Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Ab Khana Badal Kar Dekhain

Ab Khana Badal Kar Dekhain

ایک سفید کاغذ لیں، اس کے درمیان میں ایک لکیر بائیں سے دائیں کھینچیں، ایک لکیر اوپر سے نیچے۔ یوں جمع (+)کا نشان بن جائے گا۔ چار خانے بن جائیں گے۔ بائیں سے شروع کریں، انہیں ون، ٹو، تھری، فور کہہ لیں یا ایک، دو، تین چار۔

اس باکس کے گراف میں اوپر بائیں طرف اہم یا امپورٹنٹ لکھ دیں، نیچے بائیں طرف غیر اہم یا ناٹ امپورٹنٹ لکھ دیں جبکہ ٹاپ پر پہلے ارجنٹ اور پھر ناٹ ارجنٹ لکھ دیں۔

یوں چار خانے بن جائیں گے، پہلا خانہ امپورٹنٹ ارجنٹ کا ہوگا، دوسرا امپورٹنٹ ناٹ ارجنٹ کا جبکہ تیسرا خانہ ناٹ امپورٹنٹ ارجنٹ کا بن جائے گا، چوتھا خانہ ناٹ امپورٹنٹ، ناٹ ارجنٹ کا بنے گا۔

یہ چار خانے یا کواڈرینٹ کہلاتے ہیں اور ماڈرن مینجمنٹ یا سمارٹ ورکنگ میں ان کی بڑی اہمیت ہے۔ میں نے پہلی بارپندرہ سولہ سال قبل معروف مینجمنٹ ایکسپرٹ اور ٹرینر سٹیفن آر کوووی کی کتاب" پراثر لوگوں کی سات عادات " میں یہ بات پڑھی تھی۔ سٹیفن آرکووی کی سیون ہیبٹس یا سات عادات کی پوری سیریز ہے، پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔

آج دوسرے خانے یا کواڈرینٹ ٹو پر بات کرنا چاہ رہا ہوں۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا، کئی کتابیں اسی نام سے ہے۔ گوگل پر کواڈرینٹ ٹو (quadrant 2)کے نام سے سرچ کریں تو بہت کچھ مل جائے گا، دلچسپی رکھنے والے پڑھ سکتے ہیں۔ دراصل ان چاروں خانوں پر غور کریں تو بہت کچھ واضح ہوجائے گا۔ پہلا خانہ ارجنٹ امپورٹنٹ کا ہے یعنی وہ اہم کام جو ارجنٹ (ہنگامی نوعیت کے) ہیں، ان سے بچنا ممکن نہیں۔ اس میں زیادہ تر ایمرجنسی نوعیت کی چیزیں آجاتی ہیں۔ میڈیکل ایمرجنسی، اچانک ٹائر پنکچر ہوجانا، بل بھرنے کی آخری تاریخ، اسائنمنٹ جمع کرانے کا آخری موقعہ وغیرہ۔ ہرحال میں ان کاموں کو نمٹانا پڑتا ہے، چاہے رات بھر جاگنا پڑے۔

دوسرے خانے پر بعد میں بات کرتے ہیں۔ تیسرا خانہ ناٹ امپارٹنٹ ارجنٹ کا ہے۔ ایسے کام جو غیر اہم ہیں مگر فوری نوعیت کے بن گئے۔ ان سے وقت کا ضیاع ہوتا ہے مگر بعض اوقات بھگتنا پڑتا ہے۔ اچانک مہمانوں کا گھر آجانا، بلاوجہ ای میل چیک کرنا، کسی فون کال کو سننا وغیرہ۔ چوتھا خانہ ناٹ امپورٹنٹ ناٹ ارجنٹ کا ہے یعنی نرا وقت ضائع کرنا۔ گھنٹوں ٹی وی دیکھنا، سوشل میڈیا پر سکرولنگ کمنٹس میں کئی گھنٹے اڑا دینا، جنک میلز، بلاوجہ کے فون میسجز وغیرہ وغیرہ۔

دوسرا خانہ یعنی کواڈرینٹ ٹو سب سے اہم ہے۔ ایسے کام جو ارجنٹ نہیں ہیں مگر وہ حقیقی طور پر اہم ہیں۔ مثال کے طور پر اپنے معمول (روٹین)کے میڈیکل چیک اپ، گاڑی بائیک وغیرہ کو ٹھیک ٹھاک رکھنا، بیوی بچوں کے لئے وقت نکالتے رہنا۔ اسی طرح قریبی دوستوں سے رابطے میں رہنا، باقاعدگی سے ورزش واک وغیرہ کرنا، اپنی اسائنمنٹس کو بروقت نمٹا لینا، بل کی آخری تاریخ کا انتظار کئے بغیر انہیں بھر دینا۔

