلجمعی سے پوری کرتے رہے۔ 90کی دہائی سے رحجان بدلنے لگا، اس وقت جو نیم جمہوری سیاسی نظام چل رہا تھا اس دور میں حکومتیں اور اپوزیشن باہم دست وگریباں رہتی تھیں۔ پولرائیزیشن کے اس ماحول میں بیوروکریسی نے اپنی کھال بچانے کے لیے کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے وفاداری کو بطور ڈھال استعمال کرنا شروع کیا، اس عمل کو سول سروس کی POLITICISATION کہا جاتاہے۔ آج کل صورتحال یہ ہے کہ ہزاروں حاضر اور ریٹائرڈ سرکاری افسروں کے خاندانوں نے دوہری شہریت حاصل کرلی ہے۔
اب یہ ضروری ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا ڈھانچہ اس طرح بننا چاہیے کہ ایک عام گھر کا خرچ اس کی تنخواہ سے آسانی سے پورا ہو سکے۔ یہ تجربہ سنگاپور میں کامیابی سے چلایا گیا ہے جس کی وجہ سے اس وقت سنگاپور کے سرکاری ملازمین دنیا بھر میں بہترین تنخواہیں پانے والے ملازمین ہیں۔ سنگاپور نے سرکاری ملازمین کے لیے سخت ترین احتساب کا نظام بھی رکھا ہے۔ آپ انڈیا کی مثال لے لیں جہاں ایک سیکریٹری (19گریڈ سے اوپر) کی تنخواہ 8لاکھ (پاکستانی روپے) جب کہ لوک سبھا کے ممبر کی تنخواہ محض 2لاکھ روپے بنتی ہے۔
آج پاکستان کا یہ حال ہے کہ ٹیچر ٹیوشن پڑھائے بغیرگھر نہیں چلا سکتا، انجینئر کمیشن لیے بغیر گزارہ نہیں رہ سکتا، بیوروکریٹ وائٹ کالر کرائم کیے بغیر اپنا سماجی اسٹیٹس مینٹین نہیں کر سکتا، ایک ادنیٰ سا کلرک بھی مالی خرد برد کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس میں قصور افسروں اور ملازمین کا نہیں ہے، بلکہ بااختیار اور پالیسی سازوں کا ہے۔ حکومت جب مہنگائی کرتی ہے تب بھی نہیں سوچتی کہ تنخواہ دار طبقہ کیسے گزارہ کرے گا۔ پھر کوئی بھی اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھانے کو تیار نہیں ہے۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت گورنمنٹ اسکول ناکام کیے گئے، اور پرائیویٹ اسکول مافیا عوام پر مسلط کی گیا۔
آپ اندازہ لگائیں کہ ایک دوست جو 19ویں گریڈ کی افسر ہیں، تنخواہ ڈیڑھ لاکھ روپے ہے، آپ نے ایک گریڈ 19کے افسر کو اسٹیٹس تو اعلیٰ افسر کا دے دیا مگر تنخواہ اُس کا منہ چڑھا رہی ہوتی ہے۔ الغرض کوئی بیوروکریٹ اس تنخواہ میں نہ تو اچھی گاڑی خرید سکتا ہے، نہ بچوں کو اچھے اسکول میں داخل کرا سکتا ہے، اور نہ کسی اچھے گھر میں رہ سکتا ہے جب کہ اس کا مقابلہ انتہائی طاقتور اور ظالم سیاسی، مالیاتی، جرائم اور دہشت گرد مافیا سے ہے، آپ خود ہی سوچ لیں، جیت کس کی ہوگی۔