Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Aam Intikhabat Mein Kya Nai Cheezain Samne Ayen

Aam Intikhabat Mein Kya Nai Cheezain Samne Ayen

انتخابات 2024کا عمل خدا خدا کرکے مکمل ہوا، تین چار دنوں کے بعد تمام نتائج سامنے آ ہی گئے۔ اس الیکشن کے بارے میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے۔ ہم نہ بھی کہہ سکیں تو عالمی ادارے، الیکشن مینجمنٹ تنظیمیں اور عالمی میڈیا کے موقر اخبارات اور چینلز جو کچھ کہہ رہے ہیں، اس سے پورے عمل پر کئی سوالات اٹھے ہیں، بہت کچھ دھندلا گیا ہے۔ خیر ہم اس بحث میں ابھی جاتے ہی نہیں۔

کچھ دیر کے لئے سب اعتراضات، فارم پنتالیس، دھاندلی الزامات، عوامی احتجاج اور الیکشن کمیشن، عدالتوں میں دائر درخواستوں کو نظر انداز کرکے الیکشن کمیشن کے تسلیم کردہ نتائج کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس میں بھی کئی بہت دلچسپ اور نئے چیزیں سامنے آئی ہیں۔ نئی اس حوالے سے کہ وہ باتیں پہلے بھی کہی جاتی تھیں، مگربہت سے سیاستدان اور تجزیہ نگار انہیں تسلیم نہیں کرتے تھے۔

فافن کی رپورٹ کے مطابق ملک میں اڑتالیس فیصد ٹرن آوٹ رہا، پنجاب میں یہ اکاون فیصد رہا، جبکہ باقی صوبوں میں نسبتاً کم تھا۔ ویسے اس روز تجزیہ نگاروں کا اندازہ تھا کہ ٹرن آوٹ زیادہ رہا ہے۔ یقینی طور پر موبائل فون کی بندش سے کچھ منفی اثر پڑا ہوگا، ممکن ہے چند فیصد بڑھ جاتا۔ بہرحال بارہ کروڑ رجسٹرڈ ووٹرز میں سے پانچ کروڑ سے زیادہ لوگوں نے ووٹ ڈالا۔

سیاسی جماعتوں اور الیکشن کمیشن کو اگلے الیکشن میں ٹرن آوٹ بڑھانے کا سوچنا چاہیے۔ اس کے لئے پوسٹل بیلٹ کی آپشن کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے، اوورسیز ووٹرز کو بھی کسی نہ کسی انداز میں شامل کرنا چاہیے، بے شک ان کے لئے چند نشستیں مخصوص کر لیں جیسا کہ ن لیگ کی تجویز تھی، مگر بیرون ملک پاکستانیوں کو سٹیک ہولڈر بنانا ضروری ہے۔

سب سے سادہ اورصاف بات یہ سامنے آئی ہے کہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ افراد کو ملک بھر میں سب سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ اس اعتبار سے تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی اور مقبول ترین جماعت ہے۔ نیوز چینلز پر چلنے والی رپورٹس کے مطابق الیکشن میں تحریک انصاف نے تینتیس فیصد ووٹ یعنی ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ ووٹ حاصل کئے۔ پچھلی بار(2018) تحریک انصاف کو بتیس فیصد کے قریب ووٹ ملا تھا۔ مسلم لیگ ن کو پچھلی بار چوبیس فیصد ووٹ ملا تھا، اس بار بھی ان کا ووٹ چوبیس فیصد یعنی ایک کروڑ تینتیس لاکھ ہے۔ پیپلزپارٹی کو پچھلی بار تیرہ فیصد ووٹ ملا تھا، اس بار پیپلزپارٹی نے چھہتر لاکھ یعنی چودہ فیصد ووٹ لئے۔ بات قابل فہم ہے کیونکہ پی پی پی نے اس بار دیہی سندھ میں زیادہ نشستیں اور ووٹ لئے جبکہ پنجاب سے بھی وہ زیادہ نشستوں پر نبردآزما ہوئی، مگر فرق معمولی سا ہے۔

