ایک اچھی کتاب کے ساتھ گزرا وقت کئی مسالہ فلموں، سیزن، ڈرامے دیکھنے اور سوشل میڈیا میں برباد کئے گئے بے شمار بیکار گھنٹوں سے بہتر ہے۔ کسی بھی موضوع پر اچھی کتاب پڑھنے کے بعد آدمی پہلے جیسا نہیں رہتا، اس کے اندر کہیں تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ سوچنے، سمجھنے، چیزوں کو دیکھنے کا زاویہ نظر ہی بدل جاتا ہے۔ صرف کتابیں ہی ایسی قوت رکھتی ہیں جو انسان کے اندر پختگی، دانش اور بالیدگی لاتی ہیں۔ اگلے روز اپنے منجھلے بیٹے کو سمجھا رہاتھا کہ جو بچے اپنے بہت سے قیمتی گھنٹے فری فائر اور پب جی جیسی ویڈیو گیمز دیکھنے میں ضائع کررہے ہیں، انہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں، دس سال تک مسلسل یہ گیمز کھیلنے والے لڑکے کے اندر بھی کسی قسم کا فکری، جذباتی، عقلی ارتقا نہیں ہوگا۔ وہ پہلے کی طرح بے وقوف، کندذہن، سطحی اور اتھلا رہے گا۔
اچھی، معیاری کتابیں ہمارے اندر گہرائی پیدا کرتی ہیں۔ کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کتاب پڑھنے کے بعدبندہ دنگ رہ جاتا ہے۔ یہی خیال آتا ہے کہ یہ کتاب کئی برس پہلے کیوں نہیں پڑھنے کو ملی، ورنہ شائد زندگی آج مختلف ہوتی۔ رواں سال دو اچھی چیزیں سیکھیں۔ پی ڈی ایف کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالی اور اپنے پسندیدہ موضوعات کی فہرست کو وسیع کیا۔ پی ڈی ایف کے حوالے سے اب یکسو ہوچکا ہوں کہ اگر مطالعے میں وسعت لانا ہے، دنیا بھر کی معروف کتب پڑھنی ہیں تو پھر پی ڈی ایف پڑھے بغیر گزارہ نہیں۔
ایک کلیشے نمابات سن سن کر کان پک گئے کہ کتاب کی ورق گردانی میں عجب لطف ہے، کتاب کی اپنی مہک ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ بھئی ہوتی ہوں گی، ہم انکار نہیں کرتے۔ میں ہزاروں روپے نئی کتابیں خریدنے پر صرف کرتا ہوں، ہر کتاب میلے میں اچھی خاصی خریداری ہوتی ہے، اس کے علاوہ جہاں کہیں کوئی نئی اچھی کتاب دیکھی، اسے لینے کے لئے دل مچل جاتا ہے۔ آن لائن خریداری نے یہ معاملہ آسان کر دیا۔ آرڈر کریں، دو تین دنوں میں کتاب گھر پہنچ جاتی ہے۔ میری اہلیہ اس حوالے سے بہت فراخ دل ہیں۔ کتابوں کے ہر بنڈ ل کا وہ ایسی خوشی سے استقبال کرتی ہیں کہ بسا اوقات ان کی سہیلیاں برہم ہوتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ خاکسار کو پنجابی محاورے کے مطابق "چَوڑ " اور سرائیکی محاورے کے مطابق "چَوڑ چپٹ "کرنے میں بیگم کا ہاتھ ہے۔ ہماری اہلیہ کا البتہ یہ خیال ہے کہ کتابوں سے بڑی دولت کوئی نہیں اور انہی کی وجہ سے ہمارے گھر میں برکت ہے۔ کتاب پڑھنے کا انہیں وقت نہ ملے تب بھی وہ خوشی سے اسے اٹھاکر چند منٹ ورق گردانی ضرور کرتی ہیں۔ بہت بار اپنی پڑھی کتابوں کی تفصیل سب سے پہلے گھرمیں ان کے ساتھ ہی شیئر کرتا ہوں۔ خود کو اس حوالے سے خوش قسمت سمجھتا ہوں۔
