Saturday, 28 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Talaba Union: Pehlay Siyasi Asar O Rasookh Ka Khatma, Phir Bahali

Talaba Union: Pehlay Siyasi Asar O Rasookh Ka Khatma, Phir Bahali

اسّی کی دہائی کی بات ہے جب ہم بھی طالب علم ہوا کرتے تھے، جی سی کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی ہمارا دوسرا گھر ہوتا، ان جامعات کے در و دیوار مختلف قسم کے نعروں سے بھرے رہتے، طلبہ کی پُرجوش تنظیمیں "سیاسی قوت" کی وجہ سے کسی کو خاطر میں نہ لاتیں، بسا اوقات تو اساتذہ بھی سر پکڑ کر بیٹھے رہتے، لڑائی جھگڑوں کے "فلمی سین" روزانہ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے عکس بند کیا کرتے، کالجز اوریونیورسٹیوں میں دادا گیری عام تھی۔

نئے آنے والے طلبہ بھی ان سے "متاثر" ہوئے بغیر نہ رہتے اور تعلیمی سال کے آغاز ہی میں ان تنظیموں میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے پر تولتے، نئے اور پرجوش "خون" کی شمولیت سے تنظیموں کو بھی آکسیجن مل جاتی۔ اور جب کوئی نئی حکومت آتی یا کسی طلبہ تنظیم سے متعلقہ "سیاسی جماعت" کا الیکشن سر پر ہوتا تو ان تنظیموں کو بھی ٹارگٹ مل جاتا۔ اہم بات کہ تعلیمی اداروں میں نصابی اور مثبت تفریحی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہوتیں جب کہ "غیر نصابی" سرگرمیاں عروج پر پہنچ جاتیں، ان تنظیموں سے وابستہ معصوم طلبہ جنھیں محض استعمال کیا جاتا وہ اکثر یہ شعر یا اس طرح کے شعر زبان پر لیے پھرتے نظر آتے:

اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں، زندانوں کی خیر نہیں

یہ دریا جو جھوم کر اُٹھیں گے، تنکوں سے نہ ٹالے جائینگے

پر تشدد ماحول کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ میرے یونیورسٹی و کالج کے 8 سالہ دور طالب علمی میں کم و بیش 20 طلبہ جاں بحق اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے وقت بدل گیا، ریاستی اداروں کو ہوش آیا پھر 1984 میں ان طلبہ تنظیموں پر پہلی بار پابندی لگا دی گئی، حالانکہ اس پابندی کے پیچھے جنرل ضیاء الحق کے اپنے مفادات تھے۔

اس کے بعد 1989 میں محترمہ بینظیر نے ان تنظیمات پر سے پابندی اُٹھائی اور کالجوں اور یونیورسٹیوں میں یونین کے غیر جماعتی انتخابات کرائے۔ جس کے نتیجے میں پنجاب یونیورسٹی سے اسلامی جمعیت طلبہ، انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے قائداعظم اسٹوڈنٹ فیڈریشن (QSF) جب کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے انجمن طلبہ اسلام (ATI) جیتی تھی۔ ملتان سے جمعیت کے مقابلے میں تمام تنظیمیں (ایم ایس ایف، پی ایس ایف، اے ٹی آئی، جے ٹی آئی وغیرہ) ذکریا طلبہ اتحاد کے نام سے اکٹھی ہو گئی تھیں۔

اسی طرح زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے زرعی انقلابی کونسل کے نام پر تمام جمعیت مخالف عناصر متحد تھے۔ لاہور میں سائنس کالج وحدت روڈ اور اسلامیہ کالج سول لائنز جمعیت کا گڑھ تھے جب کہ ایم اے او کالج اور دیال سنگھ کالج سے ایم ایس ایف جیتی تھی۔ ناخوشگوار عمل یہ تھا کہ جب کسی کالج میں کوئی تنظیم جیت جاتی تو وہ مخالف تنظیم کا جینا دو بھر کر دیتی، پنجاب یونیورسٹی میں تو یہاں تک دیکھا کہ ان طلبہ تنظیموں کے لیڈرز 40، 40 سال کی عمر تک طالب علم ہی رہتے، جو ہر سال مختلف شعبہ جات میں داخلہ لے لیتے۔ یونیورسٹیوں کے ہاسٹلز انھی افراد سے بھر جایا کرتے تھے۔