تحریک انصاف نے پچھلے انتخابات میں ڈیڈھ کروڑ سے زیادہ ووٹ لئے تو ن لیگ، پی پی پی اور جے یوآئی وغیرہ نے ان نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ بلاول بھٹو مسلسل عمران خان کو سلیکٹڈ وزیراعظم کہتے رہے، اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھی سے بننے والا لیڈر بھی بہت بار کہا جاتا رہا۔ ان انتخابات نے بہرحال یہ ثابت کر دیا کہ عمران خان بھی مقبول اور طاقتور عوامی سیاستدان ہیں اور ان کی پارٹی بھی ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے جس نے انتخابی نشان نہ ہونے، قیادت اور اہم رہنمائوں کی اسیری، کارکنوں کے لئے مسائل، الیکشن کمپین نہ چلائے جانے کے باوجود تمام سیاسی جماعتوں سے زیادہ ووٹ لئے۔ قومی اسمبلی میں ابھی تک ان کے حمایت یافتہ اراکین کی اکثریت ہے۔ پنجاب اور کے پی میں تحریک انصاف کی حمایت ہونے پر بہت سے ایسے نووارد غیر معروف لوگ بھی جیتے ہیں، جنہیں سیاسی سلینگ کے مطابق کھمبا جیتنا کہا جاتا ہے۔

ان انتخابات میں ایک اور دلچسپ بات یہ بھی سامنے آئی کہ تحریک انصاف صرف سوشل میڈیا یا شہری طبقے کی جماعت نہیں۔ پنجاب کے کئی خالصتاً دیہی نشستوں سے ان کے نئے اورکمزور امیدوار بڑا ووٹ لے کر جیتے ہیں۔ بہت سے ایسے بھی جو ہار گئے مگر انہوں نے ستر اسی ہزار ووٹ لے کر بہت سخت مقابلہ کیا۔ جنوبی پنجاب میں کئی نشستوں پر ایسا ہوا۔ زرتاج گل ڈی جی خان سے ساٹھ ہزار سے زیادہ کے فرق سے لغاری سرداروں کے امیدوار کو ہرا کر جیت گئیں۔ ڈی جی خان کی دیگر دو سیٹیں اب ن لیگ کو دی گئی ہیں، مگر وہاں پر پی ٹی آئی کے کمزور امیدواروں نے بہت زیادہ ووٹ لئے اور بعض ذرائع کے مطابق وہ خاصی لیڈ سے جیت گئے تھے۔

یہی بہاولپور اور رحیم یار خان کے اضلاع میں ہوا۔ لودھراں میں جہانگیر ترین والے حلقے سے ایک نوجوان جسے الیکشن سے صرف دو دن پہلے تحریک انصاف نے اپنا امیدوار بنایا، اس کا نام بھی کوئی نہیں جانتا تھا، وہ پچاس ہزار سے زیادہ ووٹ لے گیا۔ فیصل آباد میں تو ایک طرح سے تحریک انصاف نے کلین سوئپ کیا۔ گوجرانوالہ اور شیخوپورہ جو ن لیگ کے مضبوط گڑھ تھے، وہاں تحریک انصاف نے بڑا شگاف ڈال دیا۔ لاہور میں عالیہ حمزہ اور ڈاکٹر یاسمین راشد نے جیل سے الیکشن لڑا اور دونوں لاکھ سے زیادہ ووٹ لے گئیں۔ بیرسٹرسلمان اکرم راجا گو ابھی تک ہارے ہوئے ہیں، مگر انہوں نے ایک لاکھ انسٹھ ہزار ووٹ لئے ہیں، لطیف کھوسہ نے خواجہ سعد رفیق جیسے تگڑے رہنما کو ساٹھ پینسٹھ ہزار کی لیڈ سے ہرایا۔ یہ اچھی بات ہوئی کہ دیہی علاقوں میں کئی الیکٹ ایبل ہار گئے اور بہت سوں کو دانتوں پسینہ آ گیا۔ سیاسی کلچر کی جیت ہے کہ ایک کارکن اپنی پارٹی کی حمایت سے مخالف بڑے جاگیردار کو ہرا دے یا سخت مقابلہ کرے۔

ایک اور دلچسپ کام یہ ہوا کہ جو دو نئی پارٹیاں بنی تھیں اور بظاہر جن کا کام سیاسی جوڑ توڑ اورلیوریج کے لئے استعمال ہونا تھا، دونوں بری طرح پٹ گئیں۔ استحکام پاکستان پارٹی کے جہانگیر ترین دونوں سیٹیں بری طرح ہار کر پارٹی قیادت سے مستعفی ہوگئے۔ یہی کام اب خیبر پختون خواکے سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک کوکرنا پڑا۔ الیکشن میں وہ بری طرح ہارے اور اپنے ساتھ کئی دیگر تگڑے امیدواروں کو بھی لے ڈوبے۔ سابق وزیراعلیٰ محمود خان اپنے آبائی حلقے سے یوں ہارے کہ تیسرے چوتھے نمبر پر ہیں۔ کھمبیوں کی طرح اگ آنے والی ان چھوٹی پارٹیوں کا صفایا مستقبل بنیادوں پر کام کرنے والی بڑی پارٹیوں کے لئے اچھی خبر ہے۔