یہ واضح رہے کہ نئی کتابیں ضرور خریدی جائیں، اگر خریدار نہیں ہوں گے تو کتابیں کیوں شائع ہوں گی، رائٹرز کو معاوضہ نہیں ملے تو وہ آخر اتنی محنت کاہے کو کریں گے؟ اس کے ساتھ ساتھ کتابوں کی پی ڈی ایف پڑھنے کی بھی عادت ڈالیں۔ بعض چیزوں کا ذائقہ (Taste) ڈویلپ کرنا پڑتا ہے۔ ای بکس کا بھی یہی ماجرا ہے۔ اب تو "ادیب آن لائن" جیسی ایپ بھی آ چکی ہے جہاں پر بے شمار کتابیں فری اور کچھ کتابیں ادائیگی کر کے پڑھی جا سکتی ہیں، ادیب آن لائن نے کئی رائٹرز کو باقاعدہ رائلٹی دے کر ڈیجیٹل رائٹس لے رکھے ہیں۔
میرا اپنا طریقہ یہ ہے کہ پاکستانی کتابوں کی خریداری کو ترجیح دی جائے، جو کتابیں یہاں دستیاب نہیں، ان کا پی ڈی ایف لنک ملے تو چپکے سے ڈائون لوڈ کر لی جائیں۔ بہت سی پاکستانی کتابوں کی پی ڈی ایف موجود ہیں، کئی دوست بھیج دیتے ہیں۔ ضرورت ہے تو اسے پڑھ لیتا ہوں، مگر آگے فارورڈکرنے سے گریز کرتا ہوں۔ مجھے پی ڈی ایف اور ای بکس کا زیادہ فائدہ بھارتی اور یورپی، امریکی کتابوں کی صورت میں ملا ہے۔ ان میں سے بہت سی کتابیں پاکستان میں موجود نہیں یا اشاعت کے سال ڈیڑھ بعد آتی ہیں۔ میں نے استقامت کے ساتھ ان پی ڈی ایف کتابوں کو ڈیسک ٹاپ مانیٹر پر پڑھنے کی عادت ڈال لی ہے۔ اکیس انچ کے مانیٹر پر پڑھنا آسان ہوجاتا ہے، لیپ ٹاپ پر بھی پڑھ لیتا ہوں، موبائل پر البتہ مجھے عادت نہیں۔
رواں سال پی ڈی ایف کی وجہ سے بہت سی مشہور کتابوں تک رسائی ممکن ہوئی۔ پہلے نان فکشن کتابوں کی بات کرتے ہیں۔ آپ بیتی مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھنے والا شخص جو اپنی بائیوگرافی لکھے یا لکھوائے تو وہ بے شک اس کا مقصد اپنی صفائی پیش کرنا ہوتا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ کئی مسنگ لنکس بھی پر کرتا ہے۔ اس کے تجربات کا نچوڑ سامنے آتاہے۔ اس سال زیادہ تر بائیوگرافیز زیرمطالعہ رہیں، ان میں سیاست (سیاستدانوں)، کھیل، فلم سے متعلق کتابیں نمایاں تھیں۔ چند ایک کتابیں تاریخ اور عمرانیات سے بھی متعلق تھیں۔ عسکریت پسندی سے متعلق خاصا کچھ پڑھا۔ مغربی پڑوسی ملک میں جو کچھ ہوتا رہا، اس سے متعلق بہت سا مغربی مواد نظر سے گزرا۔ خفیہ ایجنسیوں (سی آئی اے، موساد، را)سے متعلق کئی کتابیں ڈائون لوڈ کیں، خاص کر ان کے فیلڈ ایجنٹس اور سربراہان کی لکھی کتابیں توجہ سے دیکھیں۔ ہماری اپنی پریمئیر ایجنسی سے متعلق مغرب میں خاصا مواد شائع ہوا ہے، ان کا مخصوص تعصب اور اینگلنگ نمایاں تھی، مگر ان کے مائنڈ سیٹ کو سمجھنے کے لئے دیکھتا رہا۔
سیلف ہیلپ، موٹیویشنل مواد میری ہمیشہ سے دلچسپی کا مرکز رہا ہے۔ اپنے آپ میں بہتری آ سکے یا نہ آسکے، ان موضوعات پر پڑھتا ضرور رہتا ہوں۔ وزن کم کرنا اور زندگی میں ڈسپلن لانے، خاص کر" پروکراسٹی نیشن" یعنی ناقص ٹائم مینجمنٹ اور کاہلی وغیرہ پر تو اتنا پڑھا ہے کہ بیسٹ سیلر کتابیں لکھ سکتا ہوں۔ عمل البتہ نہیں ہو پاتا۔ چکن سوپ سیریز اگر کسی نے نہیں پڑھی تو اپنے ساتھ ظلم کیا ہے۔ جیک کین فیلڈ کی یہ کتابیں کروڑوں میں فروخت ہوچکی ہیں۔ ان کی درجن بھر کتب کی ای بکس حاصل کر لی ہیں۔ دیکھیں کب ان کی باری آئے۔ مویٹویشنل مواد کے حوالے سے ہمارے پیارے دوست اور عالمی ٹرینر، ماہر نفسیات عارف انیس ملک کی کتاب صبح بخیر زندگی چند ماہ پہلے شائع ہوئی، اس نے چھپنے سے پہلے ہی فیس بک پر باقاعدہ تہلکہ مچایا۔ عارف انیس ملک عام موٹیویشنل سپیکر نہیں بلکہ وہ ٹرینر ہیں اور ٹونی بوزان، جیک کین فیلڈ، ٹونی رانبس جیسے مایہ ناز لوگوں کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ صبح بخیر زندگی سے کئی نئی باتیں سیکھیں۔