اس دوسرے خانے میں فوکس کرنے اور کچھ وقت لگا کر اہم کاموں کو بروقت کر لینے کا فائدہ یہ ہے کہ ایمرجنسی پیدا نہیں ہوتی۔ یوں پہلے خانہ یا کواڈرینٹ ون پر دبائو کم ہوجاتا ہے۔ اگر وقت پر میڈیکل چیک اپ کرا رہے ہوں گے تو بیماری کو ابتدا ہی میں کنٹرول کر لیں گے، گاڑی کی کسی خرابی کو بروقت ٹھیک کرنے سے وہ اچانک دھوکہ نہیں دے گی، اسی طرح دیگر چیزیں ہیں۔ اپنے گھر میں کوالٹی وقت دیتے رہیں گے تو گھر بھی پرسکون رہے گا۔ دوستوں سے رابطہ رہے گا تو مشکل وقت میں وہ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔

مینجمنٹ کے ماہرین یہی مشورہ دیتے ہیں کہ اپنی زندگی کے معمولات یوں ترتیب دیں کہ خانہ نمبر دو یا کواڈرینٹ ٹو میں مناسب وقت دیا جائے اور پہلے خانے کو مینیج کریں جبکہ تیسرے اور چوتھے خانے کو گریز کریں۔ یہ سب بہت اہم ہے اور قارئین میں سے اگر کوئی اپنی زندگی میں یہ سب اچھی تبدیلیاں لے آئے تو یقینی طور پر اسے اس کے ثمرات ملیں گے۔ بطور لکھاری مجھے بھی خوشی ہوگی، یہ سب لکھنے کا مقصد مگر صرف ایک فرد کی اصلاح نہیں ہے۔

میرے نزدیک خانہ ٹو یا کواڈرینٹ ٹو پر فوکس کرنا قوم یا ملک کے لئے بھی ضروری ہے۔۔ یہ بہت ضروری ہے۔ آپ اسی ماڈل کو فرد کی جگہ قوم پر اپلائی کر دیں۔ جس طرح ایمرجنسی افراد کی زندگیوں میں آتی ہے، ویسے ہی قوموں کو بھی ایسی ایمرجنسی بھگتنا پڑتی ہیں۔ آپ پاکستان ہی کو دیکھ لیں اور سوچیں کہ ہمارے ہاں روز مرہ کے ایشوز میں کتنے معاملات خانہ ایک اور خانہ تین کے ہیں یا پھر چوتھے خانے میں وقت ضائع کیا جاتا ہے۔ دوسرے خانہ میں سب سے کم توجہ ہے، یہی وجہ ہے کہ عدم توجہ اور پہلے سے مناسب تیاری نہ کر نے کی وجہ سے بار بار ایمرجنسی پیدا ہوتی ہے۔

آپ ایک ایک کرکے بڑے ایشوز گنتے جائیں۔ سیلاب کیوں آتے ہیں؟ ہر سال جب زیادہ بارشیں ہوجائیں تب پہلا مسئلہ یہی پیدا ہوتا ہے کہ سیلاب آ جائے گا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہم نے بڑے ڈیمز نہیں بنائے جہاں زیادہ پانی کو سٹور کیا جا سکے۔ ہم نے دریائوں کے روٹ میں بستیاں آباد ہونے دی ہیں۔ لوگ وہاں فصلیں اگاتے ہیں اور کچے بھر بنا لیتے ہیں۔ حکومت تماشا دیکھتی رہتی ہے۔ جب بارشیں زیادہ ہوں، پیچھے سے سیلابی ریلے آئیں یا بھارت پانی زیادہ چھوڑ دے تو پھر دریا کے پانی نے تو اپنے مخصوص راستے ہی پر بہنا ہے۔ اگر وہاں بستیاں ہوں تو فطری بات ہے تیز پانی کے ریلے گھر گرا دیں گے، فصلیں تباہ کر دیں گے۔ یوں بیٹھے بٹھائے ایک ایمرجنسی پیدا ہوجائے گی، جس پر اربوں کھربوں قومی خزانے کے خرچ ہوجائیں گے۔

تھوڑا غورکریں گے تو بہت سی ایسی باتیں نظر آجائیں گی، جن پر بروقت توجہ کرنے سے ہم بحران سے بچ سکتے ہیں۔ بعض معاملات میں ہم ایسا کر بھی لیتے ہیں جیسے اگر گندم کم کاشت ہوئی تو بروقت باہر سے منگوا لی جائے۔ تاہم اگراچھے بیج اور فصلوں کی پیدوار بڑھانے پر توجہ دی جائے تو یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوسکتا ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں ایسا ہی ہے، خود بھارت نے ایسا کیا ہے۔ بجلی کا بحران ہے لیکن اگر سولر انرجی اور دیگر متبادل ذرائع پر چند سال پہلے توجہ دی ہوتی، لوگوں کو سولر سالوشن کے لئے لیز پر قرضے دے دئیے جاتے تو آج لاکھوں گھر شمسی توانائی پر شفٹ ہوجاتے اور واپڈا کا خاصا لوڈ کم ہوجاتا۔