اس الیکشن میں بلاول بھٹو نے لاہور سے الیکشن لڑا، وہ ہار گئے مگر ان کا پنجاب میں آنا خوش آئند ہے۔ امید ہے کہ نوجوان بلاول آئندہ بھی لاہور میں اپنا سیاسی بیس کیمپ بنا کر پنجاب پیپلزپارٹی کو فعال رکھیں گے۔ ملک گیر سیاسی جماعتوں کا ہونا خوش آئند ہے، کسی بڑی سیاسی جماعت کا ایک صوبے تک محدود ہوجانا اچھی خبر نہیں۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ دونوں نے کئی سال بعد بلوچستان سے پھر خاصی نشستیں حاصل کی ہیں۔ وہاں بھی باپ پارٹی بہت کمزور ہوئی ہے اور الیکٹ ایبلز کو ن لیگ اور پی پی کا رخ کرنا پڑا تھا۔ یہ بھی اچھی بات ہے۔ قومی سیاسی جماعتیں اگر مقامی الیکٹ ایبلز کو ساتھ ملا لیں، تب بھی ان کا طرز سیاست کسی اقتدار کی خواہش مند چھوٹی پارٹی سے مختلف اور بہتر ہوگا۔

الیکشن میں بارہ خواتین الیکشن لڑ کر کامیاب ہوئیں، ان میں تحریک انصاف کی شاندانہ گلزار، زرتاج گل، عائشہ نذیر جٹ، انیقہ بھٹی، امبر مجید نیازی جبکہ ن لیگ کی جانب سے مریم نواز شریف، نوشین افتخار، شذرہ منصب، تہمینہ دولتان جبکہ پی پی سندھ کی شازیہ مری، نفیسہ شاہ منتخب ہوئیں، کراچی سے آسیہ اسحاق ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر لڑیں۔ خواتین کا جنرل سیٹوں پر آگے آنا اچھا ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے پنجاب سے بعض خواتین امیدوار کامیاب نہیں ہوپائیں، مگر انہیں ٹکٹ ملنا بھی خوشگوار امر ہے۔ جیسے لاہور سے یاسمین راشد اور عالیہ حمزہ، پنڈی سے عذرا مسعوداور سیمابیہ طاہر، منڈی بہاوالدین سے کوثر پروین بھٹی، وہاڑی سے سبین صفدر بندیشہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ پیپلزپارٹی نے بونیر سے ایک غیر مسلم خاتون ڈاکٹر سویرا پرکاش کو ٹکٹ دیا، تاہم وہ الیکشن ہار گئیں۔ خواتین کا جنرل الیکشن میں آگے آنا مثبت امر ہے۔

ان انتخابات میں مذہبی جماعتوں کو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ جماعت اسلامی کو طویل عرصے بعدقومی اسمبلی کی ایک نشست بھی نہیں مل سکی۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے امارت سے استعفاد ے دیا ہے۔ جے یوآئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ڈی آئی خان سے بری طرح شکست کھا گئے، ان کے دونوں بیٹے بھی ٹانک اور لکی مروت سے ہارے۔ جے یوآئی نے پچھلے عام انتخابات کی نسبت نصف سے بھی کم سیٹیں لیں، انہیں چار نشستیں مل پائیں جن میں مولانا فضل الرحمن کی پشین سے سیٹ شامل ہے۔ جے یوپی کے مختلف دھڑوں کو بھی ناکامی ہوئی۔ تحریک لبیک پاکستان نے خاصے ووٹ حاصل کئے مگر قومی اسمبلی کی سیٹ نہ مل سکی، انہیں پنجاب اسمبلی کی صرف ایک نشست ملی۔ مجلس وحدت مسلمین نے تحریک انصاف سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تحت کے پی کے ضلع کرم سے ایک نشست حاصل کی۔ مذہبی جماعتوں کی یہ ناکامی ان کے لئے لمحہ فکر ہے۔ وہ اتحاد نہ بناتے لیکن اگر سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہی کر لیتے تو ممکن ہے نشستیں بڑھ جاتیں۔