ونود مہتا ممتاز بھارتی صحافی اور آئوٹ لک میگزین کے ایڈیٹر تھے، ان کی کتاب لکھنوبوائے عرصے سے ڈھونڈ رہا تھا۔ اس کی پی ڈی ایف مل گئی، کتاب پسند آئی، اس پر دو کالم بھی لکھے، ونود مہتا کی دوسری کتاب" ایڈیٹر اَن پلگ" بھی دلچسپ ہے۔ مہتا نے بالی وڈ کی ساحرہ مدھو بالا پر بھی کتاب لکھی ہے۔ بھارتی صحافیوں میں کئی بڑے ناموں نے بہت اچھی کتابیں لکھی ہیں۔ کرن تھاپر کی "ڈیولز ایڈووکیٹ" پر پچھلے سال کالم لکھا تھا، ان کے سنڈے کالموں کا مجموعہ بھی ملا، دلچسپ لگ رہا ہے، ان شااللہ اگلے سال اسے بھی پڑھ لیں گے۔ ایم جے اکبر بہت سینئر بھارتی صحافی، سیاستدان اور سابق وزیر مملکت برائے امور خارجہ ہیں، انہوں نے بہت سی کتابیں لکھ رکھی ہیں، ان میں سے ایک دو ہاتھ آئیں ہیں، جنوری میں ان شااللہ نمٹیں گے۔ ویرسنگھوی بھی معروف بھارتی صحافی اور ٹی وی اینکر ہیں، ان کی بائیوگرافی ایک دوست نے بھیجی ہے، امید ہے کہ ہماری دلچسپی کا مواد ملے گا۔
سابق بھارتی وزیر خارجہ نٹور سنگھ کی کتاب "ایک زندگی کافی نہیں " بہت دلچسپ ہے، اس میں کئی انکشافات ہیں، ان پر دو کالم لکھ چکا ہوں، ممکن ہے ایک آدھ اور بھی لکھنا پڑے۔ نٹور سنگھ کی ایک اور کتاب" واک ودھ لائنز" بھی دلچسپ لگ رہی۔ بھارت کے پاکستان میں سابق سفیر جے این ڈکشٹ ببرک کارمل کے زمانے میں افغانستان میں بھارتی سفیر تھے، انہوں نے افغانستان ڈائریز کے نام سے کتاب لکھی تھی، آئوٹ آف پرنٹ ہے، مگر اس کی پی ڈی ایف میرے ہاتھ آ گئی۔ اس میں خان عبدالغفار خان کے حوالے سے بڑے دلچسپ کمنٹس ہیں، ممکن ہے ہمارے پختون قوم پرست دوست پڑھ کر خوش نہ ہوں۔ تب کے افغانستان کو سمجھنے کے لئے اچھا سورس ہے۔ اندراگاندھی، راجیو اور آج کے مودی فیکٹر کو سمجھنے کے لئے چند ایک بڑی عمدہ کتابیں ملی ہیں۔ اللہ ہمت اور وقت دے تو انہیں پڑھ کر قارئین کے ساتھ شیئر کروں گا۔ ان میں سے دو کا حوالہ اگلی نشست میں آئے گا۔
قاضی جاوید مرحوم نے برسوں پہلے معروف بھارتی مصنف نراد سی چودھری کا ذکر کیا اور ان کی ایک بہت مشہور کتاب "آٹو بائیوگرافی آف این اَن نون انڈین" کابہت تعریف کی۔ قاضی صاحب کے بقول اس کتاب نے ان کی آنکھیں کھول دی۔ یہ کتاب کئی لائبریریوں میں تلاش کی، نہیں ملی۔ پی ڈی ایف لنکس کی برکت سے اس کے دونوں حصے مل گئے۔ ظالم نے بڑی اوکھی وکٹورین انگریزی لکھی ہے، مگر ہم بھی سر پھوڑ کر کچھ نہ کچھ برآمد کر ہی لیں گے۔ ولی نصر کی کتابیں بھی حاصل کر چکا ہوں، اگلے سال کے مطالعے کی فہرست میں شامل ہیں۔ مڈل ایسٹ اور خاص کر وہاں شیعہ، اینٹی شیعہ اثرات کے حوالے سے اس کا کام اہم ہے۔ (جاری ہے)