اب یہ گزشتہ روز چلنے والے بٹ گرام، الائی میں چیئرلفٹ کا بحران ہی دیکھ لیں۔ اس میں دو چیزیں ہیں۔ ایک تو یہ ان پہاڑی علاقوں میں کام کرنے والی ان چیئرلفٹ کی صورتحال زیادہ بہتر نہیں۔ بہت سی جگہوں پر لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بنائی ہیں، کہیں پر سرکار نے مدد کی بھی تو اس کا فالواپ سسٹم ہے ہی نہیں۔ ایسی چیئرلفٹ کو اگر باقاعدگی سے ماہانہ، سہ ماہی بنیاد پر چیک کیا جاتا ہو تو یہ ممکن نہیں کہ اچانک تار ٹوٹ جائے۔

دوسرا ہمارے ہاں ابھی تک ریسکیو کے لئے مناسب سسٹم کیوں نہیں بنا؟ ایک بڑا ادارہ اس کام کے لئے بنایا گیا، اس نے ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے مناسب منصوبہ بندی کیوں نہیں کر رکھی؟ ترکی سے پاکستان ایسے ہیلی کاپٹر لے سکتا ہے جو پورا ٹرک اٹھا کر لے جائیں۔ اس چیئرلفٹ کی پوری ڈولی کو اٹھانے کی صلاحیت ہی ہمارے ریسکیو اداروں کے پاس نہیں۔ کسی روز پتہ چلتا ہے کہ شہر کی عمارت کو آگ لگی تو آگ بجھانے والوں کے پاس چوتھی پانچویں منزل سے اوپر کی آگ بجھانے کی صلاحیت ہی نہیں۔ آخر کیوں؟ یہ سب چیزیں بروقت اور پہلے سے ہو جانی چاہئیں۔

پچھلے دو ہفتوں میں دو جگہوں پر معصوم بچیوں کے ساتھ ہولناک واقعات ہوئے۔ اسلام آباد میں ایک سول جج کے گھر کام کرنے والی بچہ پر خوفناک تشدد ہوا، شکر ہے کہ اس کی جان بچ گئی۔ دوسرا واقعہ دیہی سندھ کا ہے جہاں رانی پور میں ایک پیر کے گھر کام کرنے والی بچی کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ دونوں جگہوں پر ملکی قانون کی خلاف ورزی ہو رہی تھی۔ چائلڈ لیبر ایکٹ کے مطابق چودہ سال سے کم عمر بچے، بچی کو کہیں ملازمت کے لئے نہیں مجبور کیا جا سکتا۔ پاکستان میں لاکھوں نوعمر بچے کام کر رہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں؟ آخر قوانین پر عمل درآمد کس نے کرانا ہے؟

سول جج نے چھوٹی عمر کی بچی کیوں ملازم رکھی؟ اس لئے کہ ہزاروں لاکھوں گھروں میں ایسا ہی ہو رہا ہے؟ قانون پر عمل نہیں کیا جاتا، اس مقصد کے لئے بنائے محکمے کچھ بھی نہیں کرتے۔ جب کوئی افسوسناک واقعہ ہوجاتا ہے تب ہر کوئی جاگتا ہے۔ پوری قوم تب سر پیٹتی ہے مگر چند دنوں کے بعد سب بھول بھال کر وہی سب کچھ کرتے ہیں۔ جڑانوالہ میں مسیحی آبادی کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ بھی یہی معاملہ ہے۔ اس قسم کی شدت پسندی کو بروقت کیوں نہیں روکا جاتا۔ ایسے لوگوں کو عبرت کی مثال کیوں نہیں بنایا جاتا جو لوگوں کے جذبات بھڑکا کر فساد برپا کرتے ہیں؟

ہمیں ان چیزوں پر غور کرنا چاہیے۔ ہم کب تک پہلے اور تیسرے خانے میں زندگیاں گزاریں گے۔ خانہ دو یا کواڈرینٹ ٹو پر فوکس کریں۔ فرد کی زندگی ہو یا ریاست کے معاملات، اگر ہم پہلے سے منصوبہ بندی کر لیں تو بہت سے حادثات، سانحات اور بحرانوں سے بچ سکتے ہیں۔ زرا کوشش تو کرکے دیکھیں۔ اب خانہ ہی بدل کر دیکھ لیں۔