اور ان ہاسٹلز کے مکمل اختیارات بھی انھی یونینز کے پاس ہوا کرتے تھے۔ پروفیسرز حضرات بھی خوفزدہ رہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ پھر یونین کے انتخابات کرانے ممکن نہ رہے، حتیٰ کہ مکمل پابندی لگی اور پھر آہستہ آہستہ غیر منظم طلبہ تنظیمیں تحلیل ہو گئیں، ان کے بعض رہنماء گھناؤنے جرائم میں ملوث ہو گئی اور جہاں ان تنظیموں نے بیشتر سیاسی رہنماء دیئے وہیں جرائم پیشہ افراد بھی پیدا کیے، جو بعد میں لاہور کے "ٹاپ ٹین" بھی کہلائے۔ میں یہاں کسی کا نام تو نہیں لینا چاہتا مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ یہ طلبہ لائبریری جانے کے بجائے جیلوں میں جانا زیادہ پسند کرتے تھے اور ہاں اس حوالے سے اگر سندھ کی بات نہ کی جائے تو یہ سرا سر زیادتی ہو گی۔

کیوں کہ انھی دنوں کراچی میں مہاجر قومی موومنٹ کی طلبہ تنظیم ’اے پی ایم ایس او، کا کنٹرول ہو چکا تھا، کراچی یونیورسٹی، کراچی کے میڈیکل کالجز اور دیگر اداروں میں کسی کی ہمت نہیں تھی کہ سر اٹھا سکتا تاہم جمعیت نے کراچی میں اے پی ایم ایس او کسی حد تک مقابلہ کیا، طلبہ "یونین انتخابات" کے چکر میں کئی نام نہاد تنظیمیں بھی سرگرم ہوئیں جس سے مختلف یونیورسٹیوں میں کیمپس پر قبضے کا ایسا کھیل شروع ہوا جس سے اگلے کئی برسوں میں بہت خون بہا۔

یونیورسٹیاں ہر بار ٹکراؤ کے بعد کئی کئی ماہ تک بند رہتیں۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد جو خالصتاً ٹیکنیکل، پروفیشنل نوعیت کا تعلیمی ادارہ ہے، وہ 90ء کے عشرے کے وسط میں اکثر بند رہتی۔ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور(UET) کا چار سال کا کورس ان دنوں چھ سات برس سے پہلے مکمل نہیں ہو پاتا تھا۔ 90ء کے عشرے کے اواخر میں سپریم کورٹ نے طلبہ یونین پر پابندی لگائی، تعلیمی اداروں میں ہر قسم کی سیاسی سرگرمیاں بین قرار دی گئیں اور ہر طالب علم سے اس بارے میں بیان حلفی لیا جانے لگا، تب جا کر سکون ہوا۔

ایوبی آمریت کے خلاف تحریک میں طالب علم رہنماؤں نے کلیدی کردار ادا کیا اور حسن ناصر، معراج محمد خان، عثمان کینیڈی اور دوسرے رہنما سیاسی میدان میں ابھر کر سامنے آئے۔ بہر کیف اب ایک بار پھر طلبا یونینز کی بحالی کی تحریک شروع ہو گئی ہے۔ طلبا نے احتجاج کرنا شروع کر دیا ہے کہ ان کی یونینز کو بحال کیا جائے۔ طلبا کا یہ مطالبہ بھی کسی حد تک جائز ہے اور وقت کی ضرورت بھی ہے۔ مگر اس بات کی یقین دہانی کون کرائے گا کہ تعلیمی اداروں میں اجارہ داری قائم کرنے کے لیے ایک بار پھر قتل وغارت کا سلسلہ شروع نہ ہو جائے۔ اس لیے طلبہ یونین کی بحالی کے بجائے یونیورسٹیوں، کالجوں میں اسٹوڈنٹ "سوسائٹیز" کو سپورٹ کرنا چاہیے۔ اگر یونین بحالی کرنا ہی چاہتے ہیں تو اس کے لیے مکمل قانون سازی کی جائے، جلد بازی سے کام نہ لیا جائے۔

سائنس سوسائٹی، آرٹس سوسائٹی، ہسٹری سوسائٹی، جغرافیہ، لٹریچر سوسائٹی وغیرہ کے انتخابات کرائے جائیں، مثبت سرگرمیاں ہوں، تقریری مقابلے، کوئز، ڈرامہ وغیرہ۔ ان سوسائٹیز سے چند طلبہ کو بطور نمایندہ یونیورسٹی کے انتظامی سٹرکچر میں جگہ دی جائے۔ یہ طلبہ اپنے مسائل اٹھا سکیں گے۔

ایسا کرنے والے چونکہ حقیقی طالب علم ہوں گے، اس لیے یہ سرگرمی ٹھوس اور بامقصد رہے گی۔ لہٰذا طلبا یونینز پر سیاسی جماعتوں کا اثر و رسوخ ختم ہونا چاہیے۔ تاکہ طلبا سیاسی جماعتوں اور قائدین کا آلہ کار نہ بن سکیں۔ حکومت وقت کے ساتھ ساتھ طلبا تنظیموں اور ان کے حمایتیوں کو ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے ہوں گے۔ صرف طلبا یونینز کی بحالی سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اس کے لیے ایک میکنزم بنانا پڑے گا، کچھ اصول و ضوابط طے کرنے ہوں گے۔ وگرنہ طلبا یونینز کی بحالی سے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